اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
بدھ

25 مئی 2022

7:25:45 PM
1260926

سابق سفارتکار کا تجزیہ؛

امریکی حکمت عملیاں زوال سے دوچار ہو چکی ہیں

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے بھی اس خطے میں مداخلت کرتا تھا اور اس کے منافع پرستانہ اور نخوت آمیز فیصلوں نے مغربی ایشیا کے عوام کو غضبناک بنایا تھا؛ یہاں تک کہ فروری 1979ع‍ میں انقلاب کی کامیابی کے بعد، دوسرے ممالک میں بھی امریکی مفادات کا براہ راست مقابلہ کرنے کے لئے ضروری محرکات معرض وجود میں آئے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ بہرصورت امریکہ کا مطلوبہ عالمی نظام اسلامی جمہوریہ ایران کے تقابلی اور حتیٰ کہ مجادلانہ اقدامات سے درہم برہم ہو گیا ہے اور واشنگٹن کے اندازوں کی سراسیمگی کا حال یہ ہے کہ اب علاقائی سوپر پاور [ایران] کے سامنے شکست تسلیم کرنے کے بعد، مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں کی عمارت کو ویرانی سے بچانا ممکن نہيں رہا ہے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں "زیادہ سے زیادہ دباؤ" کی حکمت عملی کے نفاذ کے بعد سے اب تک، نظریہ ساز، سیاستدان اور تجزیہ نگار ایران کے خلاف اس حکمت عملی کی عدم افادیت کے بارے میں خبردار کرتے آئے ہیں۔ اس سلسلے کے تمام تر تجزیوں کے مشترکہ نکات "مختلف شعبوں میں ایران کی صلاحیتوں"، "امریکہ کے غلط اندازے"، "دنیا کے کثیر قطبی ہوجانے" اور "مغربی ایشیا میں امریکی کی بالادستی کے زوال" سے عبارت تھیں۔ دریں اثناء کچھ غائرانہ جائزوں سے اسلامی جمہوریہ کے خلاف امریکی محاذ کی ہمہ جہتی عالمی شکست کے اندازے لگائے جا رہے ہیں۔
سابق امریکی صدر کے لبنانی نژاد اور ایران دشمن مشیر "ولید فارس" (Walid Phares) ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے تہران اور واشنگٹن کی باہمی تاریخی کشمکش پر وسیع تحقیقات کی ہیں اور اہم نتائج پر پہنچے ہیں۔ انھوں نے قدامت پسندوں کے مجلے نیوز ماکس (Newsmax) میں اعتراف کیا ہے کہ "اسلامی انقلاب کی کامیابی، 1980ع‍ میں امریکیوں کو یرغمال بنانے، اسرائیل کے ساتھ ایران کی پراکسی جنگ، ایران کے جوہری منصوبے کی توسیع اور عسکریت پسندوں کے ذریعے چار عرب ممالک پر ایرانی کنٹرول، کے بارے میں میرے مطالعے کا لب لباب یہ ہے کہ ایرانی حکمران - کم از کم آج تک - فاتح و کامیاب ہیں۔ ایران نے اپنی فوجی اور معلوماتی صلاحیتوں کو تقویت پہنچائی ہے، ارضی توسیع کو ان کے بقول عسکریت پسندوں [مقاومت اسلامیہ] کے ذریعے یقینی بنایا ہے اور ایٹمی سمجھوتے کی جاذبیت کی بنا پر مغرب میں بھی اچھا خاصا اثر و رسوخ بڑھایا ہے"۔
ولید فارس نے اپنے مبینہ "دہشت گردی"، "پراکسی وار"، "امریکی پالیسیوں"، "ایران کے اثر و رسوخ"، "ایٹمی معاہدے کو حاصل مغربی ممالک کی حمایت" کو امریکہ کے ساتھ تقابل میں ایران کی فتح کا باعث قرار دیا ہے۔ لیکن اگر ان مسائل کی طرف مختصر اشارہ کرنا چاہیں تو کہنا پڑتا ہے کہ ایران نے دہشت گردی کے خلاف ناقابل انکار اقدامات کئے ہیں، اور اس کا نام خود دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ منافقین خلق (MKO) نے امریکہ کی ہمہ جہت حمایت کے سائے میں 17000 سے زائد ایرانی شہریوں کو قتل کیا ہے؛ یہاں تک کہ سابق امریکی وزیر خارجہ مائک پامپیو نے چند دن قبل البانیہ کا دورہ کیا ہے اور منافقین کی سرغنہ "مریم رجوی" سے ملاقات کی جس سے ثابت ہؤا کہ اس دہشت گرد ٹولے کو مکمل امریکی حمایت بدستور حاصل ہے۔ علاقائی سطح پر بھی ٹرمپ اور ہلیری کلنٹن کے اعتراف کے مطابق، امریکہ ہی داعش کا خالق ہے جس نے عراق، شام، افغانستان اور پاکستان میں لاکھوں انسانوں کا خون ناحق بہایا ہے۔ چنانچہ ایران پر دہشت گردی کی حمایت کا بھونڈا الزام لگا کر "دہشت گردی کے گاڈ فادر" کے عنوان سے دامن نہيں چھڑا سکتا۔
