اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
بدھ

25 مئی 2022

8:37:05 AM
1260638

ہمارے ان گنت مسائل اور ہم

ہم سب اگر ملک کو لیکر فکر مند ہیں تو نفرتوں کی فضاوں کے درمیان منفی پروپیگنڈے سے بچتے ہوئے اور اپنے اہل خانہ کو بچاتے ہوئے اپنے دین کی تعلیمات کے مطابق ہمیں آگے بڑھنا ہو گا اسی میں ہماری بقا و فلاح ہے ۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ ہندوستانی معاشرے میں نت نئے مسائل کے پیش نظر ہم سب کو بہت ہی سوجھ بوجھ اختیار کر کے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے آپ دیکھ رہے ہیں کس طرح مسلسل ان چند سالوں میں مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی ہو رہی ہے ، جہاں ہمارے خلاف محاذ آرائی ہے وہیں افسوس کی بات ہے کہ ہم غافل ہیں اور اپنی صفوں کو منظم کرنے میں مسلسل ہمارے ہاتھ ناکامی آ رہی ہے بلکہ اکثر اوقات ہمارے عمائدین دشمن کے ایجنڈے کے مطابق عمل کرتے نظر آ رہے ہیں جبکہ ملک ایسے ان گنت مسائل سے دوچار ہے جن کو حل کرنے کے لئے ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد کی ضرورت ہے ایک پختہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

ذرا دیکھیں کتنی ڈھٹائی کے ساتھ سارے قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک مسجد کے ایک متنازعہ حصہ کو سیل کر دیا جاتا ہے اور پھر ہندو مذہب سے متعلق اشیاء کی دریافت کی بات کو میڈیا بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے جس کے جواب میں سوشل میڈیا پر ایک دوسرے پر طنز و تشنیع کا بازار گرم ہو جاتا ہے ، ایسے میں ہم سب کو دیکھنے کی ضرورت ہے ہم کس کے میدان کے کھلاڑی ہیں اور کس کے پالے میں کھیل رہے ہیں؟ کیا ہمارا دین کسی کے مقدسات کی توہین کی اجازت دیتا ہے اگر نہیں دیتا تو سوچ سمجھ کر چلیں کہ ان لوگوں کو موقع نہ مل سکے جو جان بوجھ کر ایسی بے ہودہ باتیں کر رہے ہیں کہ ہماری زبان انکے خلاف کھلے اور اس بہانے وہ اپنی منحوس سیاست کو عملی کر سکیں ایسے میں ہمیں دکھانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے مذہب میں اخلاق سے بالا تر کچھ بھی نہیں ہے ۔نہ ہم کسی کے خداوں کی توہین کرتے ہیں اور نہ کسی کے مقدسات کی ہاں اتنا ضرور ہے کہ حق بولنے اور حق کہنے سے بھی ہمیں کوئی نہیں روک سکتا ۔

ہندوستان کی گھٹتی آبادی اور مسلمانوں کی صورت حال :

ملک میں جہاں ہر طرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے وہیں بچوں کے سلسلہ سے بھی یہ بات عام ہے کہ مسلمانوں کے بچے زیادہ ہوتے ہیں جبکہ مجموعی طور پر ملک کی کل آبادی میں بھی ہر خاتون کے بچوں کی اوسط تعداد کی شرح گر کر اب “رپلیسمنٹ لیول” سے کم ہوگئی ہے. یعنی اب ہمارا ملک گھٹتی ہوئی اور بوڑھی آبادی کے خوفناک مستقبل کے دہانے کے نزدیک پہنچ گیا ہے. واضح رہے کہ آبادی کی اس قسم کی صورتحال، ایک بلا ہے جو عام طور پر امیر ممالک کی وبال جان بنتی ہے. لیکن ہندوستان بڑھتی ہوئی غربت کے ساتھ اس مقام پر پہنچا ہے. یہ تو مجموعی طور پر ملک کا حال ہے جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے تو تازہ ترین سرکاری رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کے مسلمانوں کے درمیان بچوں کی اوسط تعداد کی شرح میں بڑے پیمانے پر گراوٹ نظر آئی ہے[1]۔

