اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
منگل

5 اپریل 2022

2:17:57 PM
1245064

مدافعین حرم اور ہماری ذمہ داریاں(2)

عربوں میں اگر جنگ ختم ہو جاتی تو سیاہ علم کے بعد سفید علم لہرایا جاتا اور اگر بناٸے جنگ باقی ہوتی تو سرخ علم لہرایا جاتا، اسی روایت کے مطابق حسین (ع) کے روضہ اقدس پر سرخ علم لہرا رہا ہے کہ ہر زاٸر اور ہر دیکھنے اور سننے والا جان لے کہ کربلا کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوٸی۔

بقلم سویرا بتول

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ جو حقائق ہم نے بیان کیے، اِن سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ اب یہ سوال کہ کیسے ممکن ہے کہ حرمِ جنابِ زینب سلام اللہ علیہا خطرے میں ہو، ان حقائق کی روشنی میں اس سوال کا جواب بآسانی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ بنو امیہ کی آلِ رسول سے بغض اور کدورت کی داستان فقط کربلا تک محدود نہیں۔ بعد از کربلا شامِ غریباں میں شہداٸے کربلا کے سر کاٹ کر نیزوں پر چڑھاٸے گئے اور ان کی لاشوں پر گھوڑے دوڑاٸے گئے۔ شہدائے کربلا کے پسماندگان میں مخدراتِ عصمت و طہارت کے سروں سے نیزوں کے ذریعے چادریں چھینی گئیں اور اُن سروں کو بے ردا کیا، جنہیں کبھی سورج کی کرنوں نے بھی نہیں دیکھا تھا۔ بعد از کربلا حامیانِ حسین علیہ السلام کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کیا، خانہ کعبہ پر منجنیقوں سے حملہ کیا اور غلافِ کعبہ کو جلایا۔مسجدِ نبوی میں گھوڑے باندھے اور تین روز مسجد میں اذان و نماز نہیں ہونے دی۔مدینے کی ایک ہزار سے زیادہ کنواری لڑکیوں کو زنا سے حاملہ کیا۔ سید زادیوں کا تعاقب سندھ تک کروایا اور مشن میں ناکامی پر محمد بن قاسم کو گدھے کی کھال میں سی کر زندہ جلایا گیا۔

اگر آلِ رسول سے بغض کی بنا پر بنو امیہ کی طرف سے ظلم و بربریت کی یہ داستان رقم کی جاسکتی ہے تو پیرورانِ بنو امیہ کی جانب سے حرمِ جنابِ زینب سلام اللہ علیہا پر بمباری کیوں ممکن نہیں؟ صحنِ حرم پر راکٹ گراٸے جانے پر اتنا تعجب کیوں؟ ایک بار پھر بی بی زینب سلام اللہ علہیا کو اسیرکیا گیا اور ایک بار پھر یزید دوراں نے ظلم و بربریت کی داستان رقم کی اور اگر ہم اس ظلم پر آواز بلند کرتے ہیں تو غیر تو کیا اپنے سوالات اٹھاتے ہیں۔ اصل وجہ یہ ہے کہ اہل اسلام کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے نہ اُس وقت سقیفاٸی حکومت کے پسِ پردہ عناصر کو پہچانا اور نہ آج پہنچانتے ہیں۔ یہ تو بس سیدھے سادے مسلمان ہیں، جو کسی بکھیڑے میں نہیں پڑتے اور وہ عناصر اِن کی سادگی کا فاٸدہ اٹھا کر آج تک اپنی اسلام دشمن کاررواٸیوں میں مصروف ہیں۔

