اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
پیر

2 مئی 2022

1:34:02 PM
1254185

ہندوستانی مسلمان اور شناخت کا بحران

وہ انسان جو اپنی شناخت کھو بیٹھتا ہے بالکل ایسا ہی ہے جس نے اپنے پورے سرمایے کو لٹا دیا ہو وہ کسی سے بھی ضمیر کا سودا کرنے کو تیار ہو جاتا ہے کیونکہ اسے پتہ ہی نہیں وہ کیا ہے اور اسکا وجود کس لئے ہے وہ کہاں سے آیا ہے کہاں جانا ہے مقصد حیات کیا ہے بلکہ وہ تو اپنے وجود کی بھول بھلیوں میں خود کو بھٹکتا پا کر لذت محسوس کرتا ہے ۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ دنیا میں ہر قوم اپنی مذہبی فکری بنیادوں اور اپنے ثقافتی رہن سہن سے پہچانی جاتی ہے عرصہ دراز سے ہندوستان میں مسلمان اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ جیتے آئے ہیں لیکن افسوس گزشتہ کچھ سالوں میں جہاں مسلسل مسلمانوں پر منظم طور پر جانی و مالی حملے ہو رہے ہیں وہیں پیہم فکری و مذہبی طور پر بھی انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے ایسے میں یہ تو واضح ہے کہ جو لوگ شروع سے ہی مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور انکا ہم و غم ہی یہی ہے مسلمانوں کو ہراساں کیا جائے تو ظاہر ہے وہ اسی تگ و دو میں مشغول ہیں کہ کیا ایسا کچھ نیا کیا جا سکے کہ مسلمانوں کو مزید ہراساں کیا جائے انکی تو بات ہی کیا ہے انکی تو صبح شام ہی نفرتوں کا زہر پی کر سماج میں نفرتوں کا زہر گھولنے میں ہو رہی ہے لیکن ہمیں افسوس ان لوگوں پر ہے جو آج خود ہی ثقافتی و مذہبی جنگ میں دشمن کے محاذ پر اسکا ساتھ دے رہے ہیں اور انکی ظاہری وضع قطع چیخ چیخ کر پکار رہی ہے کہ اسلام سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے ان لوگوں کی وجہ ہے معاشرے میں بعض جوانوں کے لئے اپنے تشخص کے ساتھ جینے کا سوال پیدا ہو رہا ہے، وہ جوان جو اپنے اسلامی تشخص و اسلامی شناخت کے ساتھ جی رہے ہیں یقینا خدا کے یہاں انکا بڑا اجر ہے لیکن افسوس ان بہروپیے مسلمانوں پر ہے جو ذرا سے مفاد کی خاطر ہر ایک چیز کو اپنے پیروں تلے روندنے پر تلے ہیں جب کہ انہیں خود بھی پتہ ہے انہیں مہروں کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے انکی کوئی حقیقت نہیں ہے جب کام ہو جائے گا تو انہیں دودھ کی مکھی کی طرح نکال دیا جائے گا۔
شناخت کا بحران کیا ہے؟
شناخت کا بحران identity crisis درحقیقت انسان کے وجود کے اندر ایک ایسی ڈھل مل یقین کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنے وجود کا تشخص قائم رکھنے میں ناکام رہتا ہے وہ ہوا کے رخ پر کبھی ادھر کبھی ادھر جاتا ہے کوئی بھی اسے اپنے مفاد میں استعمال کر لیتا ہے ۔
گرچہ اپنی شناخت کا بحران کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے اور ابتداء بشریت سے یہ معاملہ رہا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو نہ قابیل نے جناب ہابیل کو قتل کیا ہوتا اور نہ ہی کوئی سیدھے راستے سے بھٹک کر شیطان کے راستے کو اختیار کرتا یہ جو بھی دنیا میں افراتفری کا ماحول ہے انسان کی اپنی شناخت کھو بیٹھنے ہی کی بنیاد پر ہے ہر ایک دین ہر مذہب کی تعلیمات انسان کو ایک شناخت سے آشنا کرتے ہیں اسلام نے انسان کی شناخت اسکے وجود کے اندر جذبہ تسلیم و رضا کے طور پر رکھی ہے توحیدی مزاج رکھنا ایک مسلمان کی شناخت ہے اب یہ الگ بات ہے کہ توحیدی مزاج کیا ہے اور کون اس پر کتنا چل سکتا ہے یہ خود ایک گفتگو ہے توحیدی مزاج کا اگر