اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
بدھ

20 اپریل 2022

8:07:46 AM
1249812

یوکرین میں مغرب کے دوہرے معیار

آسٹریائی چانسلر کے دورہ ماسکو کی شکست کا سب سے اہم اور بنیادی سبب یہ ہے کہ یورپ کے دوسرے راہنماؤں نے عین اسی وقت روس پر نئی پابندیاں لگائیں۔ آسٹریائی چانسلر کے دورہ ماسکو کے موقع پر ہی روس پر نئی پابندیاں لگانے کے لئے یورپی اتحاد کے وزرائے خارجہ کا مذاکرہ طے پایا تھا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ یوکرینیوں نے سالہا سال مغرب کی بساط پر کھیل کر کیا حاصل کیا؟ نیٹو یا یورپی یونین کی رکنیت؟! کہنا پڑتا ہے کہ "کچھ بھی نہیں"۔
اب جبکہ یوکرینی فوج ملک کے مشرق، خاص طور پر ماریوپول میں روسی افواج کا سامنا کرنے کی تیاری کر رہی ہے، آسٹریا کے چانسلر کارل نیہامر (Karl Nehammer) نے ولادیمیر پیوٹن سے عارضی یا مستقل جنگ بندی کے لئے کچھ طریقوں پر اتفاق تک پہنچنے کی کوشش کی، لیکن بظاہر آسٹریائی چانسلر اور ولادیمیر پیوٹن کے درمیان کوئی دوستانہ ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ بلاشبہ یوکرین میں مغرب کی دوہری، متضاد اور چند پہلو پالیسیاں، اس رجحان کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
آسٹریائی چانسلر کے دورہ ماسکو کی شکست کا سب سے اہم اور بنیادی سبب یہ ہے کہ یورپ کے دوسرے راہنماؤں نے عین اسی وقت روس پر نئی پابندیاں لگائیں۔ آسٹریائی چانسلر کے دورہ ماسکو کے موقع پر ہی روس پر نئی پابندیاں لگانے کے لئے یورپی اتحاد کے وزرائے خارجہ کا مذاکرہ طے پایا تھا۔
اسی مسئلے نے اس ملاقات کو ابتداء ہی میں بےاثر کردیا تھا۔ آسٹریائی چانسلر کا دورہ ماسکو ان کی اپنی حکمت عملی کی بنیاد پر، اور کی یف میں ولودیمیر زیلینسکی نیز ترکی کے سربراہ رجب طیب اردوگان کے ساتھ بات چیت اور یورپی کونسل اور یورپی کمیشن کے سربراہوں کے ساتھ ہمآہنگی کے بعد، انجام کو پہنچا؛ لیکن یہ دورہ یوکرین کے بحران کے حوالے سے یورپیوں کے متضاد نقطہ ہائے نظر اور متناقض رویوں کی وجہ سے حتی کہ ایک عارضی سمجھوتے پر بھی منتج نہ ہو سکا۔ گوکہ کارل نیہامر پہلے یورپی راہنما ہیں جنہوں نے یوکرین میں روس کی کاروائیوں کے آغاز کے بعد ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کی ہے۔
ادھر ماسکو-کی یف کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی صورت حال بھی کچھ بہتر نہیں ہے اور ان مذاکرات کا واحد حاصل یہ ہے کہ یوکرین نے شمالی اٹلانٹک معاہدے - نیٹو - میں عدم رکنیت کے روسی مطالبے سے اتفاق کر لیا ہے۔ زیلینسکی نے اپنے جدیدترین موقف کے ضمن میں ایک تاریخی اور انتہائی اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے:
"ہم برسوں سے سنتے آئے تھے کہ دروازے کھلے ہیں لیکن ہم نے یہ بھی سنا تھا کہ ہم نیٹو کے رکن نہیں ہو سکتے۔ یہ درست ہے اور اس کا اعتراف کرنا چاہئے۔ مجھے خوشی ہے اور ہمارے عوام نے بھی اس اہم نکتے کا [تدریجی] ادراک شروع کر لیا ہے، اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ انہيں صرف اور صرف اپنی طاقت پر اعتماد کرنا چاہئے"۔
زیلینسکی نے ایسے حال میں یہ الفاظ ادا کئے ہیں کہ سنہ 2004ع‍ (میں یوکرین میں نارنجی بغاوت Ukrainian Orange Revolution) سے اب تک نیٹو کے رکن ممالک نے کی یف پر مسلط ہونے والے مغرب نوازوں کو درجنوں مرتبہ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کا وعدہ دیا تھا۔ یوکرین کو روس کی سلامتی کو نقصان پہنچانے والی اسی دوڑ دھوپ کی وجہ آج روس کی طرف سے تنبیہی کاروائیوں کا سامنا ہے جبکہ یہ ملک نہ تو نیٹو کا رکن ہے اور نہ ہی یورپی اتحاد کا۔ صورت حال یہ ہے کہ اگر حتی آج ہی جنگ اختتام پذیر ہوجائے اور ماسکو اور کی یف دائمی جنگ بندی کا فیصلہ کریں، تو یوکرین کئی عشروں تک اس جنگ کے معاشی، سیاسی اور تزویراتی عواقب و نتائج کا سامنا کرتا رہے گا۔ چنانچہ بنیادی سوال یہ ہے کہ یوکرینیوں نے سالہا سال مغرب کی بساط پر کھیل کر کیا حاصل کیا؟ نیٹو یا یورپی یونین کی رکنیت؟! کہنا پڑتا ہے کہ "کچھ بھی نہیں"۔
آسٹریائی چانسلر کے دورہ روس کے بارے میں روسی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ یہ ہے کہ دو راہنماؤں نے دارالحکومت ماسکو کے نواحی شہر نو وو اوگاریو وو (Novo-Ogaryovo) میں واقع صدر پیوٹن کی سرکاری رہائش گاہ میں ملاقات کی۔ ملاقات آسٹریائی مہمان کی درخواست پر بند دروازوں کے پیجھے انجام پائی؛ چنانچہ یہ واضح نہیں ہے کہ توانائی اور گیس کے علاوہ، یوکرین کی جنگ کے حوالے سے فریقین نے کن کن مسائل پر بات چیت کی ہے۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ چونکہ یہ ملاقات اور بات چیت بند دروازوں کے پیچھے انجام پائی ہے لہذا ممکن ہے کہ نیہامر نے یورپی اتحاد کی طرف پیوٹن کو کچھ خفیہ پیغامات پہنچائے ہوں۔ واضح رہے کہ آسٹریا یورپی اتحاد کا رکن ہونے کے باوجود نیٹو کا رکن نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: حنیف غفاری
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110