اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
اتوار

4 ستمبر 2022

5:12:27 PM
1303227

عزا کی انجمنوں میں بدترین دشمن کی دراندازی!

کیا یہ طے نہیں تھا کہ ہم امام حسین (علیہ السلام) کے لئے کام کریں گے؟ کیا یہ ہمارا روز الست کے دن کا عہد یہی نہیں تھا کہ اللہ کے لئے کام کریں گے اور امام حسین (علیہ السلام) کے لئے کام درحقیقت اللہ کے لئے ہے جنہوں نے اپنی پوری دنیا خدا کی راہ میں قربان کی ہے؟

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ یہ سوچ – کہ ہمیں نوجوانوں کو مکتب امام حسین (علیہ السلام) کی طرف راغب کرنا چاہئے، – کہاں سے ہمارے ذہنوں میں آئی؟ کیا صدام کے خلاف لڑنے والے نوجوان اس بات کی پروا کرتے تھے کہ کون راغب ہوتا ہے کون نہیں ہوتا؟ کیا آیت اللہ بہجت اور آیت اللہ فاطمی نیا، فرائض پر عمل کو سلوک و عرفان کی شرط اول نہیں سمجھتے تھے؟

تعداد اہم نہیں ہے کہ 4 ارب ڈالر ہے یا 40 ارب ڈالر، امریکیوں نے خود کہا کہ وہ شیعہ مذہبی اور ماتمی انجمنوں کو منحرف کرنے کے لئے بہت بڑی رقم خرچ کرچکے ہیں اور کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دنوں یہ سارے حقائق برملا ہو چکے ہیں اور دشمن بھی مزید رازداری کے قائل نہیں ہیں لیکن یہ جو آج بھی بہت سوں کو دھوکا ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ نفوذ اور فکری دراندازی کے عوامل و عناصر کامیابی کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔

البتہ دشمن یا نفوذی دھارے کے ہدایتکار امریکی نہیں ہیں۔ ہمیں سادہ لوح نہیں ہونا چاہئے؛ یہ دشمن وہی بدترین دشمن ہے (دیکھئے: المائدہ – 82) جس نے عیسائی دین کو منحرف کرکے رکھ دیا اور ایک ایسے دین کو ایک ڈرپوک اور محتاط روش میں بدل دیا جو اس [دشمن] کے عالمی تسلط کے خلاف صف آرا ہوکر ایک انقلاب کا کردار ادا کرنا چاہتا تھا۔ اس قصے کے لئے بھی کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ حقیقت بھی طشت از بام ہو چکی ہے؛ جس کا بڑا ثبوت لوئس مارشلکو (Louis Marschalko) کی کتاب “عالمی فاتحین: حقیقی جنگی مجرمین” (The World Conquerors: The Real War Criminals) ہے۔ مارشلکو ہنگری کا یہود دشمن عیسائی مصنف ہے جس نے “عالمی یہودی حاکمیت!” کے ہاتھوں اپنے دین و مذہب کی تحریف سنسنی خیز انکشافات کئے ہیں؛ تو ہم بہت سادہ لوح ہونگے اگر سوچ لیں کہ بین الاقوامی یہودیت نے صرف عیسائیت کو منحرف کرنا چاہا ہے اور اسلام کو اس نے اپنے حال پر چھوڑا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ منحرف یہودی – جنہیں آج کے زمانے میں صہیونی بھی کہا جاتا ہے اور اپنے اندر بھی کئی دائیں، بائیں، درمیانی، انتہاپسند اور قدامت پسند فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں – نہ صرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے انقلاب کو توڑ مروڑ کر ایک انفعالی اور معذرت خواہ مذہب میں بدل چکے ہیں اور جب عیسائیت کی طرف سے مکمل طور پر مطمئن ہو چکے تو طلوع اسلام کے وقت سے ہی نہیں بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی پیدائش سے بھی برسوں پہلے، آنحضرت کے آباء و اجداد کے زمانے سے، آپ کے خلاف اور پھر دین اسلام کے خلاف، سرگرم نظر آئے، اور پیغمبر خاتم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے دین اسلام کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا۔ اور ہاں! پھر بھی بہت ہی سادگی ہے کہ ہم آج یہ سمجھ کر سکون سے بیٹھ جائیں کہ یہودی 1400 سال قبل اپنا کام کر چکے ہیں اور آج چین سے بیٹھ کر ہمارا تماشا دیکھ رہے ہیں! وہ آج پہلے سے کہیں زیادہ فعال ہیں اور دولت اور مختلف قسم کے ابلاغی اور تشہیری وسائل ہی نہیں بلکہ تعلیمی نظامات کو بروئے کار لا رہے ہیں؛ وہ بگاڑنا چاہتے ہیں اسلام کو اور اسلام کی تمام کامل اور ناقص شکلوں پر کام کررہے ہیں۔

