اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
پیر

18 اپریل 2022

10:13:51 AM
1249043

یوکرین کی جنگ؛

دنیا پر امریکی قیادت کا دور اختتام پذیر ہو چکا ہے --- اسٹیفن والٹ / ہتھیاروں کے ذخائر خالی ہو رہے ہیں

یوکرین میں روس کی خصوصی کاروائی کو پچاس دن سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے۔ جہاں تک اس جنگ کے مستقبل کا تعلق ہے، اور یہ کہ اس جنگ کے بعد دنیا کی شکل و صورت کیا ہوگی؟ اور اس جنگ کے عالمی نتائج کیا ہونگے؟

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ بین الاقوامی تعلقات کے نامی گرامی نظریہ پرداز اور ہارورڈ یونیورسٹی کے جان ایف کینڈی اسکول (John F. Kennedy School) میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر اسٹیفن والٹ (Stephen Martin Walt) نے فارن افیئرز میگزین میں چھپے ہوئے اپنے مضمون کے ایک ضمن میں لکھا ہے کہ یوکرین کی جنگ نے یک قطبی (Unipolar) دنیا نیز دنیا پر امریکی قیادت، کے حتمی خاتمے کو بخوبی نمایاں کر دیا ہے۔
یوکرین میں روس کی خصوصی کاروائی کو پچاس دن سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے۔ جہاں تک اس جنگ کے مستقبل کا تعلق ہے، اور یہ کہ اس جنگ کے بعد دنیا کی شکل و صورت کیا ہوگی؟ اور اس جنگ کے عالمی نتائج کیا ہونگے؟ تو اس سلسلے میں بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین اور نظریہ سازوں کا خیال یہ ہے کہ یوکرین کی جنگ کے بعد دنیا نئی کشیدگیوں اور متحدہ اقوام کے اتحادوں (بلاک بندیوں) میں اضافے کی طرف بڑھے گی۔ چونکہ حالات پیچیدہ ہیں اور تبصروں کی بھرمار ہے چنانچہ ممکن ہے کہ ان دانشوروں کی طرف سے بعض متضاد تبصرے بھی شائع ہوئے ہوں۔ اس بار بین الاقوامی سطح پر دفاعی حقیقت پسندی (Defensive realism) کے مشہور نظریہ پرداز اسٹیفن والٹ نے فارن پالیسی میگزین میں "یوکرین کی جنگ ہر چیز کو بدل دے گی" کے عنوان سے ایک یادداشت شائع کی ہے۔ انھوں نے ان لوگوں کے مفروضوں کو مسترد کیا ہے جو کہتے ہیں کہ یہ جنگ "ہر چیز میں تبدیلی" کے اسباب فراہم کرے گی، اور لکھا ہے کہ "یہ جنگ امریکہ کے یک قطبی دور کا قطعی طور پر خاتمہ کرے گی اور دنیا کو اس حالت کی طرف پلٹا دے گی جس کو ریئلزم کے ذریعے بہترین انداز سے واضح کیا گیا ہے۔

