اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
ہفتہ

30 اپریل 2022

10:53:01 AM
1253300

جعلی اسرائیلی ریاست کی تہری جعل سازی/ صہیونی نظام نہ تو ایک ریاست کا قیام

غاصب اسرائیلی نظام میں نہ تو ریاست کے تعین کی حد کی کوئی قوم تھی اور نہ ہی کوئی سرزمین تھی؛ اور چونکہ حکمرانی اور ریاست قوم اور زمین کے ملاپ کی پیداوار ہے، اسی لئے یہاں جعل سازی در جعل سازی در جعل سازی (تہری جعل سازی) ہوئی ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ فلسطین پر قبضے کے 74 برسوں کے دوران کی صورت حال اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ یہ غاصب اسرائیلی ریاست اپنے استحکام کے عمل کے انتظام میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے اور بطور ریاست اپنی پوزیشن مستحکم نہیں کر سکی ہے۔ ایک ایسی ریاست کے قیام کے لئے – جو پہلے سے موجود نہ تھی، عام طور پر زیادہ سے زیادہ 25 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے، یعنی ایک نسل؛ – جس میں ایک عمل (process) کو منصوبے (project) پر منتج ہو جائے۔ اس کی ایک مثال ایک اسلامی ملک “پاکستان” کا قیام ہے جس کا وجود 25 برس کے عرصے میں مستحکم ہؤا اور ہندوستان نے بھی اسے اس عرصے کے آخر (1972ع‍) میں ایک حتمی وجود کے طور پر تسلیم کیا اور اس کے ساتھ سیاسی تعلقات کے قیام کا آغاز کیا۔ جیسا کہ بنگلہ دیش، عراق، سعودیہ، کویت، قطر، عمان، مصر، الجزائر، تیونس وغیرہ کی خودمختاری کا عمل بھی ایسا ہی تھا۔
سوال یہ ہے کہ اسرائیلی ریاست کے قیام کے سلسلے میں ایسا کیوں نہیں ہؤا اور اس کی فوج اس طویل عرصے سے، آج تک، “ہمہ وقت تیار باش” کیوں ہے؟ اس کی دلیل اور ان ممالک اور غاصب ریاست کے درمیان فرق یہ ہے کہ اگر چہ مذکورہ ممالک میں ان ناموں کی ریاستیں نہیں تھیں لیکن جو ریاستیں قائم ہوئی ہیں ان کے لئے ایک سرزمین اور ایک قوم ضرور تھی۔ جو لوگ – بطور مثال پاکستان میں – اس نام کے ملک کے مالک بنے، کہیں اور سے ان سرزمینوں میں نہیں آ ٹپکے تھے؛ اور لاہور، کراچی، راولپنڈی وغیرہ کے باشندوں کے آباء و اجداد ان ہی شہروں کے باسی تھے اور ان شہروں سمیت پاکستان کے تمام شہروں کے عوام ان شہروں کی اراضی کے مالک اور متصرف تھے۔ ان سرزمینوں اور ان کے باشندوں کا عینی اور معروضی وجود تھا، بات صرف یہ ہے کہ یہ سرزمینیں اور یہ عوام کسی دوسری حکمرانی کے تحت تھے چنانچہ جب پاکستان بھارت سے جدا ہؤا تو اس جغرافیائی خطے کے عناصر میں صرف ایک “حکمرانی” کا اضافہ ہؤا اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔ یہی قاعدہ دوسرے ممالک کے سلسلے میں بھی جاری ہؤا۔
جبکہ غاصب اسرائیلی نظام کے سلسلے میں ان تین عناصر میں سے کوئی ایک بھی موجود نہیں تھا اور نہیں ہے؛ یعنی نہ ایک ریاست کے لئے “ضروری حجم” کی کوئی قوم تھی، نہ ہی کوئی سرزمین تھی اور چونکہ حکمرانی اور ریاست قوم اور زمین کے ملاپ کی پیداوار ہے، اسی لئے یہاں جعل سازی در جعل سازی در جعل سازی یعنی “تہری جعل سازی” ہوئی ہے اور ایک مطلقاً جعلی ریاست قائم کی گئی ہے۔
