اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
پیر

31 اکتوبر 2022

5:53:20 PM
1319128

دنیا کے آخری کونے “پیٹاگونیا” میں نقل مکانی، غاصب صہیونیوں کا حتمی انجام

"ارجنٹائن کے جنوب میں پیٹاگونیا کے باشندوں کی بدسلوکی ایسے حال میں بڑھ گئی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس علاقے میں نئے آنے والے یہودی در حقیقت اسرائیلی فوجی ہیں"۔

 پیٹاگونیا (Patagonia) چلی اور ارجنٹائن کے جنوب ميں ایک وسیع علاقے کا نام جس کی آبادی 20 لاکھ کے قریب ہے۔ اس سرزمین کا رقبہ نو لاکھ کلومیٹر مربع ہے۔ یہ علاقہ دنیا کا آخر (The end of the world) بھی کہلاتا ہے اور قدرتی عجائب سے مالامال ہے۔
پیٹاگونیا کے مغرب اور جنوب میں سلسلہ کوہ انڈیز (Andes mountains) واقع ہے اور یہ مشرق کی طرف سے زیریں صحرائی علاقے میں گھرا ہؤا ہے۔ پیٹاگونیا کا وہ علاقہ جو چلی میں واقع ہے، جنوب میں شہر پویرتو مونت (Puerto Montt) سے اور ارجنٹائن کے حصے میں دریائے کلوراڈو (Colorado River) سے شروع ہوتا ہے۔
یہ علاقہ خوشگوار آب و ہوا کے حوالے سے مشہور ہے مگر جس چیز نے حالیہ برسوں میں لاطینی امریکہ کے ذرائع ابلاغ اور سیاسی حلقوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے، وہ یہاں کی آب و ہوا اور اس کے بے مثل قدرتی مناظر نہیں، بلکہ یہودیوں کے ہاتھوں اس سرزمین کی خریداری اور یہودیوں کی اس سرزمین میں منتقلی ہے۔
یہ مسئلہ صرف ایک دعویٰ نہیں ہے بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جو آج، پہلے سے کہیں زیادہ، حقیقت کا جامہ پہن چکی ہے۔ صہیونیت کے ابتدائی راہنماؤں میں سے تھیوڈور ہرزل (Theodor Herzl) نے اپنی کتاب “یہودی ریاست” (Der Judenstaat = The Jewish State) میں بھی یہودیوں کی یورپ سے ارجنٹائن یا فلسطین میں منتقلی کی ضرورت کے سلسلے میں کئی دلیلیں بیان کی ہیں۔
معتدل آب و بوا، بھرپور معدنی ذخائر اور قلیل آبادی وہ خصوصیات ہیں جو یہودیوں کے لئے بہت دلچسپ ہیں۔ اسی وجہ سے کئی سالوں سے ارجنٹائن اور چلی کے بہت سے سیاستدان یہودی سرمایہ کاروں کے ہاتھوں پیٹاگونیا کی اراضی کی خریداری پر تنقید کر رہے ہیں، لیکن توقع کے مطابق ان دو ملکوں کے بڑے ذرائع ابلاغ اس مسئلے کو ہوا نہیں دے رہے ہیں۔
پیٹاگونیا میں یہودیوں کی سرگرمیوں کے بارے میں چلی کے ایک سینیٹر کے انکشافات
اسی سلسلے میں صہیونی ریاست کے ایک اخبار ہا آرتص نے دسمبر 2013ع‍ میں ایک رپورٹ کے ضمن میں چلی کے ایک سینٹر اوگینو توما (Eugenio Tuma) کے حوالے سے لکھا تھا:
“اسرائیل پیٹاگونیا کو دنیا کے یہودیوں کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے”۔ ہاآرتص نے مزید لکھا تھا: اس چلیائی سینٹر – جو چلی کے ایوان نمائندگان میں خارجہ کمیٹی کے سربراہ بھی رہے ہیں – کا کہنا ہے کہ “چلی کی حکومت سیاحت کے پس پردہ رونما ہونے والے واقعات کے سلسلے میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتی؛ کیونکہ اسرائیل کے ہزاروں ریزرو فوجی تسلسل کے ساتھ پیٹاگونیا کا دورہ کرتے نظر آتے ہیں”۔
اس چلیائی سینٹر نے اس سے بھی بڑھ کر حالیہ برسوں میں ایسی رپورٹیں شائع ہیں جن میں زور دے کر کہا گیا ہے پیٹاگونیا پر قبضے کا منصوبہ سویٹزل لینڈ بازل (Basel) تھیوڈور ہرزل کی سربراہی میں صہیونی کانگریس کے 29 تا 31 اگست 1897ع‍ میں منعقدہ افتتاحی اجلاس میں پیش گیا تھا، ایسی سرزمین کا دو لاکھ چھپن ہزار کلومیٹر مربع حصہ چلی کی سرحدوں کے اندر اور سات لاکھ ستاسی ہزار کلومیٹر مربع علاقہ ارجنٹائن کی سرحدوں کے اندر واقع ہے، اور گویا طے پایا ہے کہ دنیا کے یہودیوں کی متبادل سرزمین قرار دیا جائے۔
ادھر چلی کے دارالحکومت سینٹیاگو (Santiago) کے یہودی راہنما نے “پارٹی برائے جمہوریت” (Party for Democracy) کے راہنماؤں کے نام اپنے خط میں مطالبہ کیا تھا کہ سینٹر توما کے موقف کی مذمت کریں اور انہیں اپنے منصب سے برخاست کر دیں۔
صورت حال یہ ہے کہ پیٹاگونیا جانے والے بہت سے سیاحوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں بڑی تعداد میں یہودی فوجی موجود ہیں اور لوگ عبرانی زبان سیکھ رہے ہیں۔