مضمون کو اہم نکات:
- یوکرین کی جنگ جلدی یا بدیر بند ہو جائے گی۔ کوئی بھی نہیں جانتا کہ انجام کار کی کیفیت کیا ہوگی، یہ انجام کب ہوگا اور اس کی شکل و صورت کیا ہوگی۔ شاید روسی افواج مکمل طور پر شکست و ریخت کا شکار ہو جائیں اور مکمل طور پر پیچھے ہٹ جائیں (جس کا امکان بہت ہی کم ہے)۔ شاید روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو معزول کیا جائے اور ان کے جانشین وقت کو واپس پلٹانے کی امید سے فراخدلانہ معاہدہ طے کرنے کے لئے تیار ہو جائیں (اس کا امکان بھی بہت کم ہے)۔ ہو سکتا ہے کہ یوکرینی افواج جنگ کا عزم کھو جائیں (اس کا امکان بھی بہت کم ہے)۔ ہو سکتا ہے کہ جنگ ایک بے نتیجہ تعطل کے ساتھ جاری رہے، جب تک کہ اس قصے کے مرکزی کردار تھک جائیں اور امن معاہدے پر بات چیت ہوجائے (ایک امکان جو میرے خیال میں بہت حد تک ممکن ہے)۔ تاہم حتیٰ اس منظرنامے کے عملی جامہ پہننے کی صورت میں بھی، یہ جاننا بہت مشکل ہے کہ حتمی حالات کیا ہو سکتے ہیں یا یہ صورت حال کب تک جاری رکھ سکتی ہے۔
- یوکرین کی جنگ اس لئے اہم ہے کہ یہ ایک مختصر 'یک قطبی دور' (1993-2020) کے خاتمے کی نشاندہی کرتی ہے جس میں امریکہ دنیا کا واحد حقیقی سپر پاور تھا، نیز اس لئے بھی کہ یہ ان عالمی سیاسی نمونوں کی طرف واپسی کی نشاندہی کرتی ہے جنہیں امریکہ کی "عارضی" "تسلیم شدہ برتری" کی وجہ سے کچھ عرصے کے لئے کچل دیا گیا تھا۔
- عالمی سطح پر بالادستی کے اس عارضی دور میں امریکہ متعدد خطاؤں کا مرتکب ہؤا؛ امریکی حکام نے ریاست ہائے متحدہ کی طاقت کے تحفظ کے اور تنازعات کے حل اور ہم سطح رقیب کے میدان میں نہ آنے کو یقینی بنانے کے بجائے، اکثر و بیشتر اس کے برعکس عمل کیا۔ انھوں نے چین کو زیادہ تیزرفتار ترقی کی منازل طے کرنے میں مدد بہم پہنچائی اور مشرق وسطیٰ میں مہنگی، غلط اور بےثمر صلیبی جنگوں کی صورت میں کھربوں ڈالر کا سرمایہ ضائع کرکے رکھ دیا۔
- انھوں نے امن کے لئے شراکت داری جیسے طریقۂ کار کے ذریعے بتدریج لبرل اداروں کو فروغ دینے کے بجائے - اور روس کے خدشات پر ذرہ برابر توجہ مرکوز کئے بغیر - نیٹو کو مشرق کی طرف پھیلا دیا اور پورے اعتماد کے ساتھ سمجھ بیٹھے کہ ماسکو انہیں روکنے کے لئے کچھ بھی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا!

روس کا جنگی [بحری] جہاز ڈوب گیا
میدان جنگ سے متعلق اہم ترین خبر کا تعلق بحیرہ اسود میں روس کے میزائل بردار بحری جہاز ڈوبنے سے تعلق رکھتی ہے جس کے سبب کے بارے میں فریقین نے متضاد موقف اپنایا ہے۔ روسی وزارت دفاع نے جمعرات (14 اپریل 2022ع‍) کی شام کو اعلان کیا کہ "ماسکووا" نامی میزائل بردار جہاز اسی روز صبح کے وقت آتشزدگی اور دھماکے سے دوچار ہؤا اور جب اسے ساحل کی طرف کھینچا جا رہا تھا، خراب موسمی حالات کی وجہ سے ڈوب گیا۔ روسی وزارت دفاع کے اعلان کے مطابق، یہ جہاز آتشزدگی اور دھماکے کی وجہ سے اپنا توازن کھو گیا اور طوفانی سمندر کی وجہ سے ڈوب گیا اور اس کا عملہ بحفاظت نکال لیا گیا؛ اور اس حادثے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ یہ جہاز، بحیرہ اسود میں تعینات روسی بیڑے کا سب سے اہم جہاز سمجھا جاتا ہے اور ادھر یوکرینی حکام نے دعوی کیا ہے کہ اس جہاز کو یوکرینی میزائل کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

