اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اسلام ٹائمز
بدھ

20 اپریل 2022

12:36:55 PM
1249974

کابل حادثے کی حقیقت اور اس پر شیعہ رہنماؤں کا ردعمل

مگر اس دوران تحریک طالبان پاکستان اور داعش کے نام سے ایک نیا فتنہ کھڑا ہوا۔ داعش نے افغانستان نیز پاکستان میں حملے شروع کر دیئے۔ خودکش دھماکے کرائے۔ مگر حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اختلاف ان کا پاکستان اور افغان حکومت سے ہے، جبکہ ان کے ظلم کا نشانہ دونوں جانب اہل تشیع ہو رہے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ گذشتہ کئی عشروں سے پاکستان اور افغانستان کے عوام بالخصوص ان دونوں ممالک کے اہل تشیع، دنیا کی سامراجی طاقتوں کے نشانے پر ہیں۔ سامراجی قوتوں نے اس طول زمانہ میں اپنے مقامی آلہ کاروں کے ذریعے یہاں کے عوام کو نشانہ بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ 1979ء سے اب تک سرحد کی دونوں جانب لاکھوں افراد جاں کی بازی ہار چکے ہیں، جبکہ اس سے دوگنی تعداد زخمی ہوچکی ہے۔ 1979ء سے لیکر 1989ء تک اپنے علاقوں سے ہزاروں میل دور امریکہ اور روس نے افغانستان کا انتخاب کرکے اسے میدان جنگ بنا کر پنجہ آزمائی کی۔ ان دونوں ممالک کے علاوہ یورپ کا اسلحہ جبکہ پیسہ عربوں کا خرچ ہوا، تاہم بیرونی مفادات کی اس جنگ کو مقدس جہاد کا نام دیکر افغانستان اور پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر کروڑ کے لگ بھگ افراد کو بے گھر جبکہ لاکھوں کو ابدی نیند سلایا گیا۔

1989ء میں جب روسی افواج کا انخلاء ہوا اور مجاہدین گروپوں صبغت اللہ مجددی اور اسکے بعد برہان الدین ربانی اور گلبدین حکمتیار کی حکومت قائم ہوئی، تو انہوں نے بھی اسے اپنا تختہ مشق بنا کر خوب پنجہ آزمائی کی۔ جو ہزاروں جانوں کے ضیاع کا سبب بنا۔ یہاں تک کہ 1996ء میں پاکستان میں دیوبندی مدارس سے انتہاء پسند طالبان اٹھے اور کچھ ہی دنوں میں آناً فاناً افغانستان پر چھا گئے۔ یوں حکومت ان کے ہاتھ لگ گئی۔ علاقے میں اپنا رعب جمانے کے لئے انہوں نے تمام سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بیرونی سفارتکاروں کو قتل کیا۔ اس کے علاوہ فارسی زبان بولنے والوں کی خوب نسل کشی کی۔ ہزارہ، ازبک اور تاجک نسل ان کے ظلم کا خاص نشانہ رہے۔ امریکہ کے اشارے پر آئے ہوئے اس نظام میں جب مغرب کو کوئی فائدہ نظر نہیں آیا تو نیویارک میں خود ساختہ حملہ کروا کر 2001ء میں طالبان کی حکومت کی بھی چھٹی کرا دی اور فوجیں اتارنے کے علاوہ اپنی امپورٹڈ حکومت بھی قائم کر دی۔

20 سال تک امریکی سرپرستی میں قائم اس دور حکومت میں افغان پیسے کی قیمت میں کافی استحکام آیا اور سڑکوں کا نظام ٹھیک کرایا گیا۔ افغانستان اقتصادی لحاظ سے کافی بہتر ہوا۔ حتی کہ روزگار کی تلاش میں پاکستانیوں نے افغانستان کا رخ کرنا شروع کر دیا، تاہم امریکہ، یورپ اور بھارت کی اجارہ داری ہونے کے باعث پاکستان کے لئے افغانستان ایک اہم مسئلہ اور درد سر بنا رہا۔ چنانچہ ان کے خلاف ایک بار پھر طالبان کو اٹھایا گیا، طالبان نے انہیں آرام سے حکومت نہیں کرنے دی، بلکہ اس پورے عرصہ میں کوئی بھی شہر ان کے حملوں سے محفوظ نہیں رہا۔ لاکھوں جانوں کا ضیاع ہوا۔ بالآخر 2020ء میں طالبان کی صورت میں دوبارہ ایک نئی حکومت وجود میں آگئی۔ 1996ء میں اپنا حشر نشر دیکھ کر افغان عوام بالخصوص فارسی زبانوں میں خوف پایا جانا فطری تھا۔ تاہم توقع کے برخلاف آتے ہی طالبان نے ابتداء میں تمام لسانی، نسلی اور مذہبی گروپوں کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا۔

