اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
اتوار

4 ستمبر 2022

4:57:51 PM
1303223

ہندوستان میں بدلتی جمہوری قدریں

حقیقی صورتحال یہ ہے کہ ملک کا موجودہ منظر نامہ اقلیتوں اور ملک کے پسماندہ طبقات کے لئے انتہائی تشویش ناک ہے ۔جمہوری قدروں پر مسلسل حملہ ہورہاہے ۔اپوزیشن کا وجود خطرے میں ہے اور جہاں اپوزیشن مضبوط ہےاس کی جڑیں کاٹنے کی کوشش ہورہی ہے۔

بقلم عادل فراز

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ وزیر اعظم نریندر مودی دل فریب نعروں کے موجد سمجھے جاتے ہیں ۔ گذشتہ ۶ سالوں میں انہوں نے ان گنت نعرے دیے ہیں جنہیں ہندوستان کی تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی ۔کیونکہ یہ تمام تر نعرے فقط زبانوں تک ہی محدود رہے ،عملی دنیا میں ان کی کوئی حیثیت ووقعت نہیں رہی ۔مثال کے طورپر ’’آتم نر بھر بھارت‘‘ (خودکفیل ہندوستان) کا نعرہ’ دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھاہے‘کے مترادف تھا ۔ایسے وقت میں کہ جب حکومت تمام سرکاری املاک کو فروخت کرنے پر آمادہ ہے ،خودکفیل ہندوستان کا نعرہ ملک کے عوام کو فریب دینے جیساعمل تھا ۔خودکفیل ہندوستان کی بنیاد وزیر اعظم کو رکھنی چاہیے تھی مگر انہوں نے سرکاری املاک کی نیلامی کو منظوری دیدی تاکہ ان کے سرمایہ دار دوست ہندوستان کی غریب عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال سکیں ۔اقتصاد و معیشت روبہ زوال ہے اور مہنگائی ہنومان جی کی دُم کی طرح بڑھتی ہی جارہی ہے ۔اقتصاد کی بہتری اور مہنگائی پر قابو پانے کے لئے حکومت کے پاس کوئی لایحۂ عمل نہیں ہے ۔عوام کے غم و غصے سے بچنے کے لئے دل فریب نعرے اور نفرت کی سیاست کا سہارا لیا جارہاہے تاکہ عوام کی توجہات کو حکومت کی ناکامیوں کی طرف سے ہٹادیا جائے ۔اس کے لئے مندر مسجد ،ہندو مسلمان اور دیگر غیر ضروری مسائل کو ابھارا جارہاہے ۔پیغمبر اسلام کی اہانت کی کوششوں کو بھی اسی زمرے میں رکھاجاسکتاہے ۔اس وقت پورا ملک اسلاموفوبیا کی زد میں ہے ۔یرقانی تنظیموں اور بی جے پی کے زیر اثر طبقے کو روبہ زوال معیشت ،بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ختم ہوتی جمہوری قدروں سے زیادہ مسلمانوں کی نابودی کی فکر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ عوام حکومت کی ناقص پالیسیوں کے خلاف احتجاج نہ کرکے نفرت انگیزی کرنے والے گروہوں کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے ۔یہ نیا ہندوستان ہے جہاں نفرت انگیزی پر تالیاں بجائی جاتی ہیںاور اکثریت اقلیتوں سے خوف زدہ نظر آتی ہے ۔

بی جے پی حکومت نے بڑے کرّوفر کے ساتھ’’بیٹی پڑھائو ،بیٹی بچائو‘‘ کا نعرہ دیا تھا۔جس ہندوستان میں یہ نعرہ دیاگیا وہاں تعلیم ہی سب سے بڑا بزنس ہے ۔اچھے اسکولوںمیں تعلیم دلوانا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ۔سرکاری اسکولوں کی تعلیمی و انتظامی بدحالی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے ۔آج ہندوستان کے دیہی علاقوں میں بھی لوگ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں تعلیم نہیں دلوانا چاہتے۔پسماندہ طبقات مجبوری کے تحت سرکاری اسکولوں کا رخ کررہے ہیں ۔جن کے پاس کھانے کے لئے ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے وہ بھلا مہنگےاسکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم کیسے دلواسکتے ہیں ۔اگر ہندوستان کی تمام بیٹیوں کو تعلیم کا یکساں موقع فراہم کیا جائے تو ہندوستان کا مستقبل سنہری ہوسکتاہے ۔لڑکیاں جس میدان میں قدم رکھتی ہیں کامیابی ان کے قدم چومتی ہے ۔لیکن وہ تعلیمی میدان میں اپنی پسماندگی اور غربت کی وجہ سے پیچھے رہ جاتی ہیں ۔رہا ’بیٹی بچانے ‘ کا مسئلہ تو زنا باالجبر کے بڑھتے ہوئے واقعات اور زانیوں پر سرکار کی مہربانی اس نعرے کی حقیقت ظاہر کردے رہی ہے ۔15 اگست کے دن جب پورا ملک آزادی کی خوشیاں منارہا تھا اور وزیر اعظم لال قلعہ سے ’ناری شکتی ‘ پر زبردست تقریر کررہے تھے ،اسی وقت بلقیس بانو کے مجرموں کو رہا کیا جارہا تھا ۔گویا بلقیس بانو ہندوستان کی آزادی کے 75 ویں پُرمسرت موقع پر دوبارہ ظالموں کی بربریت کا شکار ہوئیں ۔

