اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
جمعرات

5 مئی 2022

5:36:16 PM
1254839

کیا جو بائیڈن میں رتی برابر عقل ہے؟

بائیڈن نیم رتی برابر عقل و ہوش کا مالک ہوتا تو موجودہ صورت حال میں بہت تیزی سے یمن کی جنگ میں اپنی مداخلت اور جارح سعودی اتحاد کی حمایت کو ختم کرتا۔ کیونکہ یہ ناقابل قبول ہے کہ واشنگٹن ایک طرف سے یوکرین کے معاملے میں انسان دوستی کے بلند بانگ دعوے کرتا رہے اور انسانیت کے لئے مگرمچھ کے آنسو بہاتا رہے اور دوسری طرف سے اس کے ہاتھ کہنیوں تک یمنی عوام کے خون میں ڈوبے ہوئے ہوں!

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ تقریبا عرصہ دو ماہ سے دنیا والوں کی آنکھیں یوکرین میں روسی کاروائیوں پر لگی ہوئی ہیں اور وہ ہر روز وہاں کے عام شہریوں کی موت اور بےگھر ہونے کے بارے میں جھوٹی اور سچی خبریں سن رہے ہیں۔

ادھر یوکرین سے 3977 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک دوسری جنگ بھی جاری ہے جو اس وقت عارضی جنگ بندی کی وجہ سے کچھ ٹھنڈی پڑی ہوئی ہے اور یہ جنگ بندی فی الحال نہتے شہریوں کے قتل عام کی بندش کا سب بنی ہوئی ہے۔ یہ جنگ بندی گذشتہ سات برسوں کی جنگ کے بعد کی سب سے طویل جنگ بندی ہے۔ چنانچہ امید کی جاتی ہے کہ یہ جنگی جرم – جس کا ارتکاب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور تل ابیب کی غاصب یہودی کی براہ راست حمایت سے کرتے رہے ہیں – اختتام پذیر ہو جائے۔
غلطی میں نہ پڑیئے البتہ، کیونکہ یمنی عوام ہنوز قتل، بیماریوں اور غربت و افلاس کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں اور علاج و معالجے کی سہولیات ابھی فراہم نہیں ہو سکی ہیں کیونکہ سعودی اور مغربی مجرموں نے ابھی تک صنعا ایئرپورٹ پر بندش جاری رکھی ہوئی ہے۔
امریکہ یوکرین کو ہتھیار بھی دے رہا ہے لیکن ابلاغی و تشہیری میدان میں کچھ زیادہ ہی سرگرم ہے۔ امریکہ اس جنگ کا اصل سبب اور اصل فریق ہے اور یوکرینی روس کے خلاف امریکیوں کی نیابتی (Proxy) جنگ لڑ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی رائج الوقت منافقت کی رو سے، انھوں نے بےگناہ اور نہتے شہریوں کی حمایت کا پرچم اٹھا رکھا ہے اور اپنے آپ کو نجات دہندہ کے طور پر متعارف کرانا چاہتے ہیں۔ مگر ایک انگریزی کہاوت کے مطابق “پیٹھ پر پنکھ لگانے سے کوئی مرغی نہیں بنتا” اور یوکرین کے معاملے میں امریکی حکومت کے شور شرابے اور امریکی حکام کے مگرمچھ کے آنسو، یمنی [اور فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ خود یوکرینی] عوام کے خلاف امریکی جرائم کے حوالے سے واشنگٹن کو بری الذمہ نہیں کر سکتے۔ [گوکہ اقوام متحدہ بھی – جو فلسطین میں یہودی ایجنسی کی حکومت بنانے کے تاریخی جرم کے لئے آلہ کار کے طور پر استعمال ہوئی ہے اور ابتداء ہی سے مغربی-امریکی استعمار کے مظالم و جرائم کی تائید کرتی آئی ہے – بھی یمن پر سعودی اتحاد کی جارحیت کے پہلے دن سے ہی اس اتحاد سے رشوت لینے کی ملزم اور اس جرم میں برابر کی شریک ہے]۔

