اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
ہفتہ

30 اپریل 2022

11:15:57 AM
1253321

اذان پر ہونے والی سیاست اور ہم

اذان کے لئے تو واضح ہو گیا کہ اسلام کا حصہ ہے اور شریعت کا حکم ہے اب بات رہ جاتی ہے مائیک پر اذان دینے کی، تو ظاہر ہے اسکا تعلق دین سے نہیں ہے اسکا تعلق ہر ملک کی ثقافت و کلچر سے ہے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہمارے یہاں دیگر مذاہب کے پروگراموں میں لاوڈ اسپیکر استعمال ہوتا ہے یا نہیں ؟

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ آج کل ہمارے یہاں اذان کو لیکر تنازعہ کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے یوں تو گزشتہ سالوں میں مسلسل ہی مسلمانوں کو بلا سبب ہراساں کرنے کی کوششیں وقتا فوقتا ہوتی رہی ہیں لیکن گزشتہ چند مہینوں میں یک بعد دیگر جس طرح سے مسلمانوں سے جڑے مسائل کو اٹھایا جا رہا ہے وہ اپنے آپ میں سوال بر انگیز ہے ، کبھی حجاب کا مسئلہ ، کبھی گوشت کا مسئلہ تو کبھی مسلمانوں سے خریداری نہ کرنے کا مسئلہ اور اب اذان کا مسئلہ یہ تمام وہ چیزیں ہیں جنہیں لیکر ہر ایک محب وطن پریشان ہے کہ ہمارا ملک کہاں جا رہا ہے اسے کس کی نظر لگ گئی ہے ، ابھی حالیہ مختلف ریاستوں میں ہونے والے فسادات اپنی جگہ دہلی کا فساد اپنی جگہ لیکن یہ اذان کو لیکر جو تنازعہ کھڑا ہو رہا ہے کہیں یہ آگے بڑھ کر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے ۔
ایک طرف تو اذان پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں دوسری طرف بعض نام نہاد مسلمانوں کو مختلف چینلنز کے ٹاک شوز میں بٹھا کر یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ باور کرایا جائے اسلام میں اذان کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے بالکل حجاب کی طرح کوشش کی جا رہی ہے ملک میں دیگر مذاہب کے لوگوں تک یہ میسج دیا جائے کہ یہ ساری چیزیں بعد کی ہیں انکا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے یہ ساری باتیں اس لئے بیان ہوتی ہیں کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے بعض اسلام کے ایسے احکامات ہیں جو اسلام کے تو ہیں لیکن دوسروں سے ماخوذ ہیں انہیں میں ایک اذان بھی ہے۔
اس لئے ہم پہلے تو مختصر طور پر بیان کرنے کی کوشش کریں گے اذان کیا ہے اور کیوں ضروری ہے اور اسلام کی نظر اس سلسلہ سے کیاہے اور ملک میں کس کو اس سے پریشانی ہے ۔