جہاں تک پراکسی گروپوں کا تعلق ہے تو عرب ممالک میں ایران کا کوئی پراکسی گروپ نہیں ہے بلکہ ایران ان ممالک کی آزادی اور حفاظت کے لئے لڑنے والی سیاسی-مجاہد جماعتوں کی حمایت کررہا ہے اور یہ جماعتیں اپنے اپنے ممالک کے مفادات کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ مجاہد سیاسی جماعتیں وہی ہیں جنہوں نے داعشیوں کا امریکی-صہیونی فتنہ عراق اور شام میں دفن کر دیا؛ اور پھر رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے فرمایا ہے کہ "امریکہ ایک مافیائی ریاست ہے جو اپنے مخالف ممالک کے خلاف دھمکیوں اور کشمکش و اختلاف کا وائرس پھیلانے کے لئے مافیائی ٹولوں کی قیادت کر رہی ہے"۔
وائٹ ہاؤس کی پالیسیوں کے بارے میں بھی ولید فارس کا کہنا ہے کہ ایران نے 11 ستمبر 2001ع‍ کے بعد کی امریکی پالیسیوں کے اتار چڑھاؤ سے بھی فائدہ اٹھایا ہے حالانکہ ڈیموکریٹ صدر بل کلنٹن نے داماتو کے پیش کردہ مسودے کو "ایران کے خلاف پاپبدی کا قانون" (Iran Sanction Act [ISA]) کی شکل دے کر نافذ کیا اور ثابت کیا کہ وہ بھی ایران کو نقصان پہنچانے کی طرف ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح ہی راغب تھے؛ چنانچہ ایران کے ساتھ دشمنی کے حوالے سے امریکہ کے تمام تر حکام کے فیصلوں کا سرچشمہ ایک ہی ہے اور ریپلکن اور ڈیموکریٹ اس حوالے سے ایک ہی جیسے ہیں اور اگر اختلاف ہے تو مقصد میں نہیں بلکہ راہ و روش میں ہے۔
ولید فارس ایران کے اثر و رسوخ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ نے نہ صرف اپنے خطے میں بلکہ امریکہ اور امریکہ میں بھی اپنا اثر و رسوخ پیدا کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جوہری معاہدے کے تئیں مغرب کی حمایت ایران کے ملکی ڈھانچوں کو قائم رکھتی ہے۔
یہ صحیح ہے کہ ایران کے دنیا بھر میں تعلقات ہیں لیکن یہ یہ دعویٰ - کہ جوہری معاہدے کو حاصل مغربی حمایت اور مغرب میں ایران کے اثر و رسوخ اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت کی بنیاد ہے -حقیقت سے بہت دور ہے۔ اور ایران کے عوام نے اپنے پورے وجود سے اس حقیقت کی تلخی کو محسوس کیا ہؤا ہے کہ یورپ اور امریکہ نے مل کر ایران کو جوہری معاہدے کے فوائد سے محروم کئے رکھا اور ایرانی عوام انہیں ایک دوسرے سے الگ کرکے نہیں دیکھتے؛ بے شک امریکہ نے جوہری معاہدے کے بعد ایران پر ظالمانہ پابندیاں عائد کیں مگر یورپ نے بھی معاہدے کی کسی بھی شق پر عمل نہیں کیا ہے اور جھوٹے وعدوں سے وقت گذارنے کے پرانے استعماری کرتب دکھا کر عملی طور پر ظالمانہ پابندیوں میں امریکہ کا ساتھ دیا۔
کہا جا سکتا ہے کہ ولید فارس سمیت دوسرے سابق اور موجودہ اہلکاروں نے صحیح نتیجہ اخذ کیا ہے کہ امریکہ ایران کے مقابلے میں شکست فاش سے دوچار ہؤا ہے لیکن انھوں نے اس شکست کا تجزیہ کرتے ہوئے غلط مقدمات اور تمہیدات کا سہارا لیا ہے۔ البتہ یہ بھی صحیح ہے کہ وائٹ ہاؤس کے تمام کے تمام کرایہ داروں میں کبھی بھی ی ہمت نہ تھی کہ ایران کے مقابلے میں اپنی شکست کو تسلیم کریں اور یہ ایک نئی روداد ہے؛ جو نتیجہ امریکیوں نے اخذ کیا ہے وہ درست ہے خواہ اس کے لئے بیان شدہ اسباب و وجوہات غلط ہی کیوں نہ ہوں۔
