اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
بدھ

30 مارچ 2022

12:27:32 PM
1243058

سات سالہ جنگ میں مغربی-عبرانی-عربی محاذ کی شکست اور انصار اللہ یمن کی ناقابل انکار فتح

آج سے سات سال قبل دنیا کی کھلی آنکھوں کے سامنے، مغرب اور صہیونیت کے کہنے پر، سعودی-نہیانی اتحاد نے مغربی ایشیا کے ایک غریب ملک یمن پر ہلہ بول دیا۔ اس حملے کے لئے سعودیوں نے ایک اتحاد قائم کیا جس میں اصل کردار آج تک جزیرہ نمائے عرب پر مسلط قبیلے بنی سعود اور متحدہ عرب امارات کے حکمران نہیانی قبیلے نے ادا کیا ہے۔

اہلبیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ مسلمانوں کی مقدس سرزمین پر مسلط سعودی قبائلی نظام ان دنوں یمن میں اپنی ہی خودساختہ دلدل اور بھنور سے نکلنے کے لئے ہاتھ پیر مار رہا ہے اور مجاہد یمنی راہنماؤں کی انتہائی زیرکانہ حکمت عملی کے باعث یمن دشمن اتحاد مسلسل اس بھنور میں دھنستا جا رہا ہے اور یمنی مجاہدین نے اس اتحاد کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے یہاں تک کہ اب جارح اتحاد کی طرف سے امن اور مذاکرات کی باتیں ہو رہی ہیں۔
آج سے سات سال قبل دنیا کی کھلی آنکھوں کے سامنے، مغرب اور صہیونیت کے کہنے پر، سعودی-نہیانی اتحاد نے مغربی ایشیا کے ایک غریب ملک یمن پر ہلہ بول دیا۔ اس حملے کے لئے سعودیوں نے ایک اتحاد قائم کیا جس میں اصل کردار آج تک جزیرہ نمائے عرب پر مسلط قبیلے بنی سعود اور متحدہ عرب امارات کے حکمران نہیانی قبیلے نے ادا کیا ہے۔ بنی سعود نے دعویٰ کیا تھا کہ دو یا تین ہفتوں میں یمن ہتھیار ڈال دے گا اور 2011ع‍ کے بعد اسلامی بیداری کی تحریک کے بعد انقلاب قوتوں کی اٹھان کچل دی جائے گی اور یمن میں جو کچھ سعودی اور نہیانی چاہیں گے وہی ہوگا اور اس کے قدرتی وسائل بھی سعودی قبضے میں آجائیں گے۔ لیکن تین ہفتوں کا یہ عرصہ 7 سال تک پہنچا اور یہ جنگ اب انصار اللہ کے کچھ حملوں اور ایک انتباہ ختم ہونے کو ہے؛ کیونکہ ہم مسلسل اس حقیقت کے بھی عینی گواہ ہیں کہ یمنی عوام اپنی مقاومت (Resistance) کو کامیابی سے آگے بڑھاتے رہے ہیں۔
آج کی صورت حال یہ کہ گذشتہ دنوں ایک ہی ساتھ یمنیوں نے بنی سعود کی عملداری میں 18 مقامات پر کامیاب کاروائیاں کرکے سعودی قبیلے کو بےبس کردیا۔ یمنیوں نے عالمی سطح پر توانائی کی قیمتوں پر اثر ڈالا بلکہ صحیح نشانے پر لگنے والے ہتھیاروں کے اس حملے نے سعودی عرب کو بہت مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ یہ حملے انٹیلی جنس کی صحیح نگرانی کے بعد طاقتور اور نقطہ زن (صحیح نشانے پر لگنے point hitting) میزائلوں اور ڈرونز کے ساتھ کئے گئے تھے جو طویل فاصلہ طے کرکے سعودی عملداری کے دور دراز تک پہنچتے ہیں اور مغرب اور صہیونی دشمن کے عطا کردہ طیارہ شکن و میزائل شکن میزائل سسٹم کو بے اثر کر دیتے ہیں حالانکہ ان ہتھیاروں کی قیمت سعودی ہتھیاروں سے کہیں زیادہ سستے ہین۔ مغرب جو روس کے ایندھن سے محروم ہونے کی صورت میں سعودی تیل پر انحصار کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا لیکن ان کا خواب بھی یمنیوں کے حالیہ اور مستقبل کے حملوں کی صورت میں شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا۔ یمنی راہنما مہدی المشاط نے مذکورہ حملوں کے بعد سعودی اتحاد کو جنگ بندی کے لئے تین دن کی مہلت دینے کا اعلان کیا تھا۔
اس سعودی عرب کے اٹھارہ مقامات پر یمنیوں کے حملوں کی تصاویر سماجی میڈیا میں گردش کر رہی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یمنیوں نے بنی سعود کو بھاری نقصانات سے دوچار کیا ہے۔ ان حملوں میں ریاض، ابہا اور خمیس مشیط کے ہوائی اڈوں سمیت جدہ میں سعودی تیل کمپنی "آرامکو" (Arabian American Oil Company [ARAMCo.]) کی تنصیبات ظہران میں پانی صاف کرنے والے پلانٹ نیز سعودیوں کے پانی کے ذخائر کو نشانہ بنایا۔