روس کی دھمکی
ادھر روسی وزارت دفاع کے ترجمان نے خبردار کیا ہے کہ روس کی قلمرو پر یوکرینی حملوں کی صورت میں، یوکرین کے دارالحکومت کی یف میں موجود ٹھکانوں پر شدید حملے کئے جائیں گے۔ روسی خبر ایجنسی سپوتنک (Sputnik) نے جمعرات کے دن خبر دی تھی کہ یوکرین کے دو جنگی ہیلی کاپٹر روس کی فضائی حدود میں داخل ہوئے اور روسی شہر بریانسک (Bryansk) میں کئی رہائشی علاقوں پر حملے کئے۔ روسی وزارت دفاع کے ترجمان جنرل اگور کوناشینکوف (Igor Konashenkov) نے جمعہ کے روز کہا کہ روسی سرزمین میں کسی بھی حملے یا تخریب کاری کے جواب میں، ماسکو کی یف میں اہداف پر زیادہ وسیع پیمانے پر میزائل حملے کرے گا۔ انھوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے کہا کہ روسی سرزمین پر یوکرین کی قوم پرست حکومت کے حکم پر ہونے والے کسی بھی دہشت گردانہ حملے یا تخریب کاری کے جواب میں کی یف میں مختلف ٹھکانوں پر میزائل حملوں کی تعداد اور وسعت میں اضافہ کیا جائے گا۔
مشرق کی طرف رخ
توانائی کے شعبے میں بھی روسی صدر نے یورپی ممالک سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ [یورپی ممالک] روس کی توانائی سے اپنی وابستگی ختم کرنے سے عاجز ہیں لیکن ماسکو کا منصوبہ مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ زیادہ سے زیادہ لین دین پر استوار ہے۔ فارس خبر ایجنسی کے مطابق، ولادیمیر پیوٹن نے جمعرات کو کہا کہ چونکہ یورپی ممالک روسی گیس پر انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، چنانچہ ماسکو اپنی برآمدات کا رخ کو مشرقی نصف کرہ کی سمت موڑ دے گا۔ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق، روس نے - اپنی گیس کی پیداوار کے خریداروں کو متنوع بنانے کی غرض سے - ایشیا اور بطور خاص چین کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات استوار کئے ہیں۔ چین اس وقت دنیا بھر میں توانائی کی مصنوعات اہ ست سے بڑا خریدار ہے۔ روس نے اپنی کابینہ کے اجلاس میں کہا: "حیرت انگیز مسئلہ یہ ہے کہ غیر دوست ممالک میں ہمارے شرکاء نے خود ہی اعتراف کیا ہے کہ روس کے توانائی کے وسائل بالخصوص گیس کے بغیر ان کا گذارہ نہیں ہوتا، اور یہ یقینی امر ہے کہ یورپ کے پاس روسی گیس کا کوئی معقول متبادل ذریعہ نہیں ہے۔۔۔ اور اب جو انھوں نے روسی توانائی کی درآمدات سلسلہ منقطع کیا ہے تو ایک طرف سے ان ممالک میں توانائی کی قیمتوں میں بےانتہا اضافہ ہؤا ہے اور دوسری طرف سے ان کے ہاں توانائی کی منڈی غیر مستحکم ہوچکی ہے"۔
پیوٹن نے یہ بھی کہا کہ یورپیوں نے روس کے ساتھ معمول کا تعاون کا سلسلہ بند کرکے توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے اسباب فراہم کئے ہیں اور کروڑوں یورپیوں کو بےشمار مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ انھوں نے کہا: "ہمیں بھی مسائل کا سامنا ہے لیکن یہ مسائل ہمارے لئے نئے نئے مواقع بھی فراہم کر رہے ہیں"۔
جمعرات کی صبح کو انٹرفیکس خبر ایجنسی نے رپورٹ دی کہ روسی وزارت خارجہ امریکی کانگریس اور ایوان نمائندگان کے 398 اراکین اور 87 کینیڈین سینٹروں پر مختلف قسم کی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ دوسرے افراد کے خلاف اقدامات کرے گی۔

میدوی ایدف کا جوہری انتباہ
ادھر روس کی قومی سلامتی کونسل کے نائب سربراہ دمتری میدوی ایدف (Dmitry Medvedev) نے بھی جمعرات کے دن خبردار کیا کہ سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کی صورت میں، روس اپنی سرحدوں کی حفاظت پر مجبور ہوگا اور ممکن ہے کہ وہ بحیرہ بالٹک میں جوہری ہتھیار بھی تعینات کرے۔ برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ کے مطابق، ماسکو نے نیٹو کو خبردار کیا کہ اگر سویڈن اور فن لینڈ اس عسکری اتحاد میں شامل ہوجائیں تو روس اپنی سرحدوں کو تقویت پہنچانے پر مجبور ہوگا اور مستقبل میں "جوہری ہتھیاروں سے پاک بالٹک" کی پابندی لازم نہ ہوگی۔ میدوی ایدف نے کہا: "سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کی صورت میں، "بالٹک کے جوہری ہتھیاروں سے پاک ہونے" کے مسئلے کے بارے میں بات چیت بےکار اور مہمل ہوگی، توازن کو بہرحال برقرار ہونا چاہئے"۔
روسی اہلکار نے ایسے حال میں مغرب کو خبردار کیا ہے، کہ فن لینڈ نے اگلے چند ہفتوں اور سویڈن نے اپنی سلامتی کی پالیسی پر غور کرکے اگلے مہینے نیٹو میں شمولیت کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف (Sergei Ryabkov) نے حال ہی میں خبردار کیا تھا کہ فن لینڈ اور سویڈن کی نیٹو میں شمولیت یورپ اور نیٹو کے لئے سیاسی اور عسکری عواقب (Consequences) کا سبب ہو سکتی ہے۔