ہم سب اگر ملک کو لیکر فکر مند ہیں تو نفرتوں کی فضاوں کے درمیان منفی پروپیگنڈے سے بچتے ہوئے اور اپنے اہل خانہ کو بچاتے ہوئے اپنے دین کی تعلیمات کے مطابق ہمیں آگے بڑھنا ہو گا اسی میں ہماری بقا و فلاح ہے ۔

سڈیشن کا قانون اور سپریم کورٹ کا حکم :

برطانیہ کے ذریعے قانون تعزیرات ہند میں شامل کئے جانے کے ١٥٠ سال بعد، بغاوت (sedition) کو جرم قرار دینے والے بند پر سپریم کورٹ نے ضرب لگائی گئی ہے. سپریم کورٹ نے اسے معلق قرار دینے کی بات کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے اسے فی الحال استعمال نہ کرنے کو کہا ہے. اگر سپریم کورٹ کی اس درخواست پر باقاعدہ عمل ہوا تو اب سے لکھی جانی والی کسی بھی نئی ایف آئی آر میں اس الزام کا ذکر درج نہیں ہوگا. اور اب تک اسکے تحت گرفتار کئے گئے افراد ضمانت کی عرضی داخل کر سکیں گے[2].البتہ واضح رہے یہ کالا قانون ابھی صرف کمزور ہوا ہے، ختم نہیں ہوا ہے. اور اگر ختم ہوا بھی تو بھی UAPA، NSA، MCOCCA، PSA وغیرہ جیسے اور کئی خطرناک قانون پھر بھی باقی رہیں گے. لیکن پھر بھی اس ضرب سے ملک میں عدل و انصاف کے نظریہ کی تقویت ہو سکتی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سڈیشن کے اس قانون کو لیکر حکومتیں کیا رد عمل دکھاتی ہیں ، سوچنے کی بات یہ ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کچھ خطرناک عناصر سڈیشن کے قانون کو رد کر کے کسی خاص مذہب کو دوسرے ہی ایسے ملتے جلتے قوانین کے جال میں پھنسا کر انکی زندگیاں برباد کرنا چاہتے ہوں اسلئے کہ نہ جانے کتنے لوگ یو پی اے اور این ایس اے وغیرہ میں پھنسے اپنی ضمانتوں کا انتظار کر رہے ہیں ۔

بہر کیف ایک عرصے کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے جرات مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے اس کالے قانون پر ضرب لگی ہے جسے بہانا بنا کر نہ جانے کتنے ہی بے گناہوں کو دیش دروہی قرار دے کر تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ، یہ ایک اچھی پہل ہے اور ہم سبھی کو اسکا استقبال کرتے ہوئے کوشش کرنا چاہیے اس قانون سے ملتے جلتے اگر کہیں اور بھی قانون ہیں جن کے جال میں بے گناہوں کو پھنسایا جا رہا ہے تو ہم سب مل جل کر اسکا احتجاج کریں اور ملک کو اس سمت میں جانے سے روکیں جہاں ایک ہی طرز اور ایک ہی رنگ میں سب کو رنگنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مخالف نظریات کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ ہر ایک اختلاف نظر رکھنے والے کو ملک کا دشمن قرار دیا جا رہا ہے ، ملک سے محبت کرنے والے اچھے خاصے بھلے انسانوں پر ملک سے بغاوت کے کیس درس کئے جا رہے ہیں یہ فضا ہرگز ملک کی ترقی کے لئے بہتر نہیں ہے ہم سب کو اس کے خلاف آوا ز بلند کرنا چاہیے اور ملک سے محبت کی دلیل بھی یہی ہے کہ اگر ملک میں کچھ عناصر ایسے ہیں جو اپنے مفاد کے لئے اپنی حکومت کے لئے ملک کو توڑنا چاہتے ہیں برباد کرنا چاہتے ہیں اور سب پر ایک ہی نظریہ تھوپنا چاہتے ہیں تو ہم ان کے خلاف متحد ہو کر کھڑے ہوں اور اس بات کا واضح اعلان کریں کہ یہ ملک جتنا تمہارا ہے اتنا ہمارا بھی ہے بلکہ ہمارے اسلاف و بزرگوں نے اس وقت اس ملک کے لئے قربانیاں دی ہیں جب آج کےبہت سے محبان وطن کے اجداد انگریزوں کے تلوے چاٹ رہے تھے ، اور ہم ان کے خلاف ڈٹے تھے اگر ہم کل انگریزوں کے سامنے ڈٹے تھے تو آج بھی اپنے ملک کی خاطر ہم قربانیاں دینے کو تیار ہیں۔