گذشتہ سال موسم خزان میں، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے “سعودی دباؤ! کے تحت!” یمن میں سعودی جرائم کے بارے میں اس کونسل کے ماہرین کے ایک گروہ کی تحقیقات کا سلسلہ روک لیا۔ ماہرین کے اس گروہ نے اپنی ایک رپورٹ میں یمن پر مسلط کردہ غیر انسانی صورت حال کی تشریح کرتے ہوئے لکھا تھا: “مارچ سنہ 2015ع‍” سے سعودی اتحاد نے یمن پر 23000 فضائی حملے کئے ہیں۔ ان حملوں میں 18000 سے زائد نہتے شہری قتل یا زخمی ہوئے ہیں۔ یمن ہر روز کم از کم 10 مرتبہ فضائی بمباریوں کا نشانہ بن رہا ہے چنانچہ اس جنگ نے کروڑوں یمنیوں کی جان و مال کو بدامنی سے دوچار کر دیا ہے۔ ان حملوں میں کام آنے والے افراد کی اکثر ان لوگوں کی ہے جو بازاروں میں خریداری کر رہے تھے، اسپتالوں میں زیر علاج تھے، شادیوں میں شریک تھے یا پھر کسی عزیز کے جنازے میں شرکت کر رہے تھے۔ بسوں میں اسکولوں کے بچے، چھوٹی کشتیوں پر سوار مچھیرے اور اپنے ہی گلی محلوں میں چہل قدم کرنے والے یا پھر وہ جو اپنے گھروں میں بیٹھے یا سو رہے تھے”۔
یمن میں سعودی-امریکی جرائم اس قدر المناک اور وسیع ہیں کہ انھوں نے اپنے مرتکبین تک کو اپنے انجام سے خوفزدہ کر دیا ہے۔ اگرچہ مجرمین عالمی نظام قانون کی بے ضابطگیوں اور بے نظمیوں [مغربی ممالک اور اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں کی حمایت یا خاموشی] سے آگاہ ہونے کے ناطے یہ خوف بھی انہیں جرائم کے ارتکاب سے نہ روک سکا ہے۔
روزنامہ نیویارک ٹائمز نے دو سال قبل اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے: “سنہ 2016ع‍ سے آج تک، یمن پر ہونے والی فضائی بمباریوں کی بھینٹ چڑھنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔ اوباما انتظامیہ کے لیگل آفس نے ایک غیر متوقعہ نتیجہ حاصل کیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ: «ممکن ہے کہ امریکہ کے اعلیٰ حکام جنگی جرائم کے ملزم ٹہریں؛ جنگی جرائم کا الزام اس لئے امریکی حکام پر لگے گا کہ وہ سعودیوں کو بم بیچ رہے ہیں». اس انتباہ کے چار سال بعد سابقہ اور موجودہ امریکی حکام کہتے ہیں کہ وہ قانونی خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ اور شدید ہے کیونکہ سابق صدر ٹرمپ نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مغربی ایشیا میں دوسرے اتحادیوں کو بے تحاشا ہتھیار فروخت کئے ہیں اور انھوں نے اپنے دور میں ہتھیاروں کی فروخت کو اپنی خارجہ پالیسی کا سنگ بنیاد بنا دیا تھا”۔