ہمیں یاد ہے کہ جب ہم مدافعین حرم پر شب و روز لکھا کرتے تھے تو ایک دن ایک صاحب ہم سے فرمانے لگے کہ آپ کو اس سب سے کیا ملے گا؟ ہر بار مدفعین حرم پر کیوں لکھا جاٸے؟ کیوں اپنے لیے مشکلات کھڑی کر رہیں ہیں؟ ہمارا ایک سادہ سوال ہے، کیا کربلا صرف رونے کے لیے ہے؟ کربلا کا درسِ حریت سے ہم نے کچھ درک نہیں کیا؟ آج کا یزید ببانگ دہل یہ نعرہ بلند کر رہا کہ میں ایک بار پھر علی کی شیر دل بیٹی کو اسیر کروں گا، وہ آگ جو در سیدہ پر آٸی، اُسی آگ کے شعلوں میں صحن کے حرم کو خاکستر کر دوں گا اور ہم خاموش تماشاٸی ہیں۔ کیا یہی ہیں حسین (ع) اور زینب (ع) سے عشق کے تقاضے۔؟ یہی وجہ ہے کہ بنوامیہ آل رسول پر ظلم و بربریت کے مرتکب ہونے کے بعد بھی مسلمان ٹھہرے اور ان کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو تب بھی کافر گردانا گیا اور آج بھی ان کے خلاف کافر کافر کے نعرے لگواٸے جاتے ہیں اور ان کے قتل و غارت پر بظاہر کلمہ گو مسلمانوں کو جنت کا لالچ دیکر ابھارا جاتا ہے۔

ان حالات میں ہمیں سوچنا چاہیئے کہ جب مذکورہ ٹراٸیکا آج تک خاموش نہیں بیٹھی، تو ہم کیوں خاموش ہیں؟ کیا سیدہ زینب کے روضہ مبارک کی بےحرمتی پر چند جلوس نکال کر ہماری ذمہ داری پوری ہو جاتی ہے؟ کیا اس بے حرمتی کے مرتکبین ہمارے احتجاج سے ڈر کر آٸندہ کے لیے ایسی حرکتوں سے باز رہیں گے؟ کیا اس سے پہلے بھی ہم نے مذکورہ ٹراٸیکا کے گماشتے صدام کی حکومت میں روضہ سیدالشہداء کی بےحرمتی پر ایسے ہی احتجاج نہیں کیے تھے؟ کیا سامرہ میں امامین کے روضہ اقدس پر بمباری پر ہمارے احتجاج نے کچھ اثر دکھایا؟ افسوس کے ساتھ ایسا کچھ نہ ہوا، کیونکہ ہمارے جذبات میں وقتی ابال آتا ہے اور احتجاجی جلوسوں کی صورت اپنا غم و غصہ نکال کر ہم پھر ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔

ہم زیارات کے لیے بڑی تگ و دو اور عقیدت سے پہنچتے ہیں، مگر ہمیں نہ کبھی حسین علیہ السلام کی صداٸے استغاثہ سناٸی دی اور نہ کبھی ہم نے حسین (ع) کے روضے پر لہراتے سرخ عَلَم کو دیکھا ہے۔ شاید ہی کبھی کسی زاٸر نے سوچا ہو کہ اسلام کا پرچم تو زمانہ امن میں سفید اور زمانہ جنگ میں سیاہ تھا پھر حسین (ع) کے روضے پر سرخ علم کیوں ہے؟ عربوں میں اگر جنگ ختم ہو جاتی تو سیاہ علم کے بعد سفید علم لہرایا جاتا اور اگر بناٸے جنگ باقی ہوتی تو سرخ علم لہرایا جاتا، اسی روایت کے مطابق حسین (ع) کے روضہ اقدس پر سرخ علم لہرا رہا ہے کہ ہر زاٸر اور ہر دیکھنے اور سننے والا جان لے کہ کربلا کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوٸی۔

بقول جوش
جب تک اس خاک پہ باقی ہے وجودِ اشرار
دوشِ انساں پہ ہے جب تک چشم تخت کا بار
جب تک اقدار سے اغراض ہیں گرمِ پیکار
کربلا ہاتھ سے پھینکے گی نہ ہرگز تلوار
کوٸی کہ دے یہ حکومت کے نگہبانوں سے
کربلا اک ابدی جنگ ہے سلطانوں سے
چونکہ کربلا کی جنگ ابھی باقی ہے اس لیے عصرِ عاشورحسین (ع) کا استغاثہ:
"ھل من ناصر ینصرنا" بھی ابھی تک فضا میں گونج رہا ہے اور حسین (ع) پکار پکار کر اپنے ناصروں سے کہہ رہے ہیں کہ طاغوت اور اس کے پجاریوں کے خلاف میری مدد کو آٶ! میری مدد کو آٶ!

جاری۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242