۔ انصار اللہ یمن کے تمام مقدرات کو اپنے ہاتھ میں لے کر عالمی سامراجی نظام کو ایک حساس جغرافیائی خطے مفلوج کرکے رکھ دیا
آج کے زمانے کا معجزانہ پہلو یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے مظاہر نے بین الاقوامی نظام پر عظیم ترین اثرات مرتب کئے ہیں۔ بطور مثال حزب اللہ ایک ملک یا ریاست نہیں بلکہ ایک جماعت ہے لیکن آج لبنان کے تمام تر شعبوں نیز خطے کے کچھ حصوں میں سب سے زیادہ مؤثر اور عظیم کردار کا نام ہے۔ ادھر انصاراللہ یمن کے نصف رقبے پر حکمرانی کرتی رہی ہے لیکن اس نے اس اہم جغرافیائی خطے میں استعماری نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ ہم سب کو جان لینا چاہئے کہ انصار اللہ اس سات سالہ عرصے میں صرف سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ان سے مالی امداد کی توقع رکھنے والے بعض ممالک ہی سے ہی نہیں نمٹی بلکہ اس نے اس جنگ میں امریکہ، برطانیہ، بقیہ یورپی ممالک اور صہیونی ریاست کو شکست دی ہے اور ان ممالک کو بھی جو اس جنگ میں براہ راست ملوث رہے ہیں یا سعودیوں اور اماراتیوں کو فوجی امداد دیتے رہے ہیں۔ ایک قوم کے اتحاد اور بے مثل جانفشانی کا ثمرہ یہ ہے کہ پورا مغربی نظام اور اس کے علاقائے چیلے ایک طرف ہیں اور ایک یمنی جماعت یمنی قوم کی مدد سے دوسری طرف ہے اور دنیا آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہی ہے کہ انصاراللہ اس کی قوم اور ان کی دھرتی مظلومانہ مقاومت کے ذریعے کامیاب ہو رہی ہے اور ان کے بڑے بڑے دشمن شکست کھا رہے ہیں۔

یمن پر مغربی-عبرانی-عربی یلغار کے آٹھویں سال کے آغاز پر چند نکات بہت اہم ہیں:
- یمن کی انصاراللہ تحریک کے قائد سید عبدالملک بدرالدین الحوثی الطباطبائی کی طرف توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ اس سید بزرگوار نے اپنے اخلاص و تقویٰ اور دینی تعلیمات پر عبور نیز تاریخ اسلام میں ہونے والی تمام تحریکوں پر پوری توجہ دی ہے اور دنیا جانتی ہے کہ وہ خاص طور پر امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) کے انقلاب اور ایران میں دفاع مقدس سے متاثر ہیں اور نوجوان ہونے کے باوجود، سات سال کے قلیل عرصے میں کئی پہلوؤں کے ساتھ ایک ہمہ جہت انقلابی اور سیاسی رہنما کا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ چنانچہ ان دنوں ہمارے لکھنے والوں کو - میڈیا میں ان کے کردار کے تئیں - کسی قسم کی بے حسی سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ ہم سب [مقاومت کو عالم اسلام اور امت کی عظمت کا ضامن سمجھنے والے لکھاری] پر واجب ہے کہ سید عبدالملک کے کردار کو اپنے تحقیقی اور تحریری ایجنڈے میں سر فہرست رکھیں۔