مگر اس دوران تحریک طالبان پاکستان اور داعش کے نام سے ایک نیا فتنہ کھڑا ہوا۔ داعش نے افغانستان نیز پاکستان میں حملے شروع کر دیئے۔ خودکش دھماکے کرائے۔ مگر حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اختلاف ان کا پاکستان اور افغان حکومت سے ہے، جبکہ ان کے ظلم کا نشانہ دونوں جانب اہل تشیع ہو رہے ہیں۔ پشاور دھماکہ، کوئٹہ میں ہزارہ کی دوبارہ نسل کشی، ایک سال پہلے کابل میں سید الشہداء سکول پر حملہ، قندھار اور ہرات میں شیعوں پر حملے، ایرانی ایمبیسی پر حملے اور کل کابل میں انتہائی خون آشام حملہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ معلوم یہ ہو رہا ہے کہ طالبان خود کو بے گناہ اور بے طرف دکھا کر شیعوں کو دوسروں کے ذریعے نشانہ بنا رہے ہیں۔ کل ہونے والے واقعے میں طالبان نے خود انسانیت کا ایک انوکھا قتل کیا۔ دھماکے کے بعد جب لاشوں اور زخمیوں کو ہسپتال لایا گیا تو ان کے ورثاء کو خون دینے تک سے منع کیا گیا اور ان کے ساتھ ہمدردی دکھانے کی بجائے انہیں زد و کوب کیا اور ان کے ساتھ انتہائی غیر اخلاقی سلوک روا رکھتے ہوئے اپنی انسانیت بلکہ نام نہاد مسلمانی کا مظاہرہ کیا۔

پاکستان میں شیعہ رہنماؤں کا ردعمل:
افغانستان میں اہل تشیع پر روا رکھے جانے والے ظلم پر پاکستان بھر میں علمائے کرام اور رہنماؤں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ اس سلسلے میں تحریک حسینی پاراچنار کے سرپرست اعلیٰ اور سابق سینیٹر علامہ سید عابد حسینی اور صدر تحریک علامہ سید تجمل حسین نے غم و غصے کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان نے اس واقعے پر اپنی اصلیت آشکار کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان بدلے نہیں، بلکہ انہوں نے اپنی اصلیت دکھا دی ہے۔ بین الاقوامی توجہ مرکوز کرانے کی خاطر انہوں نے شروع میں خود کو کچھ اور طرح دکھایا، تاہم وہ ایسے ہیں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ شیطانی قوتوں بالخصوص امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ کے اشاروں پر آج کشمیر، یمن، فلسطین، لبنان، شام اور عراق میں مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے، جو کہ نہایت قابل مذمت ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق اور دیگر بین الاقوامی اداروں بالخصوص حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ کابل سمیت یمن اور کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام بند کروانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

مرکزی جامع مسجد پاراچنار کے پیش امام شیخ فدا حسین مظاہری اور سیکرٹری انجمن حسینیہ عنایت علی طوری نے کابل واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے پاکستانی اداروں سے مطالبہ کیا کہ کابل نیز پاکستان کے اندر اہل تشیع کے خلاف ہونے والی سازشوں کو بے نقاب کرے۔ سابق سینیٹر اور جامعۃ الشہید پشاور کے مہتمم علامہ ڈاکٹر سید محمد جواد ہادی نے بھی کابل واقعے کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان اور ساتھ ہی افغانستان میں شیعہ مراکز کے لئے سرکاری سطح پر ان کے ہی قبیلے سے سکیورٹی گارڈ فراہم کئے جائیں اور ان کی سکیورٹی کو فول پروف بنایا جائے۔

بقلم ایس این حسینی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242