امریکہ کی اقتصادی کسادبازاری
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک رپورٹ کے ضمن میں، امریکہ کے لئے یوکرین کی جنگ کے اقتصادی نقصانات کی طرف اشارہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ روس کے خلاف امریکی پابندیاں خود امریکہ میں مزید مہنگائی، افراط زر اور کساد بازاری کے لئے عمل انگيز عنصر (Catalyzer) کا کام کر سکتی ہیں۔ اس رپورٹ میں روس کے خلاف امریکی پابندیوں کے حوالے سے خبردار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے: "پابندیاں جتنی شدیدتر ہونگی، توانائی اور غذائی مصنوعات سمیت مختلف شعبوں میں شدید مہنگائیوں کا باعث بنیں گی، جن میں گندم ایک جزو کے طور پر شامل ہے"۔ گذشتہ ہفتے بروز منگل (12 اپریل 2022ع‍) بھی امریکی وزارت محنت نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ میں سالانہ افراط زر (اور مہنگائی) میں 5/8 فیصد اضافہ ہؤا ہے جو 1981ع‍ کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
امریکہ کے میزائلوں کا ذخیرہ خالی ہو گیا
ادھر وسیع پیمانے پر امریکی ٹینک شکن میزائلوں کو بھی یوکرین بھجوایا گیا ہے جس کی وجہ سے اس وقت امریکہ کے میزائلوں کا ذخیرہ خالی ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے امریکی میرینز کی ریزرو فورس کے سبکدوش کرنل اور واشنگٹن ڈی سی کے مرکز برائے تزویراتی و بین الاقوامی مطالعات (CSIS) کے مشیر اعلیٰ مارک کینسیئن (Mark Cancian) نے ‎جاؤلین ایف جی ایم - 148 (FGM-148 Javelin) میزائلوں کی یوکرین کو فراہمی کے سلسلے میں خبردار کیا تھا کہ امریکہ میں ان میزائلوں کا ذخیرہ ختم ہونے کو ہو۔ مارک کینسیئن نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ "امریکہ نے ہزاروں جاؤلین میزائل یوکرین کو ارسال کئے ہیں؛ ٹینک شکن میزائل جو یوکرین کی جنگ کے علامتی ہتھیار میں تبدیل ہوئے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کا ذخیرہ تیزی سے خالی ہو رہا ہے ۔۔۔ امریکہ نے اپنے جاؤلین میزائلوں کے ذخیرے کا ایک تہائی حصہ یوکرین کو دے دیا ہے اور امریکہ اب اس نقطے پر ہے کہ اسے ان میزائلوں کی ترسیل کو کرنا چاہئے تاکہ اپنے جنگی منصوبوں کے لئے کافی ذخیرہ موجود رہے۔ نئے میزائلوں کی تیاری بہت سست ہے اور ذخائر کو پر کرنے میں برسوں کا عرصہ لگتا ہے"۔ کرنل کینسیئن نے مزید لکھا ہے: "جاؤلین ٹینک شکن ہتھیاروں کی سب سے پیچیدہ اور جدید، طاقتور اور مہنگی قسم ہے اور یہ اسلحہ نیٹو اور دیگر ممالک کی جانب سے یوکرین کو فراہم کیا جا رہا ہے۔۔۔ امریکہ کہہ رہا ہے کہ اس نے سات ہزار جاؤلین میزائل یوکرین کو فراہم کئے ہیں"۔ اس سے قبل جرمنی نے بھی اعلان کیا تھا کہ یوکرین کو وسیع پیمانے پر ٹینک شکن میزائلوں کی فراہمی کی وجہ سے اس ملک کا ٹینک شکن میزائلوں کا ذخیرہ خالی ہو چکا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترحمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110