۔ انصاراللہ کی فوجی صف بندی کی تبدیلی / نمائندے اقوام متحدہ کے مگر ایجنٹ مغرب اور بنی سعود کے
- سنہ 2019ع‍ سے انصاراللہ کی فوجی صف بندی بدل گئی اور مجاہدین نے دفاعی جنگ کے ساتھ ساتھ حملے بھی شروع کئے۔ یہ بہت اہم اور کامیاب حربہ تھا اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس زمانے سے میدان کی صورت حال بھی یکسر تبدیل ہو چکی ہے اور جارحوں اور ان کے سرپرستوں کے رویوں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔
- یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ یمن کے عوام کو بری، بحری اور فضائی طور پر گھیر لیا گیا ہے: 360 ڈگری کی ناکہ بندی۔ لیکن ان کے ہاں مقاومت ایک تسلیم شدہ دائمی ابدی اصول ہے؛ وہ اپنی پوری تاریخ میں استقامت کرتے آئے ہیں اور فوجی، سیاسی اور معاشی میدانوں میں بڑی کامیابی حاصل کر تے رہے ہیں اور موجودہ ایام اس حقیقت کا ثبوت ہیں۔
- ایک نکتہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے نمائندے بدقسمتی سے، غیر جانبدار نہیں ہیں اور اس عالمی ادارے کے غیر جانبداری کے دعؤوں کے برعکس یا تو مغرب کی طرف مائل ہیں یا پھر سعودی دربار سے رشوت لے کر بن سلمان کے وفادار ہیں۔ جب سے مغرب اور مغرب کے مفاد کے لئے بننے والی سب سے بڑی عالمی تنظیم "اقوام متحدہ" نے یمن کے لئے اب تک چار نمائندے متعین کئے جو سب کے سب مغرب اور سعودی عرب اور ان کے مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں رہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو مستقبل قریب میں - امریکی عالمی نظام کے زوال کے بعد عالمی تنظیم نو کے دوران موجودہ عالمی اداروں کے نقائص کی فہرست میں درج ہوگا۔
- اگلا نکتہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کے نام پر بجٹ لینے والے مختلف اداروں نے آج تک - یمن میں انسانی حقوق کی پامالی کے عجیب واقعات پر کوئی مؤثر اور حقیقی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے جبکہ یہی ادارے یوکرین میں جنگ زدہ عوام اور بے گھر ہونے والوں کی حمایت کے سلسلے میں زَمِین آسْمان کے قُلابے ملا رہے ہیں، یوکرینیوں کو بےتحاشا ہتھیار فراہم کررہے ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک سے دہشت گرد اکٹھے کرکے روس کے خلاف لڑنے کے لئے یوکرین بھیج رہے ہیں۔ یقینا یوکرین کے متاثرین بھی مدد کے مستحق ہیں مگر یمن میں بھی تو انسان رہتے ہیں اور یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ کا پیشہ اختیار کرنے والے ادارے یوکرین کے لئے بیان اور پیغام جاری کرتے رہیں اور وہاں کے لوگوں کے لئے امدادی قافلے روانہ کریں، اور وہاں وقوع پذیر ہونے والے "مبینہ" المیوں کے سلسلے میں پریس کانفرنسیں منعقد کریں حالانکہ ان اداروں کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہاں کے المیوں کے بارے میں مبالغہ آرائیاں ہو رہی ہیں، لیکن یمن میں سات سال سے جاری نسل کشی پر یا مجرمانہ خاموشی اختیار کریں یا "تشویش" ظاہر کرکے خاموش ہو جائیں۔
- اگلا نکتہ اس حقیقت کی طرف توجہ دینے کی ضرورت کی طرف توجہ دلانا ہے کہ یمن میں انصار اللہ اور قومی نجات حکومت کی عملداری میں عوام کی معاشی، سیاسی اور عوام کے سماجی حالات اور سلامتی کی صورت حال جنوب یمن سے کہیں بہتر رہی ہے؛ جبکہ جنوب میں سعودی عرب، مغرب، اور صہیونی دشمن - حتی کہ اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ اور ریاض کے کسی گمنام ہوٹل میں رہائش پذیر - یمن سے بھاگنے والے مستعفی یمنی صدر منصور ہادی کے گماشتے حکومت کررہے ہیں۔ جنوب میں بیرونی قوتوں سے وابستہ جماعتوں کے درمیان مسلسل کشمکش اور سعودیوں اور نہیانیوں کے عقیدتمندوں نیز مقامی قبائل کے درمیان مسلسل جھڑپیں جاری رہی ہیں۔ شمال میں قومی نجات حکومت کے تحت دستیاب وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا گیا ہے، امن و امان 100٪ قائم ہے اور عوام امن و سکون کے ساتھ جیتے رہے ہیں، گوکہ انہيں بنی سعود اور بنی نہیان کی بکثرت اور اندھادھند بمباریوں کا سامنا بھی رہا ہے جو عوام کا چین و سکون چھینتے رہے ہیں۔
اس جنگ میں انصار اللہ اور ثابت قدم یمنی قوم کی عقلیت، پختگی، طاقت اور صلاحیت اس مقام پر پہنچی کہ آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے ہی تزویراتی تفکر کی روشنی میں بروقت حکمت عملیوں پر مبنی کامیاب اور مؤثر کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔ دریں اثنا، مغربی-عبرانی-عربی محاذ نے گذشتہ سات سال کے عرصے سے جاری جارحیت کے دوران مختلف دھڑوں اور جماعتوں کو انصاراللہ کے خلاف منظم اور مسلح کیا ہے جن میں القاعدہ سمیت مختلف دہشت گرد ٹولے اور مقامی اور قبائلی دھڑے شامل ہیں، اور اس کے خلاف مختلف محاذ کھولے ہیں لیکن انصار اللہ نے اہداف اور ترجیحات کا درست تعین کرکے ان سازشوں کو ناکام بنایا ہے، اور کوئی بھی ابلاغیاتی الٹ پھیر، تشہیر بازی اور ضمنی اقدامات انہیں سعودی عرب کو شکست دینے کی اہم حکمت عملی سے منحرف نہیں کر سکے ہیں؛ جو یقینا بہت اہم نکتہ ہے جو یمنی مجاہدین کی فکری بالغ نظری، تجربہ کاری اور پختگی کو ظاہر کرتا ہے جسے یمنی