ایک ریاست کے قیام کے لئے ضروری عناصر تو در کنار، اس کو تین نسلیں (75 سالہ عرصہ) گذرنے کے باوجود اب تک فلسطینیوں کی مسلسل مقاومت (مزاحمت) کا سامنا ہے، جو بجائے خود غاصب ریاست کے جعلی پن کا عملی ثبوت ہے۔ آج بھی جب غزہ، رام اللہ، حیفا، صفد، بئرالسبع، یافا، عکار، بیت المقدس اور مغربی پٹی وغیرہ میں جب کسی بچے کی پیدائش ہوتی ہے، اسے کوئی شک و تذبذب نہیں ہوتا اس حقیقت میں کہ “وہ ایک مقبوضہ ملک میں پیدا ہؤا ہے، اور اسے اس ملک کی آزادی کے لئے میدان میں آنا چاہئے”؛ اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ وہ بچہ میدان میں آتا بھی ہے، لہٰذا آج اس سرزمین کے تمام علاقوں میں فلسطینیوں کی تحریک نمایاں طور پر جاری ہے۔ اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس سرزمین کے باشندوں کے خیال میں، فلسطین کے تمام علاقے غصب کئے گئے ہیں اور خان یونس، غزہ، مغربی پٹی میں الخلیل، جنوب میں بئر السبع، اور شمال میں صفد، کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ چنانچہ یہ جو سنہ 1948ع‍ کے مقبوضہ علاقوں کو دوسرے علاقوں سے الگ کرکے متعارف کرایا جاتا ہے، ایک بالکل بے جا اور نامناسب تقسیم ہے۔
سرزمین فلسطین میں مغرب [اور اقوام متحدہ] کی خیانت کے نتیجے میں جعل سازی کے ذریعے ایک ریاست کے قیام کے 74 سال بعد، یہ ریاست “مقدس مقامات” کے کلیدی مسئلے تک کو حل نہیں کر سکی ہے۔ اور تو اور، جب بھی کوئی مقدس موقع و مناسبت ہو اس ریاست کے فوجی ان مقامات کا محاصرہ کر لیتے ہیں اور ہنوز ان مقامات کے داخلے کے راستوں اور دروازوں پر مسلم نوجوانوں اور یہودی نوآبادکاروں کے درمیان صف آرائیاں اور جھڑپیں ہوتی ہیں۔ اسی اثناء میں – جب آپ اس مضمون کا مطالعہ کر رہے ہیں – الخلیل، بیت لحم، نابلس اور قدس کے مقدس غاصب صہیونی فوج کے گماشتوں کے محاصرے میں ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان مقامات مقدسہ کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے اور جعلی اسرائیلی ریاست اس پر مسلط نہیں ہو سکی ہے۔
مقدس مقامات پر کنٹرول رکھنے کا مسئلہ اس لئے اہم ہے کہ برطانیہ، امریکہ اور اقوام متحدہ نے ہزاروں سال سے سکونت پذیر ایک بڑی آبادی والے ملک کو ایک ریاست قائم کرنے کے لئے ایک فرقہ پرست ایجنسی کے حوالے کیا: “یہودی ایجنسی (Jewish Agency)”۔ یہودی ایجنسی نے صہیونی پروٹوکولز کی رو سے یورپ، افریقہ اور ایشیا کے یہودیوں کو “مقدس شہروں” اور “مقدس مقامات” تک پہنچے کا جھانسہ دے کر اس غصب شدہ سرزمین میں بلا لیا ہے؛ اور بلائے جانے والوں میں سے بہت سے لوگ اب مر چکے ہیں، اور بہت سے وہ یہودی جو نوجوانی کی عمر میں کوچ کرکے اس سرزمین کے غصب میں شریک ہوئے ہیں، اب بوڑھے ہو چکے ہیں، لیکن نہ مرنے والے کبھی بلا خوف و خطر ان مقدس مقامات کو دیکھ سکے تھے نہ یہ بڈھے یہودی خوف کے بغیر ان مقامات کی طرف رجوع کر سکتے ہیں؛ ان مقامات میں یہودی مناسک بجا لانا تو بہت دور کی بات ہے۔ دوسرے لفظوں میں صہیونیوں نے اعلان شدہ مقصد تک سے غداری کی۔