ہمیں جو بات ابتداء میں کہنا چاہئے تھی، یہیں کہہ دیتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جب بھی عرفہ آتا ہے، شہادت مسلم کی مجلس منعقد کرتے ہیں اور محرم کی آمد آمد ہوتی ہے، پرجوش بھی ہوجاتے ہیں، مضطرب بھی ہو جاتے ہیں، عزائے حسینی کے لئے قلبا تیار ہونے لگتے ہیں مگر ایک عجیب احساس بھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتا اور وہ یہ کہ “ہمیں مجالس امام حسین (علیہ السلام) سے وہ فیض نہیں لینا، جو ہم ماضی میں لیا کرتے تھے!” سوال بھی یہیں سے اٹھتا ہے کیونکہ پراسرار دشمن غیر محسوس انداز سے ہماری انجمنوں اور ہمارے رویوں اور اعمال و کردار میں فکری دراندازی کر چکا ہے، ایک بغاوت کرلی ہے دشمن نے بہت ہی غیر محسوس رفتار سے اور اس نے ہماری مجالس کا خلوص چھین لیا ہے! کیا ایسا نہیں ہے، ذرہ اپنے قلب کی اتہاہ سے رجوع کرکے دیکھ لیجئے!

آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جناب تمہاری سوچ قدامت پسندانہ اور پرانی ہے، تمہارا زمانہ گذر چکا ہے، اب نیا زمانہ ہے، نئی نسل ہے، آج کا نوجوان ویڈیو اور فلم بنانے کا خواہاں ہے،

سینمائی کرتبوں اور ناچتی روشنیوں میں جذباتی انداز سے ماتم اور سینہ زنی کرنا چاہتا ہے۔

لمحہ بھر رکئے! دیکھئے، اس سوال پر غور کیجئے: آج کے نوجوان کو یہ ذوق اور یہ طرح اور یہ انداز [Style] سکھایا کس نے ہے؟ جی ہاں! جواب وہی ہے جو آپ دینا چاہتے ہیں: یہ سب کچھ اسی نے ۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ: کیا ہمیں قرآن کی تلاوت کو مزید پرکشش بنانے کے لئے تلاوت کے سُروں اور اسلوب کو تبدیل کرنا چاہئے اور پاپ یا جاز اور راک موسیقی کا استعمال کرنا چاہئے؛ کیا ہم قرآن کی تلاوت کو اس سے مزید پرکشش بنا کر سامعین کو پیش کرنا چاہئے!؟ نہیں! کیونکہ قرآن کو شکست دینا بین الاقوامی یہودیت کی طاقت سے باہر ہے اور قرآن براہ راست اللہ کی طرف سے آیا ہے؛ لیکن امام حسین (علیہ السلام) کی عزاداری – باوجو اس کے، کہ شعائر اللہ میں شامل ہے اور اس کا احیاء اور بقاء، حکم معصوم ہے – ایسی سنت ہے جو ہماری رسموں اور ریت روایات سے گھل مل گئی ہے اور آباء و اجداد کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے؛ لیکن درانداز دشمن نے ایک خاص مرحلے پر اس حبل المتین کو منقطع کرنے یا پھر اس کا رخ موڑنے اور اپنی مرضی کی راستوں پر اسے چلانے کا فیصلہ کیا۔ اس بات کا ایک بہت اہم معنوی ثبوت یہ ہے آج محافل عزا اور انجمن ہائے ماتم و مجلس، اپنے سماجی اور مذہبی اثرات کھو چکی ہیں۔