سال ۲۰۰۲ء میں جب گجرات میں فرقہ وارانہ فساد رونما ہوا ،اس وقت بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری کی گئی تھی ۔یہ سانحہ بلقیس بانو کےساتھ محض ۲۱ سال کی عمر میں رونما ہوا۔اس وقت وہ ۵ سال کی حاملہ بھی تھیں ۔گجرات فسادکے دوران ایک مشتعل ہجوم نے ان پر حملہ کردیا اور ان کی ۳ سالہ بچی سمیت سات ارکان خاندان کو ان کی آنکھوں کے سامنے قتل کردیا ۔بلقیس بانو ظالموں کے ظلم اور جبر کے آگے جھکی نہیں بلکہ انہوں نے ان کے خلاف پولیس تھانے میں شکایت درج کرائی ۔ان پر ظلم کرنے والے قاتلوں اور زانیوں کے خلا ف مقدمہ چلا اور پھر عدالت نے گیارہ ملزموں کو خاطی قرار دے کر عمر قید کی سزا سنادی ۔عدالت نے بلقیس بانو کو انصاف سے دیا مگر گجرات حکومت نے ہندوستان کی آزادی کے پُر مسرت موقع پر بلقیس بانو سے جیتا ہوا انصاف چھین لیا ۔جس وقت وزیر اعظم نریندر مودی 15 اگست 2022 کو لال قلعہ کی فصیل سے ملک کے عوام کو ’’ ناری شکتی‘‘ پر بھاشن دے رہے تھے ،اس کے کچھ گھنٹوں کے بعد گجرات کی بی جے پی حکومت نے بلقیس بانو کے مجرموں کی سزا معاف کرکے انہیں رہا کردیا ۔جس وقت انہیں جیل سے رہا کیاگیا جیل کے باہر موجود لوگوں نے ان کے پائوں چھوئے ۔ان کی گل پوشی کی گئی اور انہیں اچھا برہمن کہہ کر یاد کیا گیا ۔کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ ان مجرموں کی معافی منظم لایحۂ عمل کے تحت کی گئی ہے ؟اگر ایسانہیں ہے تو پھر قاتلوں اور زانیوں کو معافی کیسے دی جاسکتی ہے ؟ کیا بلقیس بانو کو مسلمان ہونے کی سزادی گئی ؟ کیا بلقیس بانو کے مجرموں کو معاف کرکے گجرات سرکار نے کوئی بڑاتیر مارا ہے جس سے عالمی سطح پر اس کے کارناموں کی پذیرائی ہوگی ۔بہتر ہوتا اگر وزیر اعظم نریندر مودی اس رہائی کی مخالفت کرتے اور گجرات سرکار کو ’’ناری شکتی ‘‘کی اہمیت و افادیت پر متوجہ کرتے ۔مگر افسوس ایسانہیں ہوا۔

