اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اسلام ٹائمز
اتوار

24 اپریل 2022

5:56:14 PM
1251358

افغانستان کے ذریعے خطے میں فتنہ انگیزی کی نئی سازش

داعش سے وابستہ وحشی عناصر نے افغانستان کے مختلف حصوں میں اہل تشیع کی مساجد اور امامبارگاہوں کو خودکش حملوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔

بقلم سید عباس حسینی

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ نئے سال کے آغاز سے ہی افغانستان بدامنی اور فتنہ انگیزی کی ایک نئی لہر کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔ ایسا فتنہ جس کے نتیجے میں ایک طرف افغانستان کے اپنے ہمسایہ ممالک سے تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں جبکہ دوسری طرف یہ ملک مذہبی اور فرقہ وارانہ جنگ کا شکار ہو گیا ہے۔ اس فتنہ گری کا آغاز افغانستان میں ایران مخالف فضا اور ایران میں افغانستان مخالف فضا کی تشکیل سے ہوا۔ ابتدا میں کچھ جعلی تصاویر، ویڈیوز اور بیانیے شائع کئے گئے جنہوں نے دونوں ممالک خاص طور پر افغانستان میں اجتماعی فضا کو شدید متاثر کیا۔ اس سازش کا آخری حصہ مشہد مقدس میں امام علی رضا علیہ السلام کے حرم میں افغانی شہری کی جانب سے چند علماء دین پر قاتلانہ حملے اور اس کے بعد ہرات میں ایرانی قونصلیٹ کے سامنے مظاہرے اور پتھراو کی صورت میں ظاہر ہوا۔

اسلامی جمہوریہ ایران میں تو ذمہ داران اور عوام کی سیاسی بصیرت اور ہمسایہ ممالک سے برادرانہ تعلقات کے ذریعے اس سازش کو بخوبی کنٹرول کر لیا گیا لیکن دوسری طرف افغانستان میں اس کے بہت گہرے اثرات ظاہر ہوئے ہیں۔ طالبان حکومت کے بعض ذمہ داران اس سازش سے متاثر ہو کر ایران کے خلاف شدید موقف اختیار کرنے لگے۔ آخرکار کابل میں ایران کے سفارتخانے کے سامنے افغان شہریوں نے جمع ہو کر پھول برسائے اور دونوں برادر ممالک کے تعلقات خراب کرنے کی سازش کی شدید مذمت کی۔ یوں یہ سازش افغانستان میں بھی کافی حد تک ختم ہو گئی۔ اس ناکامی کے بعد دشمن نے افغانستان میں مزید فتنہ انگیزی پھیلانے کیلئے علاقائی سطح پر نئے شیطانی اقدامات انجام دینا شروع کر دیے۔

افغانستان کے ایک ہمسایہ ملک نے جو طالبان حکومت کا حامی بھی ہے، بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے افغانستان میں اپنے بقول بعض دہشت گرد عناصر کے ٹھکانوں کو فضائی حملوں کا نشانہ بنا ڈالا۔ اس اقدام کے نتیجے میں افغانستان کی صورتحال ایک بار پھر کشیدہ ہو گئی اور خطے میں تناو پیدا کرنے کی عالمی سازش کو بڑھاوا حاصل ہوا۔ ہمیں قوی امید ہے کہ افغانستان میں ہمسایہ ملک کی یہ فوجی مداخلت جان بوجھ کر اس عالمی سازش کو آگے بڑھانے کیلئے انجام نہیں پائی ہو گی لیکن اس کا لازمی نتیجہ خطے میں کشیدگی کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ اگرچہ طالبان حکومت نے سب کو یہ یقین دہانی کروا رکھی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے لیکن گویا ہمسایہ ملک ان کی اس بات پر زیادہ اعتماد نہیں رکھتا۔

خطے میں کشیدگی پیدا کرنے کی اس سازش کے تیسرے مرحلے میں بعض ایسی تصاویر شائع ہوئیں جن میں تکفیری دہشت گروہ داعش کو افغانستان کے اندر سے ازبکستان پر راکٹ داغتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اگرچہ ازبکستان اور افغانستان دونوں نے سرکاری سطح پر اس کی تردید کی ہے لیکن یہ خبر شائع ہونے کے بعد مشترکہ سرحد پر ازبکستان کی فوجی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اسی طرح افغانستان کے شمالی حصوں میں ازبکستان کے فوجی ہیلی کاپٹرز اور جنگی طیاروں کی جانب سے سرحد عبور کر کے افغانستان کی فضائی حدود میں داخل ہونے کی رپورٹس بھی موصول ہوئی ہیں۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ افغانستان کے تعلقات کشیدہ کرنے کی اس سازش کا اگلا مرحلہ خود افغانستان میں مذہبی فرقہ واریت کو فروغ دینے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ اس مرحلے میں دشمن نے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا سہارا لیا ہے۔

داعش سے وابستہ وحشی عناصر نے افغانستان کے مختلف حصوں میں اہل تشیع کی مساجد اور امامبارگاہوں کو خودکش حملوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ منگل 19 اپریل کے دن کابل میں ایک اسکول کو دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ اسکول شیعہ اکثریتی علاقے میں واقع تھا اور وہاں تین دھماکے کئے گئے جس میں عینی شاہدین کے مطابق 50 بچے شہید ہو گئے۔ اگرچہ کابل کے سرکاری ذرائع نے 6 شہید اور 11 زخمیوں کا اعلان کیا ہے لیکن مصدقہ ذرائع کے مطابق شہید اور زخمی ہونے والوں کی مجموعی تعداد 200 کے قریب بتائی جا رہی ہے۔ یہ سفاکانہ اقدامات افغانستان میں مذہبی فرقہ واریت کو فروغ دینے کی کوشش ہے۔ طالبان حکومت میں موجود واحد شیعہ ہزارہ حکومتی عہدیدار نے اس سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہزارہ قوم ملک میں بدامنی نہیں چاہتی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ سازش میں ملوث قوتیں افغانستان میں کچھ حد تک موجود سکیورٹی اور امن و امان کو بھی مکمل طور پر ختم کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ اسی طرح وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ افغانستان کے تعلقات کشیدہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس ملک کے اندر مذہبی اور قومی منافرت اور جنگ کو فروغ دینے کے درپے ہیں۔ یقیناً طالبان حکومت اکیلے اس مذموم سازش کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے لہذا اسے ہر وقت سے زیادہ ملک میں موجود مختلف مذاہب، اقوام اور سیاسی دھڑوں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے طالبان کو ایک وسیع قومی حکومت کی تشکیل کی جانب گامزن ہونا پڑے گا جس کا وعدہ وہ برسراقتدار آنے کی ابتدا سے ہی دے چکے ہیں لیکن اب تک اس پر عمل پیرا ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242