سعودی عرب اور امارات کو امریکی طیاروں کی مدد سے – جنہیں امریکی اسلحہ ساز اور ٹھکیدار مسلح کرتے ہیں – چند ہی ہفتوں میں فتح کی پیشین گوئی کر رہے تھے۔ میدان کی دوسری طرف سے وہ یمنی عوام اور انصار اللہ کو دیکھ رہے تھے جن کے مسلح دستوں کے اکثریتی مجاہدین حتیٰ کہ پہننے کو بوٹ اور یونیفارم اور دوسرے انفرادی وسائل سے محروم تھے اور انتہائی سادہ سے انفرادی ہتھیاروں کے ساتھ مغرب کے کیل کانٹے سے لیس گماشتوں کے آگے مزاحمت کرتے تھے اور نتیجہ بالکل غیر متوقع اور حیران کن تھا، ہفتے، مہینے اور سال گذرے ۔۔۔ سات سال ۔۔۔ اور نہ صرف جارح اتحاد کامیاب نہ ہو سکا بلکہ انصار اللہ کی عملداریوں میں اضافہ ہوتا گیا اور سعودیہ کے بظاہر پرامن علاقوں میں اہم فوجی اور اقتصادی ٹھکانے غیر محفوظ ہوگئے اور سعودی تیل کی صنعت کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔
میدان جنگ میں سعودی اماراتی – اسرائیلی – یورپی – امریکی اتحاد کی شرمناک شکست نے انہیں دیوانگی سے دوچار کیا۔ اس ہولناک جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف ہولناک جرم کا ایک ہی گوشہ فضائی بمباریوں پر مشتمل تھا۔ اس جرم کا بڑا حصہ یمن کی ناکہ بندی اور قحط پیدا کرنے کی صورت میں انجام کو پہنچا جو موجودہ عارضی جنگ بندی کے باوجود، بدستور جاری ہے۔
اکتوبر سنہ 2021ع‍ میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کے اعداد و شمار کے مطابق یمن میں مقتولین کی تعداد تین لاکھ 77 ہزار افراد تک پہنچی جن میں سے 70 ٪ پانچ سال سے کم عمر کے بچے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر افراد بالواسطہ عوامل – بالخصوص غذائی قلت، مختلف قسم کے امراض، ادویات کی شدید قلت اور علاج و معالجے کے وسائل کے فقدان – کی وجہ سے چل بسے ہیں۔ اُس سے بھی تین مہینے کی اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مابق “دو کروڑ یمنی باشندوں کو زندہ رہنے کے لئے بیرونی امداد کی ضرورت ہے”۔ اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے انسانی امور اور کوآرڈینیٹر برائے ہنگامی امداد مارٹن گریفتھس، نے سلامتی کونسل کو رپورٹ دی کہ “یمن میں پانچ ملین لوگ قحط اور متعلقہ بیماریوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے ایک قدم پر ہیں، جبکہ مزید 10 ملین ان کے پیچھے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔”
اسی طرح کی خوفناک تنبیہ یونیسیف (UNICEF) کی طرف سے بھی آئی جس میں کہا گیا تھا کہ: “26 لاکھ بچے اس وقت یمن کے اندر بے گھر اور صحت، تعلیم، حفظان صحت اور صاف پانی سے محروم ہیں۔ یمن کی مجموعی گھریلو پیداوار 2015 کے بعد سے 40 فیصد تک سکڑ گئی ہے، اور 21 ملین افراد – جن میں تقریباً 11 ملین بچے بھی شامل ہیں – کو انسانی بنیادوں پر غذائی امداد کی ضرورت ہے”۔