واقعیت یہ ہے کہ اب ایسی خبریں سن کر تعجب نہیں ہوتا ۔کیونکہ ملک کے اقلیتی طبقات کے ساتھ ناانصافی عام بات ہوگئی ہے ۔بابری مسجد کے فیصلے سے لے کر بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی تک ملک کا سیاسی منظر نامہ چیخ چیخ کر مسلمانوں کو ان کی سیاسی و سماجی حیثیت کی یاد دلارہاہے ۔مآب لنچنگ کے مجرم آزاد گھوم رہے ہیں ۔گائے کشی کے فرضی مقدموں میں نوجوانوں کو پھنساکر ان کا مستقبل تباہ کیا جارہاہے ۔متحرک اور ابھرتے ہوئے نوجوانوں کومختلف دہشت گرد تنظیموں سے جوڑ کر گرفتار کیا جارہاہے تاکہ مسلمانوں میں خوف و ہراس قائم رہے ۔یرقانی لیڈر اسلامی مقدسات کے خلاف زہر افشانی کررہے ہیں تاکہ ملک میں اسلاموفوبیا کو رواج دیا جاسکے ۔نپور شرما سے لے کر ٹی ۔راجا سنگھ تک مقدس شخصیات کے خلاف زہر افشانی کرنے والوں کی کمی نہیں ہے ۔دہلی میں ہوئے فساد سے پہلے کپل مشرا کی نفرت انگیزی پر آج تک کوئی کاروائی نہیں ہوسکی ۔مظفر نگر فساد کے مجرموں کے مقدمات کو یوگی حکومت نے واپس لے لیا۔ہری د وار جیسے مقدس شہر میں مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے اکثریتی طبقے کے نوجوانوں کو ہتھیار اٹھانے کا مشورہ دیاجاتاہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہتی ہے ۔اگر کسی ملزم پر کاروائی ہوتی بھی ہے تو برائے نام ،تاکہ حکومت اپنی کارکردگی پر جواز پیش کرسکے اوربس!عدالتوں میں زعفرانی و یرقانی تنظیموں کے تربیت کردہ لوگ دخیل ہیں ۔اس لئے حجاب کے معاملے پر کرناٹک کی عدالت نے کہہ دیا کہ حجاب کا اسلام کا لازمی جزو نہیں ہے ۔یعنی اب عدالتیں یہ طے کریں گی کہ کیا اسلام کا بنیادی جزو ہے اور کیا نہیں ہے ۔عدالتوں کو یہ اختیار کب اور کس نے دیاکہ وہ کسی بھی پرسنل لاء میں مداخلت کرسکیں ۔وہ ہر مذہب کے پرسنل لاء کے مطابق اور دستور ہند کی روشنی میں فیصلہ دینے کے لئے آزاد ہیں مگر کیا قرآن مجید اور اسلامی آئین پر انہیں فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے ؟ اگر ایساہے تو پھر ہر مذہب اور مسلک کے پرسنل لاء میں عدالت کو دخل دینے کا حق مل جائے گا ۔

حقیقی صورتحال یہ ہے کہ ملک کا موجودہ منظر نامہ اقلیتوں اور ملک کے پسماندہ طبقات کے لئے انتہائی تشویش ناک ہے ۔جمہوری قدروں پر مسلسل حملہ ہورہاہے ۔اپوزیشن کا وجود خطرے میں ہے اور جہاں اپوزیشن مضبوط ہےاس کی جڑیں کاٹنے کی کوشش ہورہی ہے ،مہاراشٹر اس پر واضح دلیل ہے ۔سیاست میں اخلاقی قدروں کا زوال ہوچکاہے اور نفرت سیاست کا جزولاینفک بن چکی ہے ۔ملک کے ہر قانونی اور سرکاری شعبے پر یرقانی تنظیموں کا تسلط ہے ۔سیکولر جماعتیں بھی فاشزم کی طرف لوٹ رہی ہیں ۔ایسے المناک ماحول میں ایک کانگریس پارٹی ہے جو سیکولرازم اور جمہوری قدروں کی بقا کے لئے جدوجہد کرتی نظر آرہی ہے ،مگر افسوس وہ بھی یرقانی افکار کے حامل افراد سے گھری ہوئی ہے۔

اس وقت مسلمان نو جوان مضبوط قیادت کی تلاش میں ہے جو نظر نہیں آرہی ہے ۔سیاست مدار علماء مصلحت کا لبادہ اوڑھ کر خواب خرگوش کےمزے لے رہے ہیں ۔اکابرین زعفرانی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں ۔علاقائی سطح پر بعض قائدین ذاتی تشہیر اور مفاد کے لئے آپس میںدست و گریباں ہیں ۔اگر بہت جلد کوئی فکری و سیاسی محاذ تشکیل نہیں دیا گیا تو ملک کے نوجوان کو بے راہ روی سے بچایانہیں جاسکے گا ۔اس کے لئے مخلص علماء اور دانشوروں کو آگے آناہوگا ۔مسلسل مصلحت آمیز خاموشی مسایل کو حل نہیں کرسکتی ۔اس کے لئے میدان عمل میں آنا ہوگا اور نوجوانوں کی رہنمائی کرنا ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242