اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اسلام ٹائمز
اتوار

24 اپریل 2022

5:15:25 AM
1251091

انتہاء پسندوں کی آستینیں اور تکفیری دہشتگردوں کے ہاتھ

مزار شریف سمیت مختلف علاقوں میں ہونے والے حالیہ دہشتگردانہ اقدام اس سازش اور منصوبے کے پازل کی تکمیل ہے، جو مسلم امہ میں اختلاف و تفرقہ پیدا کرنے کے لئے انجام دیئے جا رہے ہیں اور یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ اس طرح کے جرائم کی کوئی حد و سرحد نہیں ہے۔

بقلم ڈاکٹر راشد عباس نقوی

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ افغانستان کے صوبے قندوز کے شہر امام صاحب کی مسجد میں ہونے والے دہشت گردانہ بم دھماکے میں دسیوں افراد شہید و زخمی ہوگئے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے قندوز کے دہشت گردانہ حملے سے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا۔ خطیب زادہ نے کہا کہ افغانستان میں غیر علاقائی طاقتیں داعش دہشت گردوں کی پشتپناہی کر رہی ہیں اور داعش دہشت گرد شیعہ اور سنی مساجد پر مسلسل حملے کرکے معصوم اور بے گناہ شہریوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ شیعہ اور سنی کے درمیان تصادم سامراجی طاقتوں کی دیرینہ سازش اور آرزو ہے۔ شیعہ اور سنیوں کو متحد ہو کر دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانا چاہیئے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق عینی شاہدوں نے قندوز بم دھماکے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب تک تیس افراد شہید و زخمی ہوئے ہیں۔ افغانستان کے مختلف شہروں میں ان دنوں مسلسل دہشت گردانہ بم دھماکے ہو رہے ہیں، دارالحکومت کابل کے ایک اسکول میں حالیہ دہشت گردانہ بم دھماکوں میں چھبیس افراد شہید اور دسیوں دیگر زخمی ہوئے ہیں، پھر مزار شریف میں بھی دہشت گردانہ بم دھماکے میں دسیوں افراد شہید و زخمی ہوئے۔ جمعرات کو ہی قندوز ایرپورٹ کے قریب طالبان کی چیک پوسٹ کے سامنے بھی بم کا دھماکہ ہوا، جس میں سترہ افراد جاں بحق و زخمی ہوئے۔ افغانستان میں شیعہ مسلمانوں کی مساجد میں ہونے والے بیشتر دہشت گردانہ حملوں اور بم دھاکوں کی ذمہ داری اب تک داعش دہشت گرد گروہ نے قبول کی ہے۔

ایک بار پھر وحشی انتہاء پسندوں کی آستینوں سے تکفیری دہشتگردوں کے مجرمانہ و ناپاک ہاتھ باہر نکلے ہیں، جنہوں نے افغانستان کے روزہ دار مسلمانوں کو خون میں غلطاں کر دیا۔ انسانی، اخلاقی اور مذہبی اقدار سے دور یہ دہشتگردانہ اقدامات، امریکہ کے حمایت یافتہ دہشتگردوں اور مجرموں کے ہاتھوں علاقے میں بحران پیدا کرنے کے لئے انجام پا رہے ہیں، اگرچہ یہ دہشتگرد اس سے پہلے شام و عراق میں رسوا ہوچکے ہیں۔ افغانستان میں نسبتاً پرسکون رہنے کے مختصر عرصے کے بعد اس ملک کے چار شہروں میں دہشت گردانہ دھماکوں کے واقعات نے سیاسی اور سکیورٹی کے میدان میں افغان عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے کے معاملے کو مزید مشکل سے دوچار کر دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ داعش دہشت گرد گروہ نے ان خونریز بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، جس میں درجنوں افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں۔

افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں کے حوالے سے کچھ قابل غور نکات ہیں۔ گذشتہ اگست میں جب سے طالبان کا کابل پر دوبارہ تسلط قائم ہوا ہے، دہشتگردانہ حملوں میں شدت آئی ہے۔ سب سے پہلی بات یہ کہ طالبان نے تمام افغانوں کی حفاظت کا وعدہ کیا تھا۔ دوسرا طالبان نے نے بارہا یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ داعش دہشت گرد گروہ افغانستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی طاقت نہیں رکھتا اور یہ کہ طالبان اس پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں ہیں۔ تیسرا مسئلہ یہ کہ دہشت گردانہ حملوں کا ہدف عام طور پر وہ علاقے ہو رہے ہیں، جہاں ضروری اور کافی سکیورٹی نہیں ہوتی۔ افغانستان امور کے ماہر پیر محمد ملازئی کہتے ہیں: "افغانستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں بنیادی طور پر شیعہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، یہ وہ علاقے ہیں، جو کہ کم محفوظ ہیں۔ اسی طرح طالبان گروپ صرف ان حملوں کی مذمت کرتے ہیں اور ان گروہوں کے خلاف عملی کاروائی نہیں کرتے، جو ان حملون کے ذمہ دار ہیں۔"

یہ دیکھتے ہوئے کہ سابق افغان حکومت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملک میں 20 سے زیادہ دہشت گرد گروہ سرگرم ہیں، اس بات کا امکان بعید از قیاس نہیں ہے کہ مختلف گروہ دہشت گردانہ بم دھماکے کر رہے ہیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ افغان عوام کی سلامتی کی ذمہ داری لینے پر طالبان کے نعرے ایک دعوے سے زیادہ کچھ نہیں ہیں، خاص طور پر چونکہ یہ گروپ دہشت گردی کے اس طرح کے تمام طریقوں سے پوری طرح آگاہ ہے اور طالبان صحیح منصوبہ بندی کے ذریعے ان حملوں کو جاری رکھنے سے روک سکتے ہیں۔ سیاسی امور کے ماہر علی خزاعی کہتے ہیں: "افغانستان پر دوبارہ قبضے کے بعد طالبان نہ صرف افغان عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے بلکہ عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں بھی ناکام رہے۔ ایک ہی وقت میں، دہشت گرد بم دھماکے جہاں طالبان کی نااہلی کو ظاہر کر رہے ہیں ہیں، وہاں اس کے ساتھ ساتھ طالبان کو افغان معاشرے میں سکیورٹی بڑھانے کے مواقع بھی فراہم کر رہے ہیں۔

مزار شریف سمیت مختلف علاقوں میں ہونے والے حالیہ دہشتگردانہ اقدام اس سازش اور منصوبے کے پازل کی تکمیل ہے، جو مسلم امہ میں اختلاف و تفرقہ پیدا کرنے کے لئے انجام دیئے جا رہے ہیں اور یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ اس طرح کے جرائم کی کوئی حد و سرحد نہیں ہے۔ بلاشبہ اس طرح کے اقدامات کا مقصد کشیدگی پیدا کرنا، نسلی و مذہبی جنگ چھیڑنا، مسلمانوں کا قتل عام کرنا اور نتیجے میں اسلام کی شبیہ خراب کرنا اور اسلامو فوبیا پھیلانا ہے۔ مساجد سمیت مقدس مقامات پر دہشت گردانہ دھماکوں کا نہ رکنے والا یہ سلسلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ افغانستان میں مذہبی جنگ چھیڑنے کے لیے باقاعدہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ بدامنی کے ساتھ وسیع بنیادوں پر قومی حکومت کی عدم تشکیل افغان عوام کے لئے نت نئی مشکلات کا باعث بن رہی ہے اور اس کی تمام تر ذمہ داری طالبان پر عائد ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242