صورت حال یہ ہے کہ بیرونی دنیا سے بلوائے جانے والے فریب خوردہ یہودیوں کو مقدس مقامات کے آس پاس بسانے کے بجائے انہیں مغربی علاقوں میں بسایا جاتا ہے جو مقدس مقامات سے بالکل عاری ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جعلی ریاست اس وعدے پر عمل کرنے سے عاجز ہے جو اس نے یہودیوں کو بلانے کے بہانے – کے طور پر انہیں – دیا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہودیوں کو کوچ کروانے کے لئے ساڑھے سات دہائیوں سے ہونے والی تمام تر کوششوں کے باوجود، آج بھی مقدس مقامات والے فلسطینی شہروں میں عرب آبادیوں کی اکثریت سکونت پذیر ہیں – جن کی اکثریت مسلمانوں کی ہے – اور مشرقی شہروں میں مقدس مقامات ہیں وہاں کے اکثر یہودی وہ آبادکار ہیں جنہیں غاصبوں کے لئے تعمیر کردہ غیر قانونی بستیوں میں بسایا گیا ہے۔ یہ نام نہاد 1967ع‍ کے علاقوں پر تسلط جمانے اور ان علاقوں میں غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھنے پر جعلی یہودی نظام کے اصرار اور غاصبوں کے اس اصرار کی تزویراتی اہمیت کا راز ہے۔ چنانچہ یہودی منصوبے کی ناکامی کا ایک بنیادی پہلو مقدس شہروں اور مقدس مقامات پر صہیونیوں کے کنٹرول کا فقدان ہے۔
جو کچھ سطور بالا میں بیان ہؤا، بالکل اسی بنیاد پر “قدس مسئلۂ فلسطین کا قلب ہے جو فلسطین کے پرچم کی صورت اختیار کر گیا ہے، اور اسی بنیاد پر فلسطینی پرچم کا اونچا رکھنا ایک تزویراتی اقدام ہے”۔ قدس، علامت نگاری (semiology) کی رو سے غلبے، فتح اور طاقت و اختیار کی علامت ہے۔ اسی بنا پر حضرت امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) نے فرمایا: “یوم القدس، یوم الاسلام اور تمام اسلامی ممالک کا دن ہے”۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ “اگر قدس اور مسلمانوں کا قبلۂ اول صہیونیوں کے قبضے میں چلا جائے تو یہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف جنگ میں صہیونی یہودیوں کی اٹل فتح ہوگی”۔ اور “اگر دنیا کے مسلمان قدس کو ایک اسلامی اور مقدس مقام کے طور پر یہودیوں کے قبضے سے محفوظ رکھ سکیں تو یہ عالمی صہیونی یہودیت کے خلاف مسلمانوں کی اٹل فتح ہوگی”۔ اور “چونکہ اس ناجائز اور جعلی نظام کا قیام انگریزی – امریکی ایجنڈے کا نتیجہ تھا اور اس کی حیات بھی مغربی حمایت کی مرہون منت ہے، چنانچہ عالم اسلام میں قدس کا – عالم اسلام کے تفکیک ناپذیر حصے کے طور پر – استحکام پوری مغربی دنیا پر امت مسلمہ کی اٹل فتح ہوگی”۔
