اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
منگل

19 اپریل 2022

1:26:17 PM
1249636

رمضان 1443ھ فلسطین کا تقدیر ساز رمضان

لگتا ہے کہ رمضان کے اس مبارک مہنیے میں صہیونی ریاست کے مستقبل کی تقدیر کے ایک بڑے حصے کا فیصلہ ہو ہی جائے گا اور موجودہ صورت حال اس کے زوال کی رفتار تیزتر کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ گذشتہ دو ہفتوں کے دوران مقبوضہ فلسطین میں رونما ہونے والے واقعات کی رو سے، مسجد الاقصی کے موجودہ واقعات کی پیشنگوئی زیادہ مشکل نہ تھی، کیونکہ فلسطینیوں نے 1948ع‍ کے فلسطینی علاقوں، غزہ اور مغربی پٹی نیز صہیونیوں کے زیر انتظام علاقوں کی عرب آبادیوں سمیت پورے فلسطین میں، صہیونی ریاست سے نمٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
در حقیقت ایسا لگتا ہے کہ رمضان اس مبارک مہنیے میں صہیونی ریاست کے مستقبل کی تقدیر کے ایک بڑے حصے کا فیصلہ ہو ہی جائے گا اور موجودہ صورت حال اس کے زوال کی رفتار تیزتر کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ درحقیقت یہ کہا جا سکتا ہے کہ عوام کے مذہبی جذبات، صہیونی ریاست کی طرف سے انتفاضہ کا شدت سے کچلا جانا، صہیونی فوجیوں کے تشدد میں اضافہ اور یمن سمیت مختلف محاذوں پر مقاومت کی فتوحات نے فلسطینیوں کے عزم و ہمت اور مزاحمت و جہاد کے جذبے میں زبردست آضافہ کیا ہے۔
حالیہ دو مہینوں کے دوران استشہادی کاروائی میں شہید ہونے والے فلسطینی مجاہدین کا خون اور صہیونی ریاست پر ماری جانے والی شدید سیکورٹی ضربیں، صہیونی سپاہیوں کی خوفزدگی اور ان کی قوت ارادی کی شدید کمزوری کا باعث بنی ہوئی ہیں چنانچہ ہم نے دیکھا کہ حالیہ چند دنوں میں جو کچھ مسجد الاقصی میں رونما ہؤا، اس سے خطے کے تمام باشندوں کے عزم، شجاعت و بہادری، یکجہتی اور اتحاد کو عیاں کرکے رکھ دیا۔
بہت ہی بعید ہے کہ صہیونی ریاست ماہ مبارک رمضان کے دوران، گذشتہ برسوں کی طرح مسجد الاقصی میں نمازیوں کے داخلے میں رکاوٹ ڈال دے۔ چنانچہ لگتا ہے کہ مجاہدین کے جاری اقدامات فلسطینی عوام کی کامیابی اور ان کے بعض مقاصد کے حصول میں ممد و معاون ہونگے۔
البتہ ہم سب جانتے ہیں کہ فلسطینی کاز کی کامیابی صرف اور صرف صہیونی ریاست کی مکمل نابودی سے مشروط ہے اور جو ماحول ان دنوں معرض وجود میں آیا ہے، ایک طرف سے فلسطینیوں کی کامیابی کی امیدوں کی تقویت کا سبب بنا ہے اور دوسری طرف سے صہیونی ریاست کے زوال کی رفتار میں اضافہ کر رہا ہے۔
اس اثناء میں ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم ممالک عالمی یوم القدس سے پہلے – کم از کم وزرائے خارجہ کی سطح کا – ہنگامی اجلاس بلا لیں اور فلسطینی عوام کی تحریک کی ہمہ جہت حمایت کا اعلان کریں۔
مسلم ممالک کے سربراہوں کو بھی، فلسطینی مجاہدین کے حالیہ اقدامات کی مکمل پشت پناہی کے لئے جلد از جلد اقدام کرنا چاہئے۔ گوکہ عین ممکن ہے کہ بعض عرب ممالک کے – صہیونیوں اور امریکیوں سے وابستہ – سربراہان اس سلسلے میں سستی برتنا چاہیں اور وقت گذرنے اور فلسطینی عوام کے ٹھنڈا پڑ جانے کے درپے ہوں، لیکن یوم القدس اس سال بھی آئے گا اور ہم دنیا بھر کے مسلم اور غیر مسلم حریت پسندوں کے مؤثر اقدامات کے عینی شاہد ہونگے اور یوں اس سال کا یوم القدس اور حریت پسندوں کے اقدامات صہیونی ریاست کے وجود کے لئے انتہائی خطرناک ہونگے اور اس غاصب ریاست کے تیزرفتار زوال میں بنیادی کردار ادا کریں گے۔
لیکن بہر حال مسلم ممالک کے سربراہان بھی – مسلمان کہلواتے ہیں اور انہیں بھی – اپنے دینی اور انسانی فریضے پر عمل کرنا چاہئے اور خونخوار صہیونی ریاست کے خلاف فلسلطین کے مظلوم عوام کی جدوجہد کے انتہائی دشوار گذار مرحلے میں ان کی مدد و حمایت کا اہتمام کرنا چاہئے اور وہ بھی ایسے حال میں کہ غاصب صہیونی ریاست کے وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے اعلان کیا ہے کہ “فلسطینی عوام کے خلاف اس ریاست کے تشددپسند فوجیوں کے تشددآمیز اقدامات کی راہ میں کوئی بھی چیز حائل نہیں ہے”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242