نکتہ یہ ہے کہ غلطی تسلیم کرنا غلطیوں کی اصلاح کی تمہید ہے، بشرطیکہ تجزیہ صحیح اور محکم ہو لیکن یہ خصوصیت امریکیوں پر صادق نہیں آتی۔ وشنگٹن کے سرغنے ماضی کی طرح اپنے جہل مرکب (compound ignorance) میں پھنسے ہوئے ہیں اور اسلامی جمہوریہ کے مقابلے میں شکست کا اعتراف نہ صرف وائٹ ہاؤس کو تقویت نہیں پہنچاتا بلکہ یہ اسلامی جمہوریہ کی طاقت کے مزید پھیلاؤ اور امریکی بالادستی کے زوال کی رفتار میں کئی گنا اضافے کا باعث بنے گا؛ کیونکہ وہ اب بھی بڑی طاقت ہونے کا ڈھول پیٹ رہا ہے اور اپنے نظام حکومت کی [خوفناک] کمزوریوں سے غافل ہے۔
اسلامی جمہوریہ کے پاس اب صلاحیتوں کا ایک مجموعہ ہے اور پچھلے چار سالوں کے دوران "فعال مقاومت (مزاحمت)" کی حکمت عملی کی صورت میں ان صلاحیتوں کو ملا کر امریکی منصوبوں اور حسابات کو ماضي سے کہیں زیادہ، درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے۔ اور "پراکسی گروپوں" کے سانچے میں امریکی مفادات پر حملے کے بارے میں - ولید فارس اور ان کے ہم فکروں کے تخیّلات کے برعکس -اجنبی قوتوں کے مقابلے میں ممالک کی سرحدوں کی حفاظت کے حوالے سے پیش قَدَم اور نمونۂ عمل کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔
ایران نے کسی بھی ملک میں اپنے لئے کوئی پراکسی گروپ نہیں بنایا بلکہ محور مقاومت نے اسلامی جمہوریہ کی حکمت عملیوں پر کاربند ہوکر امریکہ کی بلاواسطہ حکمت عملیوں کو بھی اور اس کے پراکسیوں کو بھی ہزیمت سے دوچار کیا ہے؛ اور پھر بھی امریکیوں کے وہم و تخیّل کے برعکس، یہ بھی صحیح حب الوطنی اور اسلامی مثالیت پرستی کی کسوٹی ہے، جسے نہ دہشت گردی سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی امریکہ کی طرح نیابتی ٹولوں کی تشکیل کے زمرے میں شما کیا جا سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے بھی اس خطے میں مداخلت کرتا تھا اور اس کے منافع پرستانہ اور نخوت آمیز فیصلوں نے مغربی ایشیا کے عوام کو غضبناک بنایا تھا؛ یہاں تک کہ فروری 1979ع‍ میں انقلاب کی کامیابی کے بعد، دوسرے ممالک میں بھی امریکی مفادات کا براہ راست مقابلہ کرنے کے لئے ضروری محرکات معرض وجود میں آئے۔
اقتصادی نقطہ نظر سے بھی، جس پر یانکیوں نے خاص کھاتہ کھول دیا تھا، امریکہ ایران پر دباؤ ڈالنے کی پالیسی سے اپنا مطلوبہ نتیجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اگرچہ پابندیوں نے عوام اور ملک کو زحمت سے دوچار کیا اور اندرونی [طور پر سابقہ حکومت کی] لاپرواہیوں کو نے ان مشقتوں کو شدید تر کیا مگر لیکن آخر کار وہ وائٹ ہاؤس کے مطلوبہ نتیجہ دینے میں ناکام رہیں۔ مزید براں ایران کے اندر کی دراڑوں کو متحرک کرنے اور بلؤوں کی صورت حال پیدا کرنے میں بھی واشنگٹن کی تمام تر کوششیں شکست سے دوچار ہوئیں۔ اور یہ ایسے وقت میں ہے جب واشنگٹن، علاقائی حکمت عملی اور داخلی مسائل کے حوالے سے بہت سارے مسائل کا سامنا کر رہا ہے اور دباؤ اور پابندیاں لگانے اور ان سے مرضی کے نتائج حاصل کرنے میں اپنی ماضی کی طرح کی چستی سے محروم ہو چکا ہے۔

بہرصورت امریکہ کا مطلوبہ عالمی نظام اسلامی جمہوریہ ایران کے تقابلی اور حتیٰ کہ مجادلانہ اقدامات سے درہم برہم ہو گیا ہے اور واشنگٹن کے اندازوں کی سراسیمگی کا حال یہ ہے کہ اب علاقائی سوپر پاور [ایران] کے سامنے شکست تسلیم کرنے کے بعد، مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں کی عمارت کو ویرانی سے بچانا ممکن نہيں رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: ڈاکٹر جواد منصوری، پاکستان اور چین میں ایران کے سابق سفیر۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔
110