اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
ہفتہ

16 اپریل 2022

8:46:58 PM
1248516

دہشت گردی کی جنم بھومی کہاں ہے؟ / دہشت گردی کا مقصد کیا ہے

تکفیری دہشت گردی کا اہم ترین "مخصوص دھندہ" اسلامی ممالک کے ثقافتی اور اسلامی ڈھانچے کو متزلزل کرنا اور نتیجے کے طور پر مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے قیام کو روکنا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے لے کر آج تک “اسلامی امتِ واحدہ” کے تصور کو عملی جامہ پہنانا اور اس کی تفسیر اور تشریح کرنا، اس انقلاب کے دو عظیم الشان قائدین امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) اور امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کی اہم ترین دینی اور سیاسی ترجیح رہی ہے۔ امامَینِ انقلاب نے ہمیشہ سے “نفی سبیل” (1) “اتحاد مسلمین”، “اسلام کی حیثیت اور ساکھ کی حفاظت” سب کے سب اسی مقصد اور اسی فکرمندی اور ترجیح بندی کا تسلسل ہے۔ اسلامی انقلاب ایران کے ساتھ امریکہ اور قابض یہودی ریاست کی قیادت میں عالم اسلام کے حلفیہ دشمنوں کے جوہری تصادم کی ایک بنیادی وجہ اس انقلاب کے قائدین کی یہی “اتحاد آفرین” اور “دشمن شکن” نگاہ ہے۔ دشمن سمجھ چکے ہیں کہ اگر مسلمانوں کا باہم اتحاد اور یکجہتی – وہ بھی دین اسلام کی بنیادی تعلیمات کی رو سے – تمام اسلامی مکاتب اور فرقوں کی ترجیحات میں بدل جائے، اور یہ اتحاد حقیقت کی دنیا میں قائم ہوجائے تو وسیع اسلامی دنیا میں ان کی جولانیوں کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی۔
ماضی قریب سے، اسلامی مذاہب اور فرقوں کے درمیان افتراق و انتشار پیدا کرنا، مسلمانوں کے اتحاد کے مقابلے میں مغرب کی – انسداد ثقافت پر مبنی (Countercultural) – سب سے بڑی حکمت عملی سمجھا جاتا ہے۔
کتنے بکثرت ہیں وہ جاسوس، جنہیں استعماری طاقتوں اور سرمایہ داری کے زہریلے تفکر کے حامل ممالک نے اسی مقصد کے حصول کے لئے تربیت دی تا کہ مختلف اسلامی ممالک میں حاضر ہو کر، اسلامی اور مذہبی اتحاد کے میدان میں اسلامی تعلیمات کی لامحدود صلاحیتوں کو ختم کر دیں۔ یہ سازش اس زمانے میں پہلے سے کہیں زیادہ سنجیدہ اور پیچیدہ شکل اختیار کر گئی ہے۔ ماضی میں اگر انگریز، صہیونی اور امریکی جاسوس مسلمانوں کے بھیس میں مسلم ممالک میں تعینات کئے جاتے تھے اور دین اسلام کے پیروکاروں کے درمیان دراڑیں ڈالنے اور اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے اسباب فراہم کرتے تھے؛ تو آج اکیسویں صدی عیسوی میں ہم دشمنوں کی طرف سے “تکفیری دہشت گردی” کے نام سے ایک منحرف، خطرناک اور دہشت گردانہ تفکر کے ظہور کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
اگر آج کوئی شخص یا کسی تفکر کا کوئی پیروکار “تکفیری دہشت گردی” کو غاصب صہیونی ریاست اور مغرب کے جاسوسی اداروں سے الگ اور مستقل سمجھے تو وہ یقیناً ایک تزویراتی غلطی اور غلط حسابات کا مرتکب ہؤا ہے۔
تکفیری دہشت گردی کا اہم ترین “مخصوص دھندہ” (specific function) اسلامی ممالک کے ثقافتی اور اسلامی ڈھانچے کو متزلزل کرنا اور نتیجے کے طور پر مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے قیام کو روکنا ہے۔ اسلام کے حلفیہ دشمن اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں تا کہ اسلامی دنیا کے جغرافیے کو مسلمانوں کی باہمی منافرتوں اور جھگڑوں کے میدان میں تبدیل کرکے نتیجے کے طور پر دو ارب سے زیاد مسلمانوں کے درمیان کے اتحاد کی رسی کو توڑ دیا اور پوری دنیا میں مسلمانوں کو عالم کفر کے لئے تر نوالے میں تبدیل کریں۔
