اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اسلام ٹائمز
ہفتہ

2 اپریل 2022

9:18:05 AM
1243898

سعودی عرب نے جنگ بندی کیوں کی؟

سعودی عرب مختلف محاذ قائم کر کے مشرق اور مغرب سے صنعاء تک پہنچنے کی بھرپور کوشش میں مصروف رہا ہے اور اسے ان تمام کوششوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس حوالے سے سعودی عرب کی تازہ ترین شکست حجہ کے محاذ پر ہوئی اور وہ کسی قسم کی فوجی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔

بقلم: محمد رضا فرہادی

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ یمن کی سپریم کونسل کے سربراہ کی جانب سے جنگ بندی کی پیشکش کی گئی جس کے بعد سعودی حکمرانوں نے اعلان کیا کہ انہوں نے خلیج تعاون کونسل کے سربراہ کی درخواست پر جنگ بندی قبول کر لی ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت سامنے آیا جب خلیج تعاون کونسل نہ تو فعال ہے اور نہ ہی اس کی بات کو کوئی اہمیت دیتا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے جنگ بندی کی پیشکش قبول کئے جانے کی متعدد وجوہات ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:

1)۔ میدان جنگ کی صورتحال
سعودی عرب مندرجہ ذیل تین وجوہات کی بنیاد پر میدان جنگ میں کامیاب نہ ہو سکا اور اپنا کوئی مقصد بھی حاصل کرنے میں ناکام رہا:

الف)۔ یمنی افواج کی جانب سے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات اور دیگر اہم مراکز کو نشانہ بنائے جانے کے بعد ریاض جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہوا ہے۔ البتہ میدان جنگ کی صورتحال گذشتہ چند سالوں سے یمن کے حق میں تبدیل ہو چکی تھی۔ الحدیدہ میں یمن آرمی کے فوجی آپریشن خاص طور پر مارب شہر کی آزادی نے سعودی سربراہی میں عرب اتحاد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ایسی صورتحال میں سعودی عرب بعض یورپی ممالک کی مداخلت سے میدان جنگ کی صورتحال اپنے حق میں تبدیل کرنے کی شدید کوشش کرتا رہا لیکن اسے کوئی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ اگرچہ مغربی ممالک گذشتہ آٹھ برس کے دوران سعودی اتحاد کی بھرپور حمایت کرتے رہے تھے لیکن بعض مواقع پر براہ راست جنگ میں بھی شامل ہوئے۔

ب)۔ سعودی عرب مختلف محاذ قائم کر کے مشرق اور مغرب سے صنعاء تک پہنچنے کی بھرپور کوشش میں مصروف رہا ہے اور اسے ان تمام کوششوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس حوالے سے سعودی عرب کی تازہ ترین شکست حجہ کے محاذ پر ہوئی اور وہ کسی قسم کی فوجی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔

ج)۔ گذشتہ ایک برس سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان فوجی میدان میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یہ اختلافات اس قدر شدید تھے کہ بعض مواقع پر دونوں ممالک کی فورسز یمن میں آمنے سامنے آ گئیں اور ان کے درمیان فوجی جھڑپیں بھی انجام پائیں۔ عدن میں سعودی حمایت یافتہ سابق یمنی صدر منصور ہادی اور متحدہ عرب امارات کی فورسز میں کئی بار ایسی جھڑپیں انجام پا چکی ہیں۔

2)۔ فوجی حالات
یہاں ہماری فوجی حالات سے مراد سعودی عرب کے فوجی حالات خاص طور پر جنگ پر انجام پانے والے اخراجات ہیں۔ غیر سرکاری رپورٹس کے مطابق سعودی عرب نے یمن کے خلاف جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک تقریباً 300 ارب ڈالر اس جنگ پر خرچ کئے ہیں۔ یہ رقم اردن کے سالانہ بجٹ سے 18 گنا زیادہ ہے۔ یہ بھاری بھرکم اخراجات زیادہ تر مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ، برطانیہ اور جرمنی سے اسلحہ خریدنے پر انجام پائے ہیں۔

3)۔ علاقائی حالات
سعودی عرب خود کو خطے کی ایک طاقت تصور کرتا ہے جبکہ یمن کی جنگ نے بعض مغربی ممالک کی نظر میں اس کے اس تصور کو بہت زیادہ ٹھیس پہنچائی ہے۔
دوسری طرف خطے میں سعودی عرب کے حریف ممالک خاص طور پر قطر نے گذشتہ چند سالوں سے خطے میں جنم لینے والے بحرانوں سے متعلق غیر جانبدارانہ پالیسی اختیار کی ہے اور یوں خطے میں اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کیا ہے۔ سعودی عرب کیلئے یہ بات قابل قبول نہیں ہے لہذا وہ خطے کی سطح پر اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کا خواہاں ہے۔ موجودہ حالات میں یمن جنگ کا خاتمہ اس مقصد کے حصول کیلئے مفید ثابت ہو سکتا ہے لہذا سعودی حکمرانوں نے جنگ بندی کا فیصلہ کیا ہے۔

4)۔ حقیقت پسندی
آل سعود رژیم گذشتہ کئی سالوں سے یمن جنگ کے بحران سے باہر نکلنے کی کوشش میں مصروف تھی۔ البتہ وہ کچھ نہ کچھ کامیابی حاصل کر کے جنگ ختم کرنا چاہتی تھی۔ سعودی حکمران ہر گز نہیں چاہتے تھے کہ انصاراللہ ایک طاقت بن کر سامنے آئے۔

اسی وجہ سے انصاراللہ یمن کے خلاف شدید ترین محاصرہ قائم کر رکھا تھا اور امریکہ نے بھی اسے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا تھا۔ سعودی حکمران اس کے علاوہ بھی اقوام متحدہ میں قرارداد 2216 منظور کروا کر انصاراللہ کو یمن کے سیاسی عمل میں شرکت سے محروم کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اب سعودی حکمران اس حقیقت کو قبول کر چکے ہیں کہ انصاراللہ یمن ملک کی ایک مضبوط اور اہم سیاسی کھلاڑی ہے اور اسے کسی قیمت پر سیاست سے بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا 8 سال بعد سعودی عرب کی جانب سے جنگ بندی قبول کئے جانا انصاراللہ یمن کی بہت بڑی فتح ہے۔ اگرچہ ممکن ہے سعودی حکمران ماضی کی طرح مستقبل میں بھی جنگ بندی کی خلاف ورزی انجام دیتے رہیں لیکن یہ جنگ بندی انصاراللہ یمن کی مزید کامیابیوں کا زمینہ فراہم کرے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242