مختلف النوع امراض کا شکار امریکی صدر مسٹر بائیڈن نے انتخابات سے پہلے بہت سے وعدے دیئے تھے جو وفا نہ ہوئے جن میں یہ وعدہ بھی شامل تھا کہ کہ “میرے صدر بننے کے بعد سب کچھ بدلے گا” مگر ایسا ہؤا نہیں؛ یمن پر جارحیت تو ختم ہونے سے رہی، بائیڈن انتظامیہ نے مزید F-22 طیارے بھی جارح اتحاد کو فراہم کئے؛ لیکن جس چیز نے مجرم سعودی-اماراتی اتحاد کو فرسودگی اور تھکاوٹ سے دوچار کیا وہ سعودی عرب اور امارات کے اقتصادی مراکز پر انصار اللہ کے زبردست حملے تھے جنہوں نے ان دو ریاستوں کے سیاسی اور معاشی امن کو خطرے میں ڈال دیا [جارح ریاستوں کے مغربی حامی بھی البتہ سعودیوں اور اماراتیوں کی کامیابی سے مایوس ہو کر پیچھے ہٹنے لگے تھے جس کا ثبوت سعودی انٹیلجنس کے سابق سربراہ ترکی الفیصل کا حالیہ انٹرویو ہے جس میں اس نے واضح طور پر کہا ہے کہ: امریکہ نے یمن کی جنگ میں ہمیں تنہا چھوڑا جبکہ وہ جانتا تھا کہ انصار اللہ سے نمٹنا امریکی امداد کے بغیر ممکن نہ تھا۔] جو ضربیں انصار اللہ نے سعودیوں اور اماراتیوں پر لگائیں ۔۔۔ جبکہ یہ سب بہت سوں کے لئے قابل یقین نہ تھا ۔۔۔ انھوں نے ان کا فوجی اور اقتصادی نقصان اپنی جگہ، لیکن انھوں نے ریاض اور ابوظہبی کی عزت و آبرو اور سیاسی اور فوجی ساکھ خاک میں ملا دی۔ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان (MBS) – جو باپ کی حیات میں ہی سعودی ریاست کے سیاہ و سفید کا مالک بنا ہؤا ہے – بھگوڑے-سابق یمنی صدر منصور ہادی کو معزول کرکے ریاض میں ہی اپنے ہوٹل میں نظربند کردیا جس سے گذشتہ سات برسوں سے ریاض کے ہوٹلوں میں بسیرا کرنے والے یمن کی صدارت کے دعویدار – جسے اقوام متحدہ میں یمن کی نمائندگی بھی دی گئی تھی – کا پول بھی کھل گیا اور یہ بھی واضح ہؤا کہ یمن مخالف محاذ میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود حد سے زیادہ خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ سعودی اور نہیانی قبائل عوامی مزاحمت اور کانٹے دار مقاومت کے سوا کسی چیز کو بھی اپنے شرمناک جرائم کے سامنے خاطر میں نہیں لاتے جبکہ انہیں امریکہ کی عسکری اور سیاسی حمایت بھی بدستور حاصل ہے۔
بائیڈن نیم رتی برابر عقل و ہوش کا مالک ہوتا تو موجودہ صورت حال میں بہت تیزی سے یمن کی جنگ میں اپنی مداخلت اور جارح سعودی اتحاد کی حمایت کو ختم کرتا۔ کیونکہ یہ ناقابل قبول ہے کہ واشنگٹن ایک طرف سے یوکرین کے معاملے میں انسان دوستی کے بلند بانگ دعوے کرتا رہے اور انسانیت کے لئے مگرمچھ کے آنسو بہاتا رہے اور دوسری طرف سے اس کے ہاتھ کہنیوں تک یمنی عوام کے خون میں ڈوبے ہوئے ہوں!
اور ہاں! حال ہی میں ایک ویڈیو کلپ عالمی سطح پر بہت زيادہ دیکھا گیا جس میں امریکیوں کا منتخب صدر! جو بائیڈن شمالی کیرولینا میں خطاب کے بعد ہوا کے مصافحہ کر رہا ہے اور ٹرمپ کے بقول انھوں نے کئی مرتبہ یہ عمل دہرایا ہے۔ ٹرمپ کا طنز میں یہ کہنا تھا کہ بائیڈن کسی غیر مرئی وجود سے ہاتھ ملا رہا ہے، جبکہ کئی لوگوں نے اس کو جناب صدر کے زوال عقل (dementia) کی علامت قرار دیا۔ بہرحال ایران کے ساتھ جوہری معاہدے اور جنگ یمن جیسے موضوعات کا انجام بتا دے گا کہ لوگوں کا یہ جائزہ کس حد تک درست ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242