تجربے سے ثابت ہے کہ فلسطین کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ عالم اسلام میں کوئی بھی – خواہ کوئی فلسطینی خواہ کوئی غدار عرب حکمران – اسے کسی کو الاٹ نہیں کرسکتا اور واگذار نہیں کرا سکتا۔ اسی بنا پر اگرچہ ان برسوں میں بہت سے غداروں اور خائنوں اور مغرب سے وابستہ بظاہر مسلمانوں نے صہیونی منصوبے کی حمایت کی اور اسے تقویت پہنچائی، اور اس طرح کے غدارانہ اقدامات کچھ کم بھی نہ تھے لیکن بالآخر وہ بھی آخری نقطے تک نہ جا سکے ہیں اور آخرکار تضاد گوئی کا شکار ہوئے ہیں۔
بطور مثال، ان ہی دنوں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ـ مثال کے طور پر سلطنت عثمانیہ کے احیاء کے دعویدار اور ترکی کے [اخوانی] صدر – رجب طیب اردوگان ایک طرف سے انقرہ میں جعلی ریاست کے صدر اسحاق ہرزوگ کی خوب آؤ بھگت کرتے ہیں اور غاصب اسرائیل کے ساتھ بہترین تعلقات کے قیام کے نعرے لگاتے ہیں، لیکن جب مسجد الاقصیٰ میں صہیونیوں اور فلسطینیوں کے درمیان جھڑپیں ہوتی ہیں، انہیں اسرائیل کے خلاف موقف اختیار کرنا پڑتا ہے؛ یا متحدہ عرب امارات کو – دبئی میں جعلی ریاست کے وزیر خارجہ کی خاطرمدارت کے چند ہی روز بعد، – مسجد الاقصیٰ کے حالیہ واقعات کے بعد، جعلی ریاست کا سفیر دفتر خارجہ میں بلاتا ہے؛ یا اردن کی حکومت کو – جس نے اکتوبر 1994ع‍ میں جعلی اسرائیلی ریاست کے ساتھ امن معاہدہ بعنوان “وادی عربی امن معاہدہ” (Wadi Araba Treaty) منعقد کرکے اس ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا راستہ ہموار کنے کے لئے مصر کے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد دوسرا قدم اٹھایا تھا – جعلی ریاست کا سفیر دفتر خارجہ بلوانا پڑا اور اردن کی پارلیمان کو صہیونی سفیر کے اردن سے نکالے جانے پر بحث کرنا پڑی۔
ترکی، عرب امارات اور اردن کو یہ اقدامات اس لئے اٹھانا پڑے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ محض ایک سیاسی مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ عالم اسلام اور عرب یا غیر عرب مسلم دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو فلسطین کا ایک حصہ یا پوری فلسطینی سرزمین کو یہودیوں کے سپرد کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ایسا کرنے سے عاجز ہیں اور وہ اس عہد کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتے؛ اور یہ غاصب اور جعلی اسرائیلی ریاست کو درپیش بنیادی مسئلہ ہے۔
چنانچہ بالکل اسی دن – جب امریکی اور عربی وفود صحرائے نقب کے علاقے بئرالسبع کے “سده بوکر” نامی بنگلے میں واقع جعلی ریاست کے سب سے پہلے وزیر اعظم اور بانی داوید بن گوریون (David Ben-Gurion) کے دفتر میں کے گھر میں اکٹھے ہوئے تھے، یہ کہنے کے لئے کہ اسرائیل کی تاسیس کا پراجیکٹ پایۂ تکمیل کو پہنچا ہے، اسی علاقے میں ایک عرب مسلم نوجوان نہ صہیونیوں پر حملہ کرکے چار کو ہلاک اور پانچ کو ناکارہ کر دیا اور اس کے بعد تل ابیب اور جنوبی حیفا اور جنین (Jenin) میں اسی طرح کی کاروائیاں ہوئیں اور یہ سلسلہ مسجد الاقصیٰ کے دروازوں کے باہر صہیونیوں اور فلسطینیوں کے درمیان جھڑپوں پر