کوئی حامل ہے تو ہرگز وہ کبھی رحمن کے راستے سے بھٹک کر شیطان کی راہ پر نہیں چلے گا اسکی تہذیب توحیدی ہوگی اسکی ثقافت توحیدی ہوگی اسکا اٹھنا بیٹھنا توحیدی ہوگا لیکن مشکل یہ ہے کہ الحادی طرز فکر کی موجودہ دور میں ایسی آندھی چلی ہے کہ بہت سے لوگ اپنے تشخص کو کھو دینے کے بعد بھی اس بات کو لیکر سوچنے تک کے لئے تیار نہیں ہیں کہ ان کی اپنی شناخت ہے بھی یا نہیں اور شناخت اگر چھن گئی تو کیا انسان کی زندگی کا کچھ حاصل ہے ، کیڑے مکوڑوں کی زندگی بھی کیا زندگی ہے جنکی اپنی شناخت نہیں ہوتی ہر ایک کا ایک ہی رنگ ایک ہی انداز ہوتا ہے غرض شناخت کے سلسلہ سے گفتگو تو زمانے سے ہے لیکن تشخص یا شناخت کے بحران کی گفتگو کو جرمنی ky مفکر Erik Homburger Erikson نے ایک مستقل گفتگو کے طور پر پیش کیا اریکسن نے نفسیات کے مسائل کو بیان کرتے ہوئے ، شناخت کے بحران اور اسکی نشوونما کے مراحل کو ایک نظریہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس بات کو بیان کیا ہے کہ شناخت کے بحران کی کیفیت ۸ مراحل پر مشتمل ہے اس نظریہ کے بموجب نفسیاتی ترقی کا وہ مرحلہ جس میں شناخت کا بحران پیدا ہو سکتا ہے اسے شناختی ہم آہنگی بمقابلہ کردار کی الجھن کہا جاتا ہے۔ اس مرحلے کے دوران، نوعمروں کو جسمانی نشوونما، جنسی پختگی، کے ساتھ یہ مسئلہ در پیش ہوتا ہے کہ وہ اور اپنے بارے میں اور دوسرے ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں لہٰذا نوجوان اپنی خود کی ایک تصویر بناتے ہیں اور اپنی بنیادی انا کی شناخت کے بحران کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ شناخت کے بحران کا کامیاب حل اعتماد، خودمختاری، کےساتھ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ گزرے دنوں میں ہم نے کیسی زندگی گزاری ہے اور کتنی پیشرفت کی ہے جہاں تک اریکسن کی بات ہے تو خود اس دانشور نے شناخت کے سلسلہ سے شروع سے ہی اپنے مطالعہ کا آغاز کیا ۔ جیسا کہ ایریکسن کی زندگی میں ملتا ہے کہ ایرکسن نے محسوس کیا کہ وہ ایک بیرونی شخص ہے حالات و واقعات اس پر اثر انداز ہو رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی شناخت کے بحران کے موضوع کو پیش کیا اور اس بات کو بیان کیا کہ اگر اس بات پر توجہ نہ دی جائے کہ ہم کون ہیں اور ہمیں کیا کرنا ہے تو ممکن ہے نوعمر بچے معمول کی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کر لیں اور کسی چیز میں دلچسبی نہ دکھائیں جب ایسا ہو جاتا ہے تو انسان بالکل علیحدہ ہو جاتا ہے ، اور مستقبل کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قاصر رہتا ہے جبکہ منفی سرگرمیوں جیسے جرائم یا منشیات کی طرف ایسے انسان کے چلے جانے کا احتمال بہت زیادہ ہوتا ہے جبکہ وہ لوگ جو شخصیت کی نشوونما کے نوجوانی کے مرحلے سے شناخت کے مضبوط احساس کے ساتھ ابھرتے ہیں وہ اعتماد اور یقین کے ساتھ جوانی کی مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے اچھی طرح سے لیس ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انسان کا بچپنا اسکی پروش کس ماحول میں ہوئی ہے یہ انسان کی شناخت میں بہت اہم ہے انسان کس کے ساتھ اٹھ رہا ہے کس کے ساتھ بیٹھ رہا ہے اسکے ساتھیوں کا نوجوانی کے دوران جو گہرا اثر ہوتا ہے وہ انسان کے ذاتی تشخص کی تصویر بنانے میں بہت اہم ہوتا ہے ماحول دوست و احباب اسکول ماں باپ ان سب کا انسان کی شناختی نشوونما پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ جبکہ اگر انسان ذرا سی غفلت کرے تو یہ غفلت اسکے وجود کی تباہی کا سبب بن جاتی ہے اور اس کی جنونیوں کے ساتھ وابستگی پیدا ہو جاتی ہے چونکہ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے اس لئے انہیں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے جو احمقانہ باتیں کرتے ہوں اور ان تمام چیزوں کی وجہ سے معاشرے اور سماج کے ساتھ وفاداری کی بجائے اورغداری کی طرف آجاتا ہے ۔ اریکسن نے بھی اس بات کو زور دے کر بیان کیا ہے کہ وہ چیز جو انسان کے وجود کے اندر پرورش پانا ضروری ہے وہ وفاداری ہے، جو صرف ایک حقیقی تشخص سے ابھرتی ہے اور وفاداری کو دوسرے لوگوں کے ساتھ ہمارے تعلقات میں خلوص، سچائی اور فرض کے احساس کو شامل کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔
شناخت کا بحران کتنا نقصان دہ
وہ انسان جو اپنی شناخت کھو بیٹھتا ہے بالکل ایسا ہی ہے جس نے اپنے پورے سرمایے کو لٹا دیا ہو وہ کسی سے بھی ضمیر کا سودا کرنے کو تیار ہو جاتا ہے کیونکہ اسے پتہ ہی نہیں وہ کیا ہے اور اسکا وجود کس لئے ہے وہ کہاں سے آیا ہے کہاں جانا ہے مقصد حیات کیا ہے بلکہ وہ تو اپنے وجود کی بھول بھلیوں میں خود کو بھٹکتا پا کر لذت محسوس کرتا ہے ۔
انسان کا اپنا ذاتی تشخص اس لئے اہم ہے کہ یہ انسان کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے اسکے وجود کو با معنی بنانے کے لئے ضروری ہے اریک فورم نے انسان اور جانوروں کے فرق کو بیان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ انسان اور جانور کا فرق اگر دیکھا جائے اسکی بنیادی ضرورتوں میں ہے جنہیں نہ پہچانا جائے توانسان اور حیوان میں فرق ہی نہیں بچتا ۔
آج ہم اپنے ملک میں دیکھ رہے ہیں کیا حالات ہیں اقتدار کی خاطر کرسی کی خاطر کس طرح انسان انسان کو نوچ رہا ہے مار رہا ہے کاٹ رہا ہے اس کے گھر کو تباہ کر رہا ہے چھوٹے چھوٹے بہانوں کی آڑ میں مظلوموں کی بستیوں کو اجاڑ رہا ہے غریبوں کے سر چھپانے کی جگہوں کو زمین دوز کر رہا ہے یہ سب کیوں ہے یہ اسی وجہ سے ہے کہ انسان معیار انسانیت پر نہیں بلکہ معیار حیوانیت پر جی رہا ہے ، ایسے میں کون ہے جو ان لوگوں کو انسانی معیار کی طرف دعوت دے جو انسانی اصولوں کو بھول کر جنگل راج کی طرف بڑھ رہے ہیں ظاہر ہے وہی امت دعوت دی سکتی ہے جسکے وجود کے اندر جذبہ تسلیم و رضا اپنے مالک کے سامنے بے چوں چرا جھک جانا اس کے حکم کی خاطر خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلانے جیسے تعلیمات ہوں ۔
اب مشکل یہاں پر ہے کہ جب کوئی خود ہی مریض ہو جائے تو مریض کا علاج کیا کرے گا ؟ ہمارے سامنے آج ملک میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مسلمان جو اذان میں اللہ اکبر کی آواز بلند کرتا ہے وہ اتنا چھوٹا ہو گیا ہے کہ بونوں کی طرح کچھ ہتھیلوں پر کام کر رہا ہے اسلامی شناخت کے اصولوں سے کھیل رہا ہے شناخت کے بحران کے ایسے دور سے گزر رہا ہے جومسلمانوں کی اب تک کی تاریخ میں نہیں دکھا ، کیا یہ افسوس کی بات نہیں کہ جب ملک کی فضا ایسی بن رہی ہے کہ ہر طرف نفرتوں کے بادل ہیں تو ہم اپنے اسلامی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے تشخص کے ساتھ جیتے ہوئے یہ بتائیں کہ حقیقی زندگی کے معنی کیا ہیں لیکن ہم خود روز بروز اپنے تشخص کو کھوتے جا رہے ہیں ، یہ کبھی اس چوکھٹ پر جانا کبھی کسی اور چوکھٹ پر سر کو خم کرنا کبھی کپڑوں کا رنگ بدلنا کبھی لباس رسول میں پہن کر شرک و الحاد کو چولا پہننا کیا یہ ہمیں زیب دیتا ہے ؟