ملک میں نا انصافیوں کے رواج کو ختم کرنا تشدد کی راہ کو بند کرنا فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے فرقہ واریت کے خلاف محاذ بنانا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مقولے کی جگہ سب کا ملک سب کی آواز کی بات کو رائج کرنا یہ آج ہر اس محب وطن کی ذمہ داری ہے جس کے دل میں ہندوستان بستا ہے ۔

ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت کو لیکر تعاون اسلامی کانفرنس کی تشویش :

ہندوستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت اور مسلمانوں کو جا بجا ہراساں کئے جانے پر او آئی سی نے بھی آخر کار ایکشن لیتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا [3]ہے چونکہ ہم سب ایک انسانی معاشرہ سے جڑے ہیں لہذا کہیں بھی انسانیت پر ظلم ہوگا تو تکلیف ہوگی اور او آئی سی کی جانب سے یہ تشویش اچھا قدم ہے لیکن افسوس ہندوستان کے ذمہ داروں نے تعاون اسلامی کانفرنس کو ہی نصیحت دے دی کہ ہمارے داخلی معاملات میں آپ کو بولنے کا حق نہیں ہے ، جبکہ یہ داخلی معاملہ نہ ہو کر انسانی معاملہ ہے جس کا تعلق سب سے ہے ایسے میں ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اپنے دائرہ کار میں اس بات کی وضاحت کریں کہ تعاون اسلامی کانفرنس کی تشویش کا مطلب ملک میں دخالت کرنا نہیں ہے بلکہ توحید کے نظریہ پر قائم مسلمانوں پر ہونے والی زیادتی پر اظہار افسوس کرنا ہے بالکل ویسے ہی جیسے اگر امریکا یا یورپ میں ہندووں یا سکھوں پر اگر کوئی حملہ ہوتا ہے تو کوئی ہندو تنظیم اگر اس کی مذمت کرتی ہے تو اسکا مطلب امریکہ یا یورپ کے معاملات میں دخالت نہیں ہے یہ مسئلہ بھی ایسا ہی ہے۔

تعاون اسلامی کانفرنس سے ہم سب کو اس سے زیادہ کی توقع ہے کہ جس طرح ہندوستان میں مسلمانوں کو لیکر اس سنے تشویش کا اظہار کیا ہے ویسے ہی سعودی عرب میں شیعوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف بھی آوا ز اٹھائے تاکہ اس کی حیثیت کا اعادہ ہو سکے ۔

[1] ۔ https://indianexpress.com/article/india/fertility-falling-in-all-communities-steepest-decline-among-muslims-nfhs-data-7906994/

[2] ۔ https://www.barandbench.com/news/supreme-court-orders-section-124a-ipc-kept-abeyance-asks-central-government-states-not-register-sedition-cases

[3] ۔ https://m.thewire.in/article/government/unwarranted-comments-india-to-islamic-nations-body-on-jks-delimitation-exercise

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242