منتج ہؤا، اور نہ صرف عالم عرب اور عالم اسلام بلکہ دنیا بھر میں عمومی ماحول کا پلڑا فلسطینیوں کے حق میں بھاری ہؤا اور بھاری ہؤا جا رہا ہے، اور وہی لوگ جو بئرالسبع میں واقع داوید بن گوریون کے دفتر میں علامتی اجلاس منعقد کرکے جعلی ریاست کی کاسہ لیسی کی غرض سے یادگاری دستخط اور آٹوگراف دینے کے لئے تیار ہوئے تھے، نہ چاہتے بھی ہوئے بھی صہیونی سفیر طلب کرنے اور فلسطینیوں کے حقوق پر تاکید کرنے پر مجبور ہوئے۔ کیا یہ ریاکاری اور مکاری ہے؟ جی ہاں! یہ مکاری اور ریاکاری ہے! لیکن وہ کونسی چیز ہے جو محمد بن سلمان، محمد بن زائد، اردوگان، مصری آمر السیسی، اردن کے عبداللہ دوئم اور مراکش کے سلطان محمد دوئم، کو ریاکاری پر مجبور کرتی ہے؟ یہ بہت اہم ہے۔
ان عرب حکمرانوں کی مکاری، ریاکاری اور منافقت ظاہر کرتی ہے کہ ترکی، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، مصر، اردن اور مراکش کے مسلمان فلسطین اور القدس اور مسجد اقصیٰ کے تئیں انتہائی حساسیت رکھتے ہیں، اور وہ جعلی ریاست کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں؛ جس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطین قائم و دائم اور فلسطینی مقاومت جاری ہے اور اسرائیلی ریاست ابھی تک حقیقی معنوں میں قائم نہیں ہو سکی ہے۔

اس وقت سے اب تک بہت طویل عرصہ نہیں گذرا ہے جب اسرائیلی فوج نہایت بےباکی اور لاپروائی سے، اپنی طاقت اور تسلط دکھانے کے لئے، فلسطینی عوام پر گولی چلاتی تھی۔ سنہ 2002ع‍ میں ایک فلسطینی مجاہد کی استشہادی کاروائی میں 30 صہیونیوں کی ہلاکت پر، اس وقت کا صہیونی وزیر جنگ “شائول موفاز” (Shaul Mofaz) اور سابق وزیر اعظم “آرئیل شارون” (Ariel Sharon) جنین کیمپ کے علاقے “نہاریا” میں داخل ہوئے اور 200 فلسطینیوں کو شہید کیا۔ جبکہ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ دو ہفتوں کے دوران فلسطینی مقاومت کے چار مجاہدین نے 20 غاصب فوجیوں کو ہلاک کر دیا ہے اور اسرائیلی فوج فلسطینیوں کے خلاف کوئی سخت ردعمل دکھانے کی ہمت و جرات کرنے سے عاجز و بےبس ہے۔
آج جعلی یہودی ریاست کا راستہ تنگ اور تاریک ہو چکا ہے اور فلسطینیوں کا راستہ روشن، وسیع اور متنوع ہو گیا ہے۔ اسی بنا پر
یہودی عبادت گاہوں کی تنظیموں کی فیڈریشن کے سابق ڈائریکٹر یعقوب ہیمن (Yacob haymann) مسجد الاقصیٰ کے داخلی دروازے پر فلسطینی نوجوانوں کی اسرائیلی فوج سے جھڑپوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: “ہم ٹیمپل ماؤنٹ (Temple Mount) – (یعنی قدس شریف یا مسجد الاقصی) کے مقام پر عید فصح (یہودیوں کی تین بڑی عیدوں میں سے ایک عید جو سات دن تک منائی جاتی ہے) کے طرز پر قربانیاں دینے پر مجبور ہیں تا کہ اسلامی جہادیوں کو خاموش کرا سکیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: دکتر سعد اللہ زارعی، علامہ طباطبائی یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242