نامرد اور بزدل دشمن کی ایک رسم ہے کہ وہ منحرفین کو پالتے ہیں، دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے ہیں اور پھر ان ہی دہشت گردوں کے کرتوتوں کی تصویریں دنیا بھر کو دکھا کر دعویٰ کرتے ہیں کہ “یہ مسلمان ہیں” اور یوں مسلمانوں کی بدنامی کے اسباب فراہم کرتے ہیں اور غیر مسلموں کو اسلام سے خوفزدہ کر دیتے ہیں؛ ہمارے والے موضوع میں بھی نامزد درانداز ایک طرف سے کہتے ہیں کہ ذاکر تو لفافے لیتے ہیں اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ بھارے لفافے لینے والے اسی دشمن کے تربیت یافتہ ہیں اور نامرد دشمن اپنے ہی تربیت یافتگان کو مثال کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔

سوال: وہ کیونکر ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ وہ ہماری ہی رسم کی آڑ میں ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، ہم صلہ اور نذرانہ یا شکرانہ دیتے تھے، جس کی بنیاد ہی کچھ اور ہے۔ یا پھر، محرم الحرام کی آمد آمد پر دانشور، فنکار، اداکار، سماجی کارکن وغیرہ کہلوانے والے آگے بڑھ جاتے ہیں اور پورا سال عوام کے خون سے سیراب ہونے کے باوجود، انہیں اچانک غرباء اور مفلسوں کی افسوسناک صورت حال یاد آتی ہے اور نذر و نیاز پر تنقید کرنے لگتے ہیں؛ جس کا مطلب یہ ہے کہ درانداز اپنا کام خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں۔ یہ مشتے نمونہ از خروارے کا مصداق ہے۔ کچھ دائمی تحفظات کا شکار لوگ بھی ہیں، جو یا تو واقعات تحفظات کا شکار ہیں یا پھر بزدل اور ڈرپوک ہیں یا پھر اسی دراندازوں کی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔

ایک مختصر سی وضاحت یہ کہ دشمن کی خدمت کرنے والے صرف تنخواہ خور جاسوس اور اجرتی درانداز ہی نہیں ہیں؛ اصل دشمن یعنی عالمی یہودیت ہمارے معاشروں کی لاشعوری پر بھی کام کرتی ہے۔ تاکہ – مختارنامہ سیریل کے کردار “کیان” کے ڈائیلاگ کے مطابق – “ان کے منہ سے وہی باتیں نکلیں جو دشمن کو خوش کرتی ہیں”۔

اب پلٹتے ہیں ہمارے بنیادی سوال کی طرف کہ “کیا ہؤا کہ ہمارے عزا کی وہ محافل اور وہ ماتمی سنگتیں، جو بہت مشہور و معروف بھی ہیں اور کافی حد تک مقبول بھی، روایتی عزاداریوں کا رنگ و بو کیونکر کھو گئی ہیں، اور وہ ماضی کی مجلسوں، عزاداریوں اور ماتمی جلوسوں کی روحانی جہتوں سے کیوں محروم ہیں؟ وہ لوگوں کے دلوں میں مشن پیدا کرنے سے کیوں عاجز ہیں؟ کیا وجہ یہی نہیں ہے کہ ماضی میں یہ مجالس رضائے خالق کے لئے منعقد ہؤا کرتی تھیں اور موجودہ زمانے میں رضائے مخلوق کے لئے منعقد ہوتی ہیں؟ یقینا اللہ کی رضا ہی امام حسین (علیہ السلام) کی رضا ہے، اور اس حقیقت کو انھوں نے میدان کربلا میں اپنے اور اپنے اہل خانہ اور اصحاب کے خون کا نذرانہ دے کر ثابت کیا ہے۔ لیکن یہ کہ ہم مختلف قسم کی جدت پسندیوں اور جدید تخلیقی روشوں کو زیادہ سے زیادہ سامعین و ناظرین جمع کرنے کے لئے بروئے کار لائیں، اور اپنی عزاداری کو نوجوانوں کے لئے زیادہ دلکش بنانا چاہیں، تو یہ ان ہی نداؤں میں سے ایک ہے کہ جو بظاہر اپنوں کے منہ سے نکلتی ہیں لیکن ان کا اصل مصدر و منبع کہیں اور ہے، یہاں نہیں ہے۔