یہ سب ایک برطانوی یہودی ارب پتی کی کارگزاریاں ہیں
ایک ایرانی سفارت کار محسن پاک آئین اس بارے میں لکھتے ہیں:
“ارجنٹائنی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل نے برطانوی خفیہ ایجنسیوں اور صہیونیت کے حامیوں کی مدد سے پیٹاگونیا میں وسیع اراضی خرید لئے ہیں؛ اور حال ہی میں ارجنٹائن کے بعض ذرائع ابلاغ نے برطانیہ کے یہودی ارب پتی جوزف لوئس (Joe Lewis) کے ہاتھوں لاکھوں یہودیوں کو بسانے کے لئے پیٹاگونیا کی سرزمینوں کی خریدار پر حیرت اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔۔۔ اس برطانوی ارب پتی نے ارجنٹائن اور چلی کے درمیان کے علاقوں میں وسیع اراضی خرید لئے ہیں اور مشہور ہے کہ یہ اس علاقے میں اس شخص کی جائیداد اسرائیل کے رقبے سے کئی گنا زیادہ بڑی ہے۔ اس برطانوی یہودی کی خریدی ہوئی اراضی کا بڑا حصہ ٹیرا ڈیل فیوگو (Tierra del Fuego) نامی علاقے میں واقع ہے اور وہ اس سے بھی زیادہ اراضی لاگو ایسکونڈیڈو (Lago Escondido) کے علاقے میں خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے”۔
اسرائیلی پناہ گزینوں سے پیٹاگونیا کے مقامی لوگوں کا غیظ و غضب
اخبار گارڈین نے 15 جولائی 2015ع‍ کو، اسرائیلی [بظاہر] سیاحوں سے ارجنٹائنی پیٹاگونیا کے مقامی باشندوں کے شدید غیظ و غضب پر مبنی رپورٹ شائع کی۔ رپورٹر نے لکھا تھا کہ اس علاقے میں موجود یہودیوں کو یہاں کے اصل باشندوں کی طرف سے بد سلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
گارڈین نے ہزاروں میل دور سے پیٹاگونیا میں آٹپکنے والے یہودیوں کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے لکھا تھا:
“ارجنٹائن کے جنوب میں پیٹاگونیا کے باشندوں کی بدسلوکی ایسے حال میں بڑھ گئی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس علاقے میں نئے آنے والے یہودی در حقیقت اسرائیلی فوجی ہیں”۔
گارڈین نے ارجنٹائن کے یہودی گروپوں کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ “یہود مخالف اقدامات اور نازیت (Nazism) کے حق میں نعروں میں شدید اضافہ ہؤا ہے اور لوگ پیٹاگونیا سے یہودیوں کے نکل جانے کے خواہاں ہیں”۔
فلسطین سے بھآگ کر جانا، یہودیوں کا حتمی انجام
آج سے چند سال پہلے تک مقبوضہ فلسطین میں یہودی قابضوں کے مظالم سے ظاہر نہیں ہو رہا تھا کہ وہ اس سرزمین سے بھاگنے کے منصوبے بنا رہے ہیں، کیونکہ – ہمارے قارئین و صارفین سمیت – دنیا کے بہت سے لوگ شاید پیٹاگونیا کے نام اور محل وقوع سے ناواقف ہیں، تو انہیں بہرحال حیرت ہوگی کہ نیل سے فرات تک کی اسلامی سرزمینوں پر قبضہ جمانے کا خواب دیکھنے والی صہیونی اس دور دراز کے علاقے اراضی خرید رہے ہیں اور اس کو اپنی متبادل سرزمین سمجھ رہے ہیں۔ چنانچہ یہودیوں کے لئے ایک متبادل سرزمین کا مسئلہ غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے، جس کی نشر و اشاعت کی کہیں بھی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ بہرصورت، حالات کافی بدل گئے ہیں، غاصب اور جعلی یہودی ریاست کو کم از کم تین اطراف – لبنان، شام اور غزہ کی طرف سے محاصرے میں لیا گیا ہے اور کم از کم گذشتہ ایک عشرے سے یہودیوں کی الٹی نقل مکانی میں شدت آئی ہے۔ اس سے پہلے بھی بعض ذرائع نے کہا تھا کہ صہیونی عمائدین فلسطین سے یہودیوں کی کینیڈا، پولینڈ اور جنوبی سوڈان میں یہودیوں کی نقل مکانی کے منصوبے کا جائزہ لے رہے ہیں۔
سنہ 2021ع‍ اور جاری سال (2022ع‍) کے واقعات کی وجہ سے صہیونی حکام اور ذرائع نے بارہا واضح کیا ہے کہ 74 سالہ یہودی ریاست اپنی 80ویں سالگرہ نہیں دیکھ سکے گی؛ اور یہودی نظریہ پرداز اور متفکرین بھی (ان کے بقول) “مقدس سرزمین” میں یہودیوں کی بقاء کو ناممکن قرار دے چکے ہیں۔ نیز بعض سیاسی مبصرین کو بھی یقین ہے کہ یہودی – ایک شدید اور طویل المدت جنگ چھڑنے کی صورت میں – سرزمین فلسطین کو بے دھڑک ترک کرکے بھاگ جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