اذان کی تاریخ اور اس کا سابقہ
یوں تو بعض روایات کے مطابق اذان کا آغاز شب معراج کی طرف پلٹتا ہے جسے فریقین نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے لیکن تاریخ کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو اذان کی ابتداء اس وقت ہوتی ہے جب حضور ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچتے ہیں اس لئے کہ معراج کی شب اور بھی احکامات پیغمبر ص تک پہنچائے گئے لیکن حضور ص نے زیادہ تر مکہ کے بعد مدینہ کی زندگی میں لوگوں تک انہیں تدریجی طور پر پہنچایا ۔ چنانچہ تبدیلی قبلہ کے بعد بعض لوگوں نے حکم اذان کو بیان کیا ہے یہاں پر بعض لوگوں نے کوشش کی ہے کہ اذان کی نسبت عبد اللہ ابن یزید کی طرف دیں اور یہ ظاہر کریں کہ اسکا آغاز پیغمبر ص سے نہ ہو کر ایک خواب سے ہے جبکہ یہ وہ چیز ہے جو سراسر غلط ہے اور ان لوگوں پر پیغمبر ص نے لعنت کی ہے جو اذان کو عبداللہ ابن یزید نے منسوب کرتے ہیں ۔
چنانچہ سیرہ حلبی میں ملتا ہے کہ جب حضور مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو مسلمان آپ کے ارد گرد جمع ہو گئے اور سب سوچنے لگے کہ نماز کا وقت جب آئے گا تو کیا کریں گے کیسے ایک دوسرے کو اطلاع دی جائے گی ہر ایک نے اپنی اپنی بات کی کسی نے کہا شیپور بجایا جائے کسی نے کہا کوئی شنکھ جیسا آلہ ہو تو کسی نے کہا ناقوس ہو بعض نے مشورہ دیا کہ اذآن کے وقت ایک پرچم بلند کر لیا جائے گا جس سے لوگ سمجھ جائیں گے نماز کا وقت ہو چکا ہے، حتی بعض نے یہاں تک کہا کہ ایک آگ روشن کی جائے جس سے لوگوں کو پتہ چلے گا اذآن کا وقت ہو گیا ہے تمام تجاویز پر غور کیا گیا پھر یہ نتیجہ نکلا کہ یہ ساری وہ چیزیں ہیں جن میں دوسرے مذاہب کی تقلید ہو رہی ہے چونکہ شیپور و ناقوس کا تعلق یہود و نصاری سے تھا آگ جلانے کا تعلق مجوسیوں سے تھا ایسے میں سب پریشان تھے کہ کیا کیا جائے عبد اللہ ابن یزید کو بھی فکر مندی لاحق تھی سو اس صحابی پیغمبر ص کے دل و دماغ میں یہی سب باتیں چل رہی تھیں کہ انہوں نے دیکھا ایک گلی میں کوئی شیپور کاندھے پر رکھے چلا جا رہا ہے انہوں نے اسے خریدنے کی کوشش کی تو سوچا اسے حضور ص کے لئے خرید لیا جائے اور مشکل حل ہو جائے لیکن کسی وجہ سے نہیں خریدا اور خواب میں دیکھا کہ اس طرح سے اذان دی جائے اور یوں اذان کے جملات ان کی زبان پر آئے اور انہوں نے پیغمبر ص کو اطلاع دی یہ وہ چیز ہے جو شریعت محمدی کے اصولوں سے سازگار نہیں ہے اسلام کے اتنے بڑے حکم کو خواب سے جوڑ کر بیان کیا جا رہا ہے جبکہ اس کا حکم خود قرآن میں ہے اور خود پیغمبر ص نے اپنی حیات طیبہ میں واضح کیا کہ اذان کس طرح سے دی جائے صحیح بات تو یہ ہے کہ اذان کا طریقہ حضور ص کو شب معراج ہی بتا دیا گیا ہے اس کے بعد جب مکہ میں آپ سختی و تنگی میں تھے اور چھپ چھپا کر اللہ کی بندگی میں مشغول تھے نماز بھی چھپ کر پڑھتے تھے تو اسی دور میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جبرئیل اذان کا حکم لیکر اس حالت میں حضور ص کے پاس آئے کہ حضور کا سر علی ابن ابی طالب کی آغوش میں تھا جناب جبرئیل نے آکر اذان و اقامت کہی پیغمبر ص نے اذان کو سنا اور امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے فرمایا علی تم نے سنا امام علی علیہ السلام نے کہا ہاں یا رسول اللہ ص آپ نے فرمایا بلال کو بلاو تاکہ یہ اذان بلال کو سنا دوں امیر المومنین علیہ السلام نے بلال کو بلایا اور پیغمبر ص نے اذان کی تعلیم بلال کو دی اور یوں جناب بلال اسلام کے رسمی موذن قرار پائے۔

قرآن کریم میں اذان کا حکم
قرآن کریم میں اذان کے سلسلہ سے مختلف انداز میں واضح حکم موجود ہے کہیں اذان کو ندا کے طور پر پیش کیا گیا ہے تو کہیں پکارنے و بلانے کے طور پر، مفسرین نے جہاں کہیں بھی اذان کو ندا کے معنی میں یا پکارنے و بلانے کے معنی میں ذکر کیا ہے تو واضح طور پر اس بات کو تسلیم کیا ہے یہاں پکارنے سے مراد اذان ہے جیسا کہ صاحب کتاب ـ’’کنز العرفان فی تفسیر آیات الاحکام ‘‘جناب فاضل مقداد نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ یہاں پر دعوت و ندا سے مراد اذان ہے ۔
اذان کے سلسلہ سے گفتگو اور بھی ہو سکتی ہے لیکن ہم اختصار کے پیش نظر اتنے پر ہی اکتفا کرتے ہوئے بس اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ اذان دین کا ایک اہم حصہ ہے ہرگز اس کا تعلق نہ کسی خواب سے ہے اور نہ ہی کسی اور دین سے یہ ماخوذ ہے یہ ساری گفتگو ان لوگوں کے لئے تھی جو میڈیا کے سامنے بیٹھ کر جہالت بگھارنے والوں کی باتوں میں آ جاتے ہیں اور دین و شریعت سے ناواقفیت کی بنیاد پر وہی باتیں کرنے لگتے ہیں جو دشمن کر رہا ہے ۔