کیا یہ طے نہیں تھا کہ ہم امام حسین (علیہ السلام) کے لئے کام کریں گے؟ کیا یہ ہمارا روز الست کے دن کا عہد یہی نہیں تھا کہ اللہ کے لئے کام کریں گے اور امام حسین (علیہ السلام) کے لئے کام درحقیقت اللہ کے لئے ہے جنہوں نے اپنی پوری دنیا خدا کی راہ میں قربان کی ہے؟ تو پھر لوگوں کو جمع کرنے اور اپنی انجمن یا سنگت یا فاؤنڈیشن وغیرہ میں زیادہ سے زیادہ مؤمنین کا اکٹھا کرنے کی یہ سرتوڑ کوششیں کہاں سے آئیں؟ جواب یہ ہے کہ اس قسم کی خواہشیں ان ہی عالمی سازشی مراکز سے آئی ہیں جو کسی زمانے میں بھی مجالس عزاداری کے خاتمے اور حسینیات اور امام بارگاہوں کی بندش پر کام کیا کرتے تھے اور عزاداروں کو قتل کرکے اور ڈرا دھمکا کر مجالس سے دور رکھنے کے لئے کوشاں تھے؛ اور امام حسین (علیہ السلام) کے لئے شیعیان اہل بیت کے گریہ و بکاء تک کو برداشت نہیں کرتے تھے! وہ تو گھروں کے اندر منعقدہ مجالس پر بھی حملے کرتے تھے اور انہیں اپنی تشہیری یلغاروں کا نشانہ بناتے تھے، اور عزاداروں پر طرح طرح کی بہتان تراشی کرتے تھے۔

بنیادی نکتہ یہ ہے کہ امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) نے فرمایا: “محرم اور صفر ہیں جنہوں نے اسلام کو زندہ رکھا ہے”، یہ نکتہ اہل تشیّع کے لئے ایک اہم درس تھا کہ وہ عزاداری کی مستحسن روایات کو زندہ رکھیں اور امام حسین (علیہ السلام) کی یاد کو بھی زندہ رکھیں۔ لیکن دوسری طرف سے دشمن بھی چوکنا ہو گیا اور اس نے بھی اپنے گماشتوں کی بھرتی کرنے کا کام شروع کیا تا کہ وہ بہت سے اپنوں کی غفلت سے فائدہ اٹھائیں یا پھر ان لوگوں سے آ ملیں جو معتقد اور بصیر مؤمنین کی اداکاری کرتے تھے اور بظاہر غافل تھے اور دراصل دراندازوں کے لئے ماحول سازی کر رہے تھے؛ دشمن نے اپنے گماشتوں کی توجہ اس نقطے کی طرف مبذول کرا دی جس کو نشانہ بنانا تھا۔

آٹھ سالہ جنگ میں عاشورا کی تعلیمات صحیح معنوں میں ڈھل کر ظہور پذیر ہو چکی تھیں؛ اور جنگ کے بعد، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ، ایران میں بھی اور ایران کے باہر بھی، ہم ان تعلیمات سے دور ہو گئے؛ ہماری دوری کی وجہ سے درانداز گماشتوں کی طاقت میں اضافہ ہؤا، کیوں؟ اس لئے کہ ایرانیوں سمیت دنیا بھر کے شیعیان اہل بیب (علیہم السلام) نے عاشورائی جنگ کو حقیقی انداز سے اور دکھاوے کے بغیر، انجام کو پہنچایا تھا لیکن بدقسمتی سے محاذ جنگ اور عاشورائی معرکے کے اثرات کم ہوتے گئے۔

 

جاری