اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
اتوار

10 اپریل 2022

8:08:47 AM
1246563

دیوالیہ رجب طیب اردوگان سے اسرائیلی مطالبات کی طویل فہرست/ وہ تم سے کبھی بھی خوش نہ ہونگے سوا اس کے ۔۔۔

اردوگان نے روس سے ایس-400 کا میزائل شکن و طیارہ شکن نظام خرید کر امریکہ کی نسبت بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا جس کی وجہ سے امریکہ نے ترکی کو ایف-35 طیاروں کے منصوبے سے الگ کر دیا۔ امریکہ نے حال ہی میں اردوگان کو ایس-400 فضائی دفاعی نظام یوکرین منتقل کرنے کی تجویز دی اور اعلان کیا کہ اگر اردوگان ایسا کریں تو واشنگٹن اس کی قیمت کا کچھ حصہ انقرہ کو ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ اخبار یروشلم پوسٹ نے لکھا: رجب طیب اردوگان کو اسرائیلی توقعات پر پورا اترنے اور امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اس سے کہیں زیادہ کوششیں کرنا پڑیں گی؛ جس کے بعد ہی ہو سکتا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ چاہیں تو ان پر ایک قابل اعتماد شریک کے طور پر، اعتماد کرسکیں گے؛ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ فی الحال ترکی کے نہایت ابتر معاشی صورت حال نے اردوگان کو واشنگٹن اور تل ابیب کے سامنے کورنش بجا لانے پر مجبور کیا ہے۔
یروشلم پوسٹ نے اس حوالے سے سوال اٹھایا ہے کہ “کیا یوکرین پر روس کا حملہ ترکی کے نیٹو میں اپنے اتحادیوں سے قریب تر ہونے کا سبب فراہم کرے گا؟
اس صہیونی اخبار نے مزید لکھا ہے: ترک صدر رجب طیب اردوگان کے اقدامات یوکرین کی مدد اس لئے نہیں کی ہے کہ نیٹو کے رکن ممالک – بالخصوص امریکہ – ترکی کو اسلحہ بیچنے پر لگی پابندیاں اٹھا لیں۔
اس رپورٹ کے مطابق، اگرچہ یوکرین کو فراہم کئے جانے والے ترکی کے بیرق دار (Bayraktar) ڈرون اور دیگر فوجی آلات و اوزار حملہ آور روس کے فوجی وسائل کو نشانہ بنانے میں کی یف کو مدد فراہم کر رہے ہیں لیکن ترکی پر اسلحہ کی فروخت پر لگی پابندیوں کی فہرست کافی طویل ہو چکی ہے۔ شام کے شمالی علاقوں میں کردوں کا قومی صفایا – جو درحقیقت ماضی میں قبرص میں اسی طرح کے اقدامات کا اعادہ ہے – ان دنوں یوکرین پر روسی جارحیت سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔
باوجود اس کے، کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے یوکرین کو امداد کی فراہمی اور روس اور یوکرین کے درمیان ثالثی کے حوالے سے انقرہ کا شکریہ ادا کیا ہے لیکن وہ اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ اردوگان کی خود تباہ کن (Self-destructive) مالیاتی پالیسیوں نے انہیں – اپنے اقتدار کے تحفظ کی خاطر – نیٹو میں اپنے سابق شرکاء سے رابطہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔
یروشلم پوسٹ نے اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات کی پاداش میں جناب اردوگان کو “آمر” قرار دیتے ہوئے لکھا ہے: “ایک آمر کی کا سب سے پہلا کام اپنے اقتدار کا تحفظ ہوتا ہے لیکن حقیقت اردوگان حقیقی گھٹن میں مبتلا ہيں؛ ان کی قیادت کے تحت ترکی کا نظریہ اسلام پسندانہ ہے اور اسلام پسندی صہیونیت کے خلاف ہے، چنانچہ [اردوگان پر اعتماد کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ] رجب اردوگان نے صرف یہود-دشمن نعروں کو قدرے کم کردیا ہے اور صرف اور صرف معاشی اہداف کی خاطر اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ سے ملاقات کی اور <ترکی کے سابق اتحادی اسرائیل> کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کے آغاز کی خواہش ظاہر کی”۔
اس رپورٹ کے مطابق، اردوگان نے روس سے ایس-400 کا میزائل شکن و طیارہ شکن نظام خرید کر امریکہ کی نسبت بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا جس کی وجہ سے امریکہ نے ترکی کو ایف-35 طیاروں کے منصوبے سے الگ کر دیا۔ امریکہ نے حال ہی میں اردوگان کو ایس-400 فضائی دفاعی نظام یوکرین منتقل کرنے کی تجویز دی اور اعلان کیا کہ اگر اردوگان ایسا کریں تو واشنگٹن اس کی قیمت کا کچھ حصہ انقرہ کو ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔
یروشلم پوسٹ نے مزید لکھا: اب جبکہ ترکی کی معیشت کو شدید دشواریوں کا سامنا ہے اور ادھر بلاروس (Belarus) سمیت کچھ کے سوا کوئی بھی روس کا ساتھ نہیں دے رہا ہے چنانچہ اردوگان کو اب فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ مغرب کا ساتھ دیتے ہیں اور امریکہ کے اہم ترین علاقائی اتحادی “اسرائیل” کی طرف بڑھتے ہیں یا نہیں؟ اور اگر وہ اسرائیل اور مغرب کی طرف بڑھتے ہیں تو یہ رجحان حقیقی ہوگا یا پھر وہ صرف ظاہری طور اس کا اظہار کریں گے؟ کسی وقت اردوگان سمجھتے تھے کہ ان کے پاس کچھ بھی کرنے کے تمام لوازمات موجود ہیں تو اب برسوں کے تقابل اور دھمکیوں اور جوابی دھمکیوں کے بعد، مغرب اور اسرائیل کے پاس انقرہ کے مقابلے میں مؤثر متبادل موجود ہیں۔ اردوگان کو یاد کرلینا چاہئے کہ انھوں نے 2016‍ میں اپنے خلاف ناکام فوجی بغاوت کی ذمہ داری امریکہ پر عائد کی تھی اور انھوں نے انجرلک ہوائی اڈے (Incirlik Air Base) کی بجلی منقطع کر دی، جس میں ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار رکھے گئے ہیں، ایسا کام جو نیٹو کے کسی اتحادی کو بھی نہیں کرنا چاہئے تھا۔ علاوہ ازیں اردوگان حرکۃ المقاومۂ الاسلامیہ (حماس) کی حمایت کرتے رہے ہیں اور اس تنظیم کے ارکان کی میزبانی کرتے ہیں، جو اسرائیل کے لئے کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ہے۔
ادھر فارن پالیسی نامی امریکی تحقیقی ادارے نے بھی جناب اردوگان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے: “کسی کو بھی ترکی کی طرف سے بحال ہونے والے سفارتی رابطوں اور چینلز کے دھوکے میں نہیں آنا چاہئے: ترکی اور اسرائیل کے باہمی تعلقات میں ساختیاتی (Structural) اور مستحکم رکاوٹیں موجود ہیں؛ جن کی رو سے مستقبل میں ان دو کے درمیان قربتوں کے امکان کو زائل کرتی ہیں”۔
یروشلم پوسٹ کے مطابق، دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکی اور اسرائیل نے 60 سال پہلے سوویت توسیع پسندی، عرب قوم پرستی اور انسداد دہشت گردی کے لئے معلومات کا تبادلہ کیا تھا۔ اب کئی دہائیوں بعد مشرق وسطیٰ میں وہی مسائل دہرائے جا رہے ہیں۔
حال ہی میں صہیونی سربراہ اسحاق ہرزوگ نے انقرہ کا دورہ کیا، اور اردوگان نے ان کا والہانہ استقبال کیا اور قرآنی تعلیمات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے اسرائیل کو ایک ناقابل انکار اور قابل اعتماد شریک بھی قرار دیا مگر یروشلم پوسٹ نے ان کے موقف کو پھر بھی کافی نہیں سمجھا ہے اور اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ “اسرائیل اردوگان پر اعتماد نہیں کرتا اور اسرائیل میں کوئی سوچتا تک نہیں کہ وہ اپنے آپ کو بدل دیں گے، چنانچہ اسرائیل کے لئے اس سے بہتر کوئی بھی بات نہیں ہے کہ انہیں اگلے سال اقتدار سے الگ کر دیا جائے؛ اگلے سال اردوگان کی برطرفی کے بعد بہت سارے واقعات رونما ہوسکیں گے؛ اور اگر تل ابیب ترکی کو حماس کی حمایت سے دستبردار ہونے اور صہیونیت کے خلاف بیانات کم کرنے پر مجبور کرسکے تو یہ اسرائیل کے لئے استحکام کا سبب ہوگا اور اس کے لئے ہونے والی کوششیں بجا اور مناسب ہیں”۔
مذکورہ صہیونی اخبار نے مزید لکھا ہے: ان دنوں ترکی کی پالیسی مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے خطے کے “مسلم ممالک!” سے متصادم ہے!
اخبار کے مطابق، علاوہ ازیں اردوگان نے یونان، قبرص اور اٹلی کی طرف اس گیس پائپ لائن کی تعمیر میں خلل ڈال دیا ہے، جو اسرائیل کے گیس فیلڈز سے قدرتی گیس کئی ممالک کے راستے یورپ تک پہنچا سکتی تھی۔ ترکی نے اشتعال انگیز اقدامات کرتے ہوئے قبرص کے گیس فیلڈز پر اپنی مالکیت کا دعویٰ کیا۔
نیز، روس کے ساتھ [بھی] ترکی کی صف بندی فطری شراکت داری کے زمرے میں نہیں آتی؛ ترکی روس سے خوفزدہ ہے اور اسی لئے اسے اب نیٹو اور امریکہ کی ضرورت ہے۔ ترکی اور روس ارمینیا اور آذربائیجان نیز شام اور لیبیا میں ایک دوسرے کے حریف ہیں۔
صہیونی اخبار کا دعویٰ ہے کہ ترکی کے لئے ایک ہی بہتر موقع فراہم ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایس-400 فضائی دفاعی نظام کے شر سے چھڑا دے! نیٹو کا ایک رکن ملک اگر روس سے دوری اختیار نہ کرسکے تو کیا وہ قابل اعتماد ہوگا؟
صہیونی اخبار نے آخر میں لکھا ہے: مشرق وسطیٰ میں ہمیشہ سے ایک مسلمہ اصول یہ ہے کہ یہاں اتحاد ہوا کے ساتھ بدلتے ہیں، اور ان حالات میں اردوگان کے ساتھ ایک اچھا سودا طے پانے کے لئے ہر کوشش قابل قدر ہے بشرطیکہ کہ وہ غزہ اور اسرائیل [یعنی مقبوضہ فلسطین] میں اخوان المسلمین کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں!۔
اردوگان اور یہودی ریاست کے ساتھ سازباز کرنے والے مسلم ممالک کے حکمرانوں کے لئے قرآنی نصیحت:
“لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الْيَهُودَ وَ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ؛ (سورہ مائدہ-آیت 82)
یقیناً آپ یہودیوں اور مشرکین کو ایمان والوں کا شدید ترین دشمن پائیں گے”۔
وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْيَهُودُ وَلاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍ؛ (سورہ بقرہ-120)
اور آپ سے یہودی اور عیسائی اس وقت تک کبھی بھی خوش نہیں ہونگے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے پیرو نہ ہو جائیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اصل ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے اور اگر آپ اس علم کے بعد جو آپ کے پاس آ چکا ہے، ان کے من مانے خیالات کی پیروی کیجئے تو اللہ کے غضب سے بچانے کے لئے آپ کا نہ کوئی یار و یاور ہو گا نہ ہی مدد گار”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