لاوڈ اسپیکر پر اذان
اذان کے لئے تو واضح ہو گیا کہ اسلام کا حصہ ہے اور شریعت کا حکم ہے اب بات رہ جاتی ہے مائیک پر اذان دینے کی، تو ظاہر ہے اسکا تعلق دین سے نہیں ہے اسکا تعلق ہر ملک کی ثقافت و کلچر سے ہے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہمارے یہاں دیگر مذاہب کے پروگراموں میں لاوڈ اسپیکر استعمال ہوتا ہے یا نہیں ؟ اگر ہوتا ہے تو اذان بھی انہیں میں ایک ہے اب یہ انتظامیہ کے اوپر ہے کہ صوتی آلودگی کا اسے کتنا خیال ہے ہمارا ملک تہذیبوں کا گہوارہ ہے یہاں ہر تہذیب کے پھول کھلے ہوئے ہیں ہر ایک کی اپنی خوشبو ہے سبھی اپنی اپنی جگہ محترم ہیں گنگا جمنی تہذیب بھی یہی ہے کہ یہاں پر ہر ایک اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا حق رکھتا ہے اور اس کی اجازت ہمارا آئین ہمیں دیتا ہے اب ایسے میں ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر آئین نے مذہبی پروگراموں کے لئےمندروں ، مساجد و کلیسا و دیر و گرودواروں کے لئے لاوڈ اسپیکر کے استعمال کی اجازت دی ہے اور اس سے کسی کا حق بھی ضائع نہیں ہوتا تو بلا وجہ ملک میں انتشار پیدا کرنے کا کیا فائدہ ؟
اگر لاوڈ اسپیکر پر پابندی لگے تو سب کے لئے لگے اگر اجازت ملے تو سب کو ملنا چاہیے اسے کسی ایک فرقے سے کسی ایک مذہب سے جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہیے ، کیا ملک میں جگہ جگہ جو ڈی جے بجتے ہیں ان سے کسی کو کوئی ڈسٹرپ نہیں ہوتا کیا رات میں دیر رات تک گانے بجانے کی آوازوں سے نیند اور گہری ہو جاتی ہے ، اگر ایسا نہیں ہے تو محض کسی ایک مذہب سے مخصوص کسی ایک چیز کو ٹارگٹ کرنا غیر مناسب اور غیر انسانی عمل ہے ہم سب ایک عرصے سے امن و سکون کے ساتھ اس ملک میں رہتے آئے ہیں عرصے سے اذان بھی ہوتی آئی ہے ہر ایک نے دوسرے مذہب کے مراسم کا احترام کیا ہے اذان کو لیکر ملک کے وزیر اعظم کا طرز عمل دیدنی وبے نظیر ہے جس میں ملک کے وزیر اعظم کو اذان کے وقت اپنا بھاشن روک کر مائک نیچے کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جب ملک کے وزیر اعظم اذان کے احترام میں اپنے بھاشن کو روک کر اپنا مائک نیچے کر سکتے ہیں تو آخر کچھ سر پھرے لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ ملک قانون سے چلتا ہے نفرت کے جذبات سے نہیں۔ آئیے مل جل کر دعا کریں کہ مالک اس ماہ مغفرت میں ہمیں توفیق دے اسکی رحمتوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے دامن میں سمیٹ سکیں اور ہمارے ملک میں ہر سو چین و سکون رہے اور امن و امان کے ساتھ ملک روز بروز ترقی کی منزلوں کو طے کرتا رہے انشاء اللہ ۔ ہمارے امام کا جلد از جلد ظہور ہو سچ تو یہ ہے کہ فرزند زہرا ع کی آمد ہی مظلوموں کے زخموں پر مرحم کا سبب بن سکتی ہے ۔

بقلم ابوجواد زیدی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242