حال ہی میں حضرت امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) کے حرم کے ایک صحن میں جو واقعہ رونما ہؤا اور اس کے نتیجے میں اسلام کے دو سچے اور روزہ دار پیروکاروں کی مظلومانہ شہادت واقع ہوئی، جو مسلم اقوام کے اتحاد کے خلاف تکفیری دہشت گردی اور اس کے چھپے حامیوں کی بغاوت کا اظہار ہے۔ اگر ہم اس دہشت گردانہ کارروائی سے پہلے کی ماحول سازیوں، اس کے دوران اور بعد کے واقعات اور پس منظر پر بخوبی توجہ دیں تو ہم واضح طور پر دیکھیں گے کہ اسلام دشمن طاقتوں نے اس سلسلے میں بڑے پیمانے پر اور بامقصد کاروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دہشت گردانہ اور شیطانی کارروائی کے فوراً بعد دشمن کے ایجنٹوں کی طرف سے پہلے ہی سے پھیلائے گئے تفرقہ آمیز کانا پھوسیاں ہزاروں ٹوئٹر اکاؤنٹس میں سے ابھر آئے۔ آج اسلامی دنیا میں ہمیں کسی “محدود دہشت گردانہ کاروائی” کا سامنا نہیں ہے بلکہ اسلام دشمن طاقتوں کے ایک منظم اور منصوبہ بند “آپریشن پلان” کا سامنا کر رہے ہیں جس کا بنیادی مقصد ایسے حال میں مسلمانوں کے درمیان دراڑ پیدا کرنا ہے، جبکہ فلسطین مسلمانوں کو شدید ترین صہیونی جارحیت کا سامنا ہے۔ ہر روز کئی فلسطینیوں کو قتل کیا جارہا ہے، مسلمانوں کے قبلۂ اول کی باضابطہ بےحرمتی ہو رہی ہے اور دوسری طرف سے فلسطینی مقاومت نے بھی غاصب صہیونی ریاست کو لگام دینے کے لئے بے مثل استشہادی کاروائیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور موجودہ دہشت گردی کا ایک اہم مقصد فلسطین کو بھی تنہا کرنا اور صہیونی غاصبوں کے ظلم و ستم سے عالم اسلام کی نظریں ہٹانا ہے۔ چنانچہ اس عالمی سازش اور اس کے بانیوں کو بے نقاب کرنے اور آخر کار ایسے معاملات سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے حوالے سے عالم اسلام کے آگاہ اور باخبر اور فکرمند ذرائع ابلاغ، علماء، دانشوروں اور طلبہ کی عظیم ذمہ داری آج پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں ہے۔ بلا شبہ عالم اسلام کے ذرائع ابلاغ اور دینی و سماجی شخصیات اور لکھاریوں کو اس سمت میں ایک اگہی بخش اور شعور بیدار کرنے والا ذمہ دارانہ قدم اٹھانا چاہئے۔
قرآنی نکتہ:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
“وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ؛ (سورہ انفال – 46)
اور اللہ اور اس کے پیغمبر کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو کہ [اس صورت میں] تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی (تمہاری قوت مضمحل ہوگی اور تمہاری صفوں میں سستی پیدا ہو جائے گی)”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: حجت الاسلام و المسلمین محمد مہدی ایمانی پور، سربراہ ادارہ اسلامی ثقافت و تعلقات۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ نفیِ سبیل یا “قاعدۂ نَفیِ سَبیل” فقہی اصول میں سے ایک ہے جس کے مطابق کافر کو مسلمان پر کسی طرح کا تسلط حاصل نہیں ہے۔ یہ قاعدہ فقہی قواعد میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والے اہم احکام میں شمار ہوتا ہے اگرچہ یہ “ثانوی احکام” میں شمار ہوتا ہے مگر ابتدائی احکام پر مقدم ہے؛ یعنی ہر وہ ابتدائی حکم جو اس حکم سے متصادم ہو، وہ باطل شمار ہو گا۔ (بالفاظ دیگر: ایک مسلم ملک پر اجنبی اور غیر مسلم قوتوں کا ابلاغیاتی اور مواصلاتی تسلط حرام اور اس کا سد باب کرنا، مسلمانوں پر واجب ہے۔ بالفاظ دیگر، ہر وہ اقدام مسلمانوں پر حرام ہے جو مسلمانوں پر کفار کے ابلاغیاتی اور مواصلاتی تسلط کا باعث بنتا ہو)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242