ہم نے اس ملک میں قربانیاں دی ہیں ، ہم نے اس ملک کی خاطر جانوں کا نذرانہ دیا ہے ہم نے اس ملک میں امن و بھائی چارے کا پرچم لہرایا ہے ہم نے اس ملک میں چھوا چھوت کی بیماری کا مقابلہ کر کے بتایا کہ انسانوں کے ساتھ کس طرح انسانی طرز عمل اختیار کیا جاتا ہے ہم نے یہاں پر اس وقت تاریخ سے یہاں کے باشندوں کو آگاہ کیا ان کے پاس اپنی تاریخ نہ تھی ہم نے یہاں استعمار کا اس وقت مقابلہ کیا جب لوگ سامراج کے تلوے چاٹ رہے تھے ہم اس وقت بیرونی طاقتوں کے خلاف ڈٹے رہے جب کچھ لوگ مخفیانہ طور پر ملک کی زمینوں کو بیچ رہے تھے کاش ہم اپنی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے اور دیکھتے کہ ہمارا ماضی کتنا درخشاں ہے تو آج یہ حالت نہ ہوتی بے خبری کی تو حد ہوتی ہے جو کچھ ہم نے کارنامے پہلے انجام دئیے آج جہالت کے گھٹر میں اسے خود ہی پھینک رہے ہیں اور خوش ہیں کہ ملک کی خدمت کر رہے ہیں ۔
کہاں ہے ہمارا اسلامی تشخص جو کہتا ہے مظلوموں کا ساتھ دو ظالموں کے مقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ڈٹ جاو کہاں ہے ہمارا تشخص جو آواز دیتا ہے کہ محروموں کو اگر ان کے حق سے محروم کیا گیا تو تم بھی اللہ کی رحمت سے محروم ہو جاوگے ان کے لئے بولو کھڑے ہو انکے حق میں آواز اٹھاو کہاں گیا ہمارا تشخص جو کہتا ہے کہ اپنے ملک سے غداری نہ کرو جس وطن کی مٹی میں تم پیدا ہوئے جس کی مٹی میں خاک ہو جاوگے اگر کوئی اسے تباہ کرے تو تمہارا فرض ہے کہ ملک کے برباد کرنے والوں کا مقابلہ کرو تدبیر سے کام لو منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھو ۔
لیکن افسوس بجائے اس کے کہ ہم اپنے تشخص کو باقی رکھتے ہوئے اپنے ملک کی تعمیر کے بارے میں سوچتے اپنے آپ کو کٹھ پتلی بنائے ہوئے ہیں نہ اپنی فکر کی سرحدوں کا دفاع کرتے ہیں نہ اخلاق و دین کے محاذ پر ہی ڈٹے ہوئے ہیں نفرتوں کے بجاری روز بروز ہمیں پیچھے کی طرف کھدیڑتے چلے جا رہے ہیں اور ہم ہر دن کے سورج کے ساتھ تاریک راتوں کو اپنا مقدر بنائے جا رہے ہیں ۔ ہمیں اپنے تشخص کو باقی رکتھے ہوئے اسی طرح جینا ہوگا جیسے یہاں ٹیپو سلطان نے زندگی کی اپنے تشخص کو باقی رکھتے ہوئے ہمیں ویسے ہی ملک کے لئے جینا ہونا جیسے مجاہدین آزادی نے زندگی گزاری ، خوف کس بات کا ڈر کس چیز کا ہم نے کبھی ملک کو توڑنے کی کوشش نہیں کی ہمیشہ اپنے وطن کو جوڑا ہے جب وہ لوگ جنہیں آسانیاں چاہیے تھیں اچھی زندگی چاہیے تھے اس ملک کو چھوڑ کر چلے گئے تب بھی ہم محرومیوں میں رہے لیکن ہم نے اپنے ملک کے ساتھ دغا نہ کی تو آج بھی ہم سر اٹھا کر کیوں نہیں جی سکتے اپنے ایمانی تشخص کے ساتھ کیوں نہیں جی سکتے ، آج دشمن کو محسوس ہو گیا ہے کہ ان کی فکری بنیادی خود ان کی کھوکھلی فکر کی بنیاد پر متزلزل ہو گئیں ہیں ان میں توحید تصور حیات نہیں ہے مادیت کا کھوکھلا پن بیٹھ چکا ہے تو وہ بھی ہر طرف سے حملہ ور ہے کبھی حجاب ، کبھی اذان ، کبھی حلال گوشت یہ اور کچھ نہیں در حقیقت ہمیں مکمل طور پر دشمن کمزور کرنا چاہتا ہے اب ہم میں سے بعض نادان و احمق بھی وہی باتیں کریں جو اس ملک کو توڑنے والے کر رہے ہیں تو یہ ملک و قوم کے ساتھ خیانت ہے کوئی بھی خیانت کرے لیکن ہمارا سلامی تشخص ہمیں خیانت کرنے سے روکتا ہے لہذا ہم سب پر فرض ہے اپنے تشخص کی طرف آئیں اور سربلندی کے ساتھ اسی طرح جئیں جس طرح ہم پہلے جیتے رہے تھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242