اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اسلام ٹائمز
منگل

5 اپریل 2022

2:17:54 PM
1245063

مغربی عالمی نظام کا زوال، یوکرین جنگ کا دوسرا رخ

شاید یوکرین کے خلاف روس کی فوجی کاروائی اور چین کے مخصوص ردعمل کو ایک ایسی ملٹی پولر دنیا کے قیام کا پیش خیمہ قرار دیا جا سکتا ہے جس نے ابھی سے مغربی دنیا کو اپنا نظام قبول کرنے پر مجبور کر ڈالا ہے۔

بقلم مریم خرمائی

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ "دنیا تبدیل ہو رہی ہے اور واشنگٹن سمیت ہر جگہ ہمیں اس حقیقت کو قبول کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔" یہ ویانا میں عالمی تنظیموں کے مرکزی آفس میں روس کے مستقل نمائندے مائیکل ایلیانوف کے الفاظ ہیں جو انہوں نے حال ہی میں اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھے ہیں۔ انہوں نے یہ بات ایک اور ٹویٹر پیغام کے جواب میں کہی جس میں کہا گیا تھا: "یوں محسوس ہوتا ہے کہ لاطینی امریکہ میں چین کے مقابلے میں امریکہ کے اثرورسوخ میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس خطے میں موجود کل 31 ممالک میں سے 20 ممالک کے ساتھ چین کی تجارت 2020ء سے 2022ء کے دوران 300 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے اور یہ بات امریکہ کیلئے بہت تشویش کا باعث ہے۔" اسی طرح ایک اور موقع پر مائیکل ایلیانوف نے یورپی کمیشن کی سربراہ کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

یورپی کمیشن کی سربراہ آرزیلا فاونڈرلائن نے ایک آنلائن اجلاس میں چینی حکام کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کچھ امور بیان کئے اور تاکید کی کہ انہیں اس کی پابندی کرنی چاہئے۔ مائیکل ایلیانوف نے اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا: "یہ محترمہ ایسا کیوں سمجھتی ہیں کہ وہ ایک بڑی طاقت کو ڈکٹیٹ کر سکتی ہیں اور اسے کہہ سکتی ہیں کہ ایسا کرو اور ایسا نہ کرو؟" ہم ایک طرف روسی سفارتکاروں کی جانب سے عالمی سطح پر چین کی پوزیشن مضبوط بنانے میں جرات کا مظاہرہ کرنے کا مشاہدہ کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف دیکھتے ہیں کہ چینی سفارتکار بھی یوکرین جنگ کے بارے میں موقف کا اظہار کرتے ہوئے روس کے حق میں ایسی ہی جرات کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ دن پہلے چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایسا ہی موقف اختیار کیا ہے۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان جاو لی جیان نے امریکہ کی نمائندگی میں نیٹو کو یوکرین میں رونما ہونے والے بحران کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا: "نیٹو اتحاد سابق سوویت یونین کے زوال کے وقت ہی ختم ہو جانا چاہئے تھا۔" اگر ہمیں 2019ء میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی جانب سے نیٹو کی "مغزی موت" پر مبنی بیان یاد ہو تو ہم بخوبی سمجھ پائیں گے کہ چین کی جانب سے "نیٹو کے خاتمے" پر مبنی مطالبہ مغرب کیلئے کس قدر شدید دھچکہ ثابت ہو سکتا ہے۔ چین کا یہ موقف دراصل انڈوپیسیفک نامی میدان جنگ میں حقیقی ٹکراو سے پہلے ایک قسم کا سفارتی مقابلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ البتہ چین اب بھی عالمی سطح پر رونما ہونے والے بحرانوں سے متعلق غیر جانبدار پالیسی اختیار کرنے پر کاربند ہے لیکن اب ماضی کی طرح محتاط انداز اپنانا چھوڑ چکا ہے۔

چین کی جانب سے ماسکو کے سکیورٹی تحفظات کا خیال رکھنے پر زور، روس کے ساتھ معمول کے مطابق تجارتی تعلقات جاری رکھنے پر اصرار، مغرب کی جانب سے یکطرفہ پابندیوں کی عدم افادیت پر تاکید اور روس کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار، یہ تمام امور ظاہر کرتے ہیں کہ چین اور روس کے درمیان جاری اتحاد ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور یورپ اور امریکہ کو اس سے خوفزدہ ہونا چاہئے۔ اس بات کا واضح ثبوت چین کے وزیر خارجہ وانگ ای کا وہ جملہ ہے جو انہوں نے حال ہی میں افغانستان سے متعلق اجلاس کے دوران اپنے روسی ہم منصب سرگے لاوروف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ انہوں نے کہا: "عالمی سطح پر تبدیل ہوتے حالات کی اس کٹھن گھڑی میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔"

اس سے ملتا جلتا جملہ چین کے صدر شی جین پینگ نے بھی بولا ہے۔ انہوں نے شمالی کوریا کے صدر کم جانگ اون کو مخاطب قرار دیتے ہوئے نئے حالات میں پیانگ یانگ اور بیجنگ کے درمیان تعلقات کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ ان نئے حالات کو سمجھنے کیلئے شاید روسی وزیر خارجہ سرگے لاوروف کے یہ جملے مفید ثابت ہو سکیں جو انہوں نے اپنے چینی ہم منصب کو کہے تھے: "ہم بین الاقوامی تعلقات عامہ کی تاریخ کے اہم موڑ سے گزر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس کے بعد عالمی صورتحال بہت حد تک واضح ہو جائے گی اور ہم آپ اور دیگر ہم خیال اقوام کے ساتھ مل کر ملٹی پولر، منصفانہ اور جمہوری عالمی نظام کی جانب گامزن ہوں گے۔" درحقیقت چین اور روس عالمی سطح پر قائم ہوتے ہوئے طاقت کے نئے توازن کی جانب اشارہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ چین اور روس خود کو امریکی طاقت اور اثرورسوخ کے مقابلے میں ایسے ممالک کے طور پر پیش کر رہے ہیں جو اپنی حق خود ارادیت اور قومی مفادات کے تحفظ کی بھرپور صلاحیت کے حامل ہیں۔

شاید یوکرین کے خلاف روس کی فوجی کاروائی اور چین کے مخصوص ردعمل کو ایک ایسی ملٹی پولر دنیا کے قیام کا پیش خیمہ قرار دیا جا سکتا ہے جس نے ابھی سے مغربی دنیا کو اپنا نظام قبول کرنے پر مجبور کر ڈالا ہے۔ وہ مغربی دنیا جسے یکہ تازی کی عادت ہو چکی ہے۔ امریکہ کی جانب سے عالمی سطح پر انرجی کی تجارت برقرار رکھنے کیلئے وینزویلا جیسے ملک کی جانب ہاتھ بڑھانا، جو ایک عرصے سے اسی کی شدید اقتصادی پابندیوں سے روبرو ہے، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نئے عالمی نظام میں "طاقتور" اور "کمزور" ممالک کی تعریف بدلتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف روس نے عالمی سطح پر اپنی قومی کرنسی میں کاروبار کرنے کا فیصلہ کر کے ڈالر کے اثرورسوخ کو بھی نشانہ بنا ڈالا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر ایشیائی ممالک روس کے اس فیصلے پر عملدرآمد کیلئے تیار دکھائی دیتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242