اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
جمعرات

31 مارچ 2022

3:43:19 PM
1243364

امن پسند انصاراللہ کی فتح

یہ منصوبہ درحقیقت ایک جامع منصوبہ اور انصاف پسندانہ منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کی رو سے جنگ کے آغاز میں یمنی عوام کے خلاف اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرارداد نمبر 2216 اپنی افادیت کھو جاتی ہے اور اب جبکہ مغرب اور مغرب کی خدمت پر مامور تنظیموں کی سازش ناکام ہوچکی ہے اور یمن اپنی مقاومت سے دشمن کی سازشوں کو ناکام بنا چکا ہے، تو اقوام متحدہ کی ذمہ داری بنتی کہ اس تازہ صورت حال کو مد نظر رکھ کر نئی قراردادیں منظور کرے اور منصفانہ مصالحت کے لئے راستہ ہموار کرے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ گزشتہ سے پیوستہ

۔ شمالی یمن میں قومی یکجہتی
ایک اور نکتہ قومی اتحاد ہے جو آج یمن میں بالخصوص اس ملک کے شمال میں ابھرا ہے اور تمام اختلافات کو پس پشت ڈال کر تجربہ کار زعماء اور قبائلی عمائدین نوجوان، خوش تدبیر اور مجاہد راہنما سید عبدالملک بدرالدین الحوثی کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ شمالی یمن میں، مرکزی حکومت کے خلاف کوئی مؤثر قبائلی مخالفت نہیں پائی جاتی، اور عبدالمالک کی قیادت کی جامعیت کی وجہ سے اختلافات کم ہو گئے ہیں۔


۔ بنی سعود اپنی خود ساختہ دلدل سے نکلنے کے لئے کوشاں
بنی سعود کے ان دنوں کے رویوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مغرب کی طرف جنگ جاری رکھنے پر اصرار کے باوجود، یمن میں اپنی خودساختہ دلدل سے نکلنے کے لئے کوشاں ہے۔ فریقین کے اسلحے اور فوجی وسائل اور ان کی افادیت کا موازنہ کیا جائے تو یہ بات بڑے پیمانے پر تسلیم کی گئی ہے کہ سعودی عرب اس دلدل میں مسلسل دھنستا چلا گیا ہے اور اس کے لئے بھاری اخراجات اٹھانا پڑے ہیں۔ ادھر بائیڈن نے انتخابی مہم میں وعدہ دیا تھا کہ خطے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام کے برعکس ایک نیا ماحول بنائیں گے، لیکن وہ بھی سعودیوں کی طرف کی ہتھیاروں کی خریداری سے حاصل ہونے والی آمدنی کو نظر انداز نہیں کرسکے ہیں اور یمن مخالف اتحاد کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں، اور بدستور صہیونی ریاست اور برطانیہ کے ساتھ ایک قابل مذمت تکونے کا حصہ ہیں اور یہ تکونا یمنی عوام کے خلاف اپنے حملوں میں اضافہ کرنے کا خواہاں ہے۔ لیکن حکمت عملی کے میدان میں یمن کی جدوجہد اور تحریک کے راہنماؤں کی کیاست و ذہانت نے بنی سعود اور اس کے آقاؤں اور اتحادیوں کو زمین بوس کر دیا ہے؛ اور یمن کے دشمن مقاومت کی اس شاخ کو بھی شکست دینے میں شکست سے دوچار ہوئے ہیں۔


۔ اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف
اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف بھی مدبرانہ رہا ہے اور اس نے جنگ کے خاتمے کے لئے واضح چار نکاتی منصوبہ پیش کیا ہے جو یمنی-یمنی مذاکرات، منصفانہ امن و آشتی، یمن کی ظالمانہ ناکہ بندی کے خاتمے، اور ہمہ گیر اور وسیع البنیاد جنگ بندی پر مرکوز ہے۔ پچھلے پانچ سالوں کے دوران، جب سے یہ منصوبہ تیار کیا گیا ہے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ کوئی دوسرا منصوبہ اس کی جگہ نہیں لے سکا ہے۔ منصوبے کے نکات کچھ یوں ہیں:
1- جنگ بندی کا قیام اور تمام غیر ملکی حملوں کی فوری بندش۔
2- یمنی عوام کے لئے فوری اور بغیر کسی رکاوٹ کے انسانی امداد ترسیل۔
3- یمنیوں ہی کی قیادت، اور سیاسی جماعتوں اور سماجی گروپوں کے نمائندوں کی موجودگی میں، یمن کے قومی مذاکرات کی بحالی۔
4۔ یمن میں قومی اتحاد کی وسیع البنیاد حکومت کا قیام۔
یہ منصوبہ درحقیقت ایک جامع منصوبہ اور انصاف پسندانہ منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کی رو سے جنگ کے آغاز میں یمنی عوام کے خلاف اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرارداد نمبر 2216 اپنی افادیت کھو جاتی ہے اور اب جبکہ مغرب اور مغرب کی خدمت پر مامور تنظیموں کی سازش ناکام ہوچکی ہے اور یمن اپنی مقاومت سے دشمن کی سازشوں کو ناکام بنا چکا ہے، تو اقوام متحدہ کی ذمہ داری بنتی کہ اس تازہ صورت حال کو مد نظر رکھ کر نئی قراردادیں منظور کرے اور منصفانہ مصالحت کے لئے راستہ ہموار کرے۔


۔ امن پسند انصاراللہ کی فتح
یمن پر خائنوں کی یلغار کے وقت ہی رہبر معظم امام سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے فرمایا تھا کہ "سعودی اس جارحیت میں منہ کی کھائیں گے اور کسی صورت میں بھی فتح نہیں پا سکیں گے" اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ گدشتہ دو ہفتوں کے دوران انصار اللہ نے سعودی عرب کے اہم اقتصادی اور فوجی مراکز پر بڑے حملے کئے۔ ریاض، ابہا اور خمیس مشیط کے ہوائی اڈوں سمیت جدہ میں سعودی تیل کمپنی "آرامکو" کی تنصیبات ظہران میں پانی صاف کرنے والے پلانٹ نیز سعودیوں کے پانی کے ذخائر کو نقصان پہنچایا اور سعودی تیل کی برآمدات کو متاثر کیا جس کے بعد انصار اللہ نے تین دن تک یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کرکے خبردار کیا کہ اگر سعودی عرب نے اس مہلت سے فائدہ نہ اٹھایا تو اس کو شدیدترین حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گویا انصاراللہ کو - موٹے دماغ کے مالک سعودی حکام کو امن و آشتی کی ضرورت کا احساس دلانے کے لئے - ایک دندان شکن حملے کا سہارا لینا پڑا۔ جو بظاہر مؤثر واقع ہؤا ہے اور سعودیوں نے گویا ہوش کے ناخن لئے ہیں اور انھوں نے یمن پر اپنے حملے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ گوکہ ہنوز انصاراللہ کی طرف کی شرطوں - یعنی یمن کی ناکہ بندی کے خاتمے اور یمن سے سعودی گماشتوں کے غیر مشروط انخلاء - پر عملدرآمد کا باقاعدہ اعلان نہیں ہؤا ہے۔ سعودیوں نے اپنے اعلان میں کہا ہے کہ وہ امن مذاکرات کے لئے راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں! جس میں کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سعودی کافی عرصے سے یمن سے انخلاء کے لئے آبرومندانہ راستہ تلاش کررہے تھے، مغرب کو یوکرین پر روسی حملے کے بعد نئی صورت حال کا سامنا ہے اور ان کے لئے بھی سعودی تیل کی ضرورت ہے جس کی برآمد جنگ جاری رہنے کی صورت میں ممکن نہ تھی؛ انصار اللہ نے حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی ہیں اور جنگ کو سعودی عرب اور امارات کے اندر تک پہنچایا ہے، اور ان کے پاس جنگ بندی کے اعلان کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا ہے۔ بہرحال اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس جنگ میں یمنی مقاومت اور اس کے راہنما اور کمانڈر اور مجاہدین کو فتح نصیب ہوئی ہے اور ان کے بدخواہوں کو منہ کی کھانا پڑی ہے؛ اور مغربی-عبرانی-عربی محاذ اور اس کے سعودی-نہیانی گماشتوں کو قطعی شکست ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: فرحت حسین مہدوی
اس مضمون میں مغربی ایشیا کے مسائل کے ایرانی تجزیہ نگار ڈاکٹر سید رضا صدر الحسینی، کے مضمون سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے۔

منبع: فاران تجزیاتی ویب سائٹ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242