اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
ہفتہ

9 اپریل 2022

1:37:19 AM
1246148

پندرہویں صدی ہجری کا طلوع مغرب کا غروب اور مشرق کا طلوع

ہیں سے ہماری مہم جوئیوں سے بھری کہانی اور بین الاقوامی تسلط پسند نظام اور اس کے چھوٹے بڑے گماشتوں کی ہمہ گیر یلغار طویل سلسلہ شروع ہؤا۔ ایک ایسی یلغار جو پچھلے 43 سالوں سے بلا ناغہ جاری ہے۔ لیکن آخر کیوں؟

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ پندرہویں صدی ہجری قمری کا تینتالیسواں سال اور اس وقت 1343ھ کا مبارک مہینہ رمضان ہے؛ اور حال ہی میں 21 مارچ سنہ 2022ع‍ کو پندرہویں صدی ہجری شمسی کا آغاز بھی ہو چکا ہے اور یوں اس وقت قمری اور شمسی دونوں لحاظوں سے پندرہویں صدی ہجری ہے؛ تاہم اس مضموں میں پندرہویں صدی ہجری شمسی کے آغاز کو موضوع بنایا گیا ہے:
1- ہم پندرہویں صدی ہجری شمسی کے پہلے سال کا آغاز ایسے حال میں کر رہے ہیں کہ ہم چودہویں صدی ہجری شمسی کے وسط [اور چودہویں صدی ہجری کے اواخر] میں ایک عظیم ترین اور تقدیر ساز ترین واقعے کو آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ اسلامی انقلاب در حقیقت خالص محمدی (ص) اسلام کی طرف بازگشت اور بعثت نبوی کا احیاء اور ایک نئی بعثت کا نام ہے۔ گوکہ اس نئی بعثت میں کوئی نئی تعلیم اور کوئی نیا حکم نہیں اترا بلکہ عام الفیل کے چالیس بعد ہونے والی بعثت کی یادآوری ہوئی اور انقلاب اسلامی کے ساتھ خالص محمدی (ص) 14 صدیاں بعد ایک بار پھر اقتدار کو پہنچا۔ خالص اسلام اس سے پہلے بھی تھا، لیکن کتابوں اور دینی علماء کے ذہنوں تک محدود تھا۔ خالص اسلام نظری لحاظ سے موجود تھا لیکن میدان عمل میں نہیں آ سکا تھا۔ ایک شفابخش نسخہ تھا جسے تحریر کرکے عملی فائدہ اٹھانے کے لئے آگے نہیں بڑھایا جا سکا تھا۔ واقعہ یہ ہؤا کہ امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) نے خالص محمدی اسلام کو کتابوں اور کتب خانوں سے نکال کر جھاڑ پونچھ لیا اور اس پر صدیوں سے بیٹھی ہوئی بدعات، تحریفات، کج فکریوں اور توہمات و خرافات کی تہہ در تہہ دھول کو زائل کیا؛ اور خالص اسلام کو اسی شکل میں دنیا والوں کے سامنے رکھا جو جس طرح کہ صدر اول میں تھا۔
یہیں سے ہماری مہم جوئیوں سے بھری کہانی اور بین الاقوامی تسلط پسند نظام اور اس کے چھوٹے بڑے گماشتوں کی ہمہ گیر یلغار طویل سلسلہ شروع ہؤا۔ ایک ایسی یلغار جو پچھلے 43 سالوں سے بلا ناغہ جاری ہے۔ لیکن آخر کیوں؟
2۔ خالص اسلام، ظلم و جبر کے خلاف ہے اور جو اسلام جبر و ظلم کے خلاف نہ ہو، وہ اسلام نہیں ہے؛ ارشاد ربانی ہے:
"لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ؛
ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی ہوئی دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور اتارا ان کے ساتھ کتاب (بطور قانون حیات) اور میزان (حق و باطل کی تشخیص کی کسوٹی) کو تا کہ لوگ عدالت و انصاف کو قائم کریں"۔ جو اسلام معاشرے کے دکھ درد سے ناآشنا امیروں اور کلاں سرمایہ داروں کی شکم پرستی اور پُرخوری کو غریبوں کی ناداری اور مستضعفین کی بھوک و افلاس کو برداشت کرے، وہ اسلام نہیں ہے بلکہ امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) کے حکیمانہ قول کے مطابق وہ "امریکی اسلام" ہے۔ فطری امر ہے کہ جب ظلم جبر کے خلاف جدوجہد کرنے والے خالص محمدی (ص) اسلام کا کوئی نسخہ (Version) کرسی اقتدار تک پہنچے گا اور نافذ کیا جائے گا، تو جو واقعہ رونما ہوگا - اور ہم نے اس کو رونما ہوتے دیکھا بھی - وہ یہ ہے کہ بین الاقوامی تسلط پسند استکباری نظام پوری قوت کے ساتھ اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوگا؛ کیونکہ اسلام کا یہ نسخہ تسلط پسند عالمی نظام کے وجود تک کو چیلنج کرتا ہے۔ بالفاظ دیگر اسلامی نظام کا تقابل تسلط پسند نظام کے ساتھ، فطری اور جوہری ہے اور یہ تقابل اور تنازعہ دونوں کی فطرت جنم لیتا ہے۔ یہ تنازعہ صرف اس وقت اختتام پذیر ہوتا ہے جب دو میں سے ایک واقعہ رونما ہوجائے: یا ہم خالص محمدی(ص) اسلام کو کرسی اقتدار تک پہنچانے سے ہاتھ کھینچ لیں یا تسلط پسند عالمی نظام (جس کی زعامت امریکہ کے ہاتھ میں ہے) تسلط پسندی سے پسپائی اختیار کرے اور اپنی استکباری عادات کو ترک کر دے۔ اور اگر ان دو واقعات میں ایک رونما نہ ہوگا تو تنازعہ جاری رہے گا۔ جنگ کے میادین بدل سکتے ہیں مگر جھگڑا باقی رہے گا۔
3۔ اسلامی انقلاب کے بنیادی اصول اور استکباری طاقتوں کے ساتھ چپقلش کے اسباب کو انقلاب کے اوائل میں امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) سے امریکی مجلے "ٹائم" کے نمائندے کے سوال میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ٹائم کا نامہ نگار کہتا ہے: "آپ کی زندگی جدید دنیا سے مختلف تھی۔ آپ نے جدید معاشیات، قانون اور بین الاقوامی تعلقات کا مطالعہ نہیں کیا ہے؛ آپ کی تعلیمات کا تعلق اسلامی علوم اور الٰہیات سے ہے، کیا آپ محسوس نہیں کررہے ہیں کہ جو راستہ آپ نے چنا ہے، اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے؟" اور امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) نے جواباً فرمایا: "ہم نے عالمی مساوات اور ان سماجی اور سیاسی معیاروں کو توڑ دیا ہے جن سے اب تک تمام عالمی معاملات کو ماپا جاتا تھا، ہم ایک نیا دائرہ کار (Framework) لے کر آئے جس میں عدل و انصاف دفاع کا معیار ہے اور جبر حملے کا معیار؛ ہم ہر عادل و منصف کا دفاع کرتے ہیں اور ہر ظالم و جابر پر حملہ کرتے ہیں۔ اب آپ اسے جو نام چاہیں دے سکتے ہیں۔ ہم اس کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ امید ہے کہ ایسے لوگ سامنے آئیں جو اس سنگ بنیاد پر اقوام متحدہ اور اقوام کی کونسل اور سلامتی کونسل اور دیگر اداروں کی عظیم عمارت تعمیر کریں، نہ کہ سرمایہ داروں اور طاقتوروں کے اثر و رسوخ کی بنیاد پر"۔ اور پھر فرماتے ہیں، "جی ہاں! تمہارے قواعد کی رو سے، میں کچھ نہیں جانتا، اور یہتر یہی ہے کہ نہ جانوں"۔
ٹائم کے نامہ نگار نے اپنے انٹرویو کے دیباچے میں، طنزیہ لہجے میں لکھا تھا: "ہم ایک عظیم شیعہ عالم کی بات کر رہے ہیں جو بزعم خود آج نہ صرف ایران بلکہ پوری دنیا کے نظامِ حکمرانی کو بدلنے کے لئے آئے ہیں اور ایک ایسا متبادل نظام لانا چاہتے ہیں جس میں عدل اور ظلم اور سماجی تعلقات اور سیاسی قواعد اسلامی معیاروں کی بنیاد پر متعین ہوتے ہیں"۔
کاش ٹائم کا نامہ نگار آج زندہ ہو اور جس کو وہ ناممکن سمجھتا تھا، اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لے اور اگر وہ دنیا سے رخصت ہؤا ہے تو "فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ" (1) کی رو سے اس نے وہ عظیم واقعہ دیکھ لیا ہے۔
4۔ عرصہ 43 سال قبل نقطۂ آغاز پر ہم جس حال میں تھے، اور آج جس حال میں ہیں، ان دو کیفیات کے درمیان ایک سادہ سا موازنہ، سب سے کم سمجھدار لوگوں کے لئے بھی ذرہ برابر شک نہیں چھوڑتا کہ ہم نے چار دہائیوں میں کئی سو سال کا سفر طے کیا ہے۔ اور یہ سب کچھ ایسے حال میں حاصل ہؤا ہے کہ ہم 43 سالوں سے عالمی تسلط پسند نظام اور اس کے پیروکاروں کی طرف کی ہر قسم کی دشمنیوں اور مسلسل یلغار کا سامنا کر رہے ہیں۔ عام سیاسی اور کلاسیکی تحریروں میں مذکور ہے کہ ایک نو بنیاد نظام حکومت کے پرکھنے کے لئے کم از کم تین سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے، لیکن ہم نے ابھی "بسم اللہ" بھی نہیں کہی تھی کہ ہمیں ہر قسم کی دشمنیوں اور سازشوں سے نمٹنا پڑا؛ "ہم نے اپنی آستینیں آپ کے حق میں چڑھائی ہی تھیں کہ * [لوگوں] نے خونخوار تلواریں نکال دیں": علاقائی سازشیں، پابندیاں، ایک سے زیادہ بغاوتوں کی سازشیں، دہشت گرد ٹولوں کی شورشیں، مسلط کردہ جنگ، شہری لڑائی (اور شہری علاقوں پر بمباریاں)، رہائشی علاقوں پر میزائل حملے، کیمیاوی بمباریاں، آئل ٹینکروں کی لڑائی (خلیج فارس میں آئل ٹینکروں پر حملے)، حساس فوجی مراکز میں جاسوسوں کی دراندازی، متوازی دھارے بنانا جیسے طالبان، انگریزی شیعہ اور امریکی سنی، داعش جیسے تکفیری ٹولوں کو منظر عامل پر لانا، سینکڑوں بلکہ ہزاروں سمعی، بصری اور تحریری تشہیری اور ابلاغی اداروں کو اسلامی جمہوریہ کے خلاف استعمال کرنا اور...
ہمارے خلاف ہونے والی بعض سازشیں سازشیں [اتنی بڑی تھیں کہ] ایک طاقتور ملک کا تختہ الٹنے کے لیے کافی تھیں۔ مثال کے طور پر مسلط کردہ جنگ کے دوران دنیا کی ساری بڑی چھوٹی طاقتیں، بلاکوں میں بٹی دنیا میں، اپنے تمام وسائل اور جنگی، سیاسی اور تشہیری مشینریوں کے ساتھ، صدام کی حق میں میدان میں اتری تھیں، جرمنی کے لیوپارڈ ٹینک، برطانیہ کے چفٹن ٹینک، فرانسیسی ساختہ ایگزوسٹ (Exocet) میزائل، سوپر ایٹنڈرڈ (Dassault Super Étendard) اور مراج (Mirage) طیارے، روسی ساختہ ٹی سیریز ٹینک، اسکاڈ بی میزائل، مگ اور ایس یو جنگی طیارے، جرمن اور برطانوی کیمیاوی بم، امریکہ امریکی ساختہ سائیڈ ونڈر میزائل اور اواکس (AEW&C) نامی جاسوس طیارے، سعودی، کویتی اور اماراتی پیٹرو ڈالر ۔۔۔ جبکہ ہم اپنے امام (رضوان اللہ تعالی علیہ) کے بقول ہم بالکل تنہا تھے، بالکل تنہا ۔۔۔
5۔ مشہور امریکی مفکر فرانسس فوکویاما، نے اپنے مشہور نظریئے "تاریخ کا خاتمہ" (The End of History and the Last Man) میں دعویٰ کیا تھا کہ تیسری ہزاری (Third Millennium) کا آغاز امریکی لبرل جمہوریت کے عالم تسلط اور ہمہ گیری کا آغاز ہے اور دنیا کے تمام ممالک کو اس کی چھتری تلے آنا پڑے گا! مگر جو واقعات فوکویاما اور ان جیسے دوسروں کے لئے ناقابل پیش گوئی تھے، ان سے ظاہر ہؤا کہ "تاریخ امریکہ کے لئے اختتام پذیر ہو چکی ہے"، جبکہ اسلامی انقلاب، اسلامی ایران کی قیادت میں، ابھی شروع ہو چکا ہے۔ ایلیوٹ آشر کوہن (Elliott Asher Cohen) کوہین کے مطابق، تیسری ہزاری کا آغاز، فرانسس فوکوما کی توقع کے برعکس، "تاریخ کا خاتمہ" اور دنیا بھر میں مغربی لبرل جمہوریت کے تسلط کی شروعات نہیں بلکہ ایک خمینی اور خامنہ ای کی قیادت اور علمبرداری میں ایک طاقتور اسلامی قطب کی ولادت ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ فوکویاما نے کچھ عرصہ بعد اپنے نظریئے [یا اپنی تمنا] کو واپس لے لیا۔ فوکویاما نے اپنا نظریہ واپس لے لیا اور قابل ذکر ہے کہ کچھ عرصہ قبل سات دیگر ممتاز امریکی-مغربی مفکرین - کرسٹوفر لین (Christopher Layne)، پربھات پٹنائیک (Prabhat Patnaik)، الفریڈ میک کوئے (Alfred McCoy)، ڈیوڈ رینی (David Ranney)، فرید زکریا، جیمز پیٹراس (James Petras) اور نوام چومسکی (Noam Chomsky) نے - ایک مضمون شائع کرکے "ریاستہائے متحدہ (US) کے زوال پر مضامین شائع کئے۔ ممتاز امریکی ماہر عمرانیات ایمانوئل والرسٹین (Emmanuel Wallerstein)، تشویش کے ساتھ کہتے ہیں؛ "عالمی نظام (پڑھئے: امریکی وڈیرا پن) کے قیام میں ہماری پیشرفت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ امام خمینی کا نظریۂ ولایتِ فقیہ ہے ... تمام نظریات وقت گذرنے کے ساتھ معدوم اور متروک ہو کر تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں، لیکن [امام] خمینی کا نظریۂ ولایتِ فقیہ ہر روز پہلے سے زیادہ تازہ اور با طراوت ہو رہا ہے اور بہت سے مسلمانوں کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔"
بے جا نہ ہوگا کہ موجودہ [پندرہویں] صدی میں اسلامی انقلاب کے انجام کو حضرت امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) کی آنکھ سے بھی دیکھ لیں جن کی نگاہ کبھی بھی خطا سے دوچار نہیں ہوئی۔ فرماتے ہیں: "اس صدی [چودہویں صدی ہجری قمری] کے آخر میں [کامیاب ہونے والی] ایران کی اسلامی تحریک اگلی صدی میں امت مسلمہ کی تقدیر بدل دے گی"۔ (2)
6۔ اور ہاں! اگرچہ تمام شواہد اور قرائن اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران آج چوٹی پر ہے لیکن دشمن سازشوں اور دشمنیوں سے پیچھے نہیں ہٹا ہے اور ہمارا اور تسلط پسند اور استکباری عالمی نظام کا آمنا سامنا بدستور جاری ہے۔ مگر دشمن نے گذشتہ 43 برسوں سے اپنے تمام تر دستیاب وسائل کو انقلاب اسلامی اور اس سرزمین اور اس کے عوام کے خلاف استعمال کیا ہے اور مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں کر سکا ہے۔ اقتصادی جنگ اور نرم جنگ، دشمن کے تازہ ترین - اور شاید آخری - حربے ہیں، اور اس کارزار کے میدان ذرائع ابلاغ نمایاں اور فیصلہ کن کردار ادا کررہے ہیں۔
7۔ اب ہم امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے ان حکیمانہ الفاظ پر غور فرمائیں۔ آپ اربعین کی عزاداری کے آخر میں نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "مسئلۂ <تبیین> [تفسیر یا تشریح] کو اہمیت دیں، بہت سے حقائق ہیں جن کی تبیین و تشریح ضروری ہے، اس گمراہ کن اقدام کے مقابلے میں جو سو سمتوں سے ملت ایران کے خلاف جاری ہے، اور رائے عامہ کو متاثر کر رہی ہے، [اور یہ اثرگذاری] اور افکار کو ابہام سے دوچار کرنا اور لوگوں بالخصوص نوجوانوں کے ذہنوں کو ابہام اور حیرت میں گھیر کر چھوڑنا ایران، اسلام اور اسلامی انقلاب کے دشمنوں کے بڑے مقاصد میں سے ایک ہے، "تحریک تبیین" (تحریک تشریح و تفسیر) دشمن کی اس سازش اور دشمن کے اس اقدام کو ناکام بناتی ہے۔ صحیح افکار کو، درست افکار کو شائع کرسکتے ہیں، اعتراضات و مسائل کے جواب کو، ابہام آفرینیوں کے جواب کو اس فضا میں، اس امکان سے استفادہ کرکے، شائع کر سکتے ہیں اور اس میدان میں صحیح معنوں میں جہاد کر سکتے ہیں۔
8۔ ہماری اور ہمارے رقیب کے دو مضبوط پہلو اور کمزور پہلو [دونوں کے ہاں مضبوط پہلو بھی ہیں اور کمزور پہلو بھی]؛ دشمن کا مضبوط پہلو اس کی مضبوط ابلاغیاتی و تشہیری قوت ہے؛ اور اس لحاظ سے ہمارے اور ہمارے دشمن کے درمیان کافی فاصلہ ہے؛ (گوکہ خوش قسمتی سے یہ فاصلہ وقت کے ساتھ ساتھ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے)۔ اور ہمارا مضبوط پہلو اسلام اور انقلاب کا پرکشش، عقلی اور انسانی پیغام ہے اور ہمارے امام (رضوان اللہ تعالی علیہ) کے بقول: "آج دنیا خالص محمدی(ص) اسلام کی تعلیمات کی پیاسی ہے"۔ اس لحاظ سے ہمارے مخالفین ہمارے نقطۂ نظر کا مقابلہ کرنے کے قابل ہونے سے عاجز ہیں؛ اور اسی وجہ سے اس نے افکار و آراء کے تبادلے کے بجائے پیغام رسانی میں جعل سازی کا سہارا لیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم پوری جرات کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ نرم جنگ کے میدان میں بھی دشمن کے ہاتھ خالی ہیں اور یہی وجہ ہے دشمن اپنے خالی ہاتھوں کے خالی پن کا ازالہ کرنے کی غرض سے شکوک و شبہات، جعل سازی، حقائق کو مسخ کرنے، کردار کُشی اور خاص طور پر اپنے پانچویں ستون (Fifth Column) اور دشمن کے اندرونی ایجنٹوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔
یہ تاثر پہلی نظر میں حیران کن معلوم ہو سکتا ہے لیکن تمام شواہد اور دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ نرم جنگ کے میدان میں امریکی حملہ بھی دفاعی نوعیت کا ہے اور پہلا دھچکا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بنیادوں پر اسلامی انقلاب نے لگایا ہے اور عالمی استکباری کیمپ کو درہم برہم کر دیا ہے۔ نرم جنگ کے میدان میں، - اور زیادہ واضح الفاظ میں - "تشریحی جہاد" میں بھی ہمیں بالادستی حاصل ہے۔ ہمیں صرف دشمن کے کمزور پہلؤوں کو پہچاننا ہوگا اور بالکل اسی نقطے کو نشانہ بنانا ہوگا ۔۔۔ اور اس سلسلے میں کہنے کے لئے باتیں بہت ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: حسین شریعتمداری، ایڈیٹر انچیف روزنامہ کیہان
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ "لَقَدْ كُنتَ فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَذَا فَكَشَفْنَا عَنكَ غِطَاءكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ؛ یقینا تو اس سے غفلت کے عالم میں رہا، اس سے، تو اب ہم نے تیری آنکھ سے پردہ ہٹا دیا تو آج تیری نگاہ بہت تیز ہے" (سورہ ق، آیت 22)۔
2۔ صحیفۂ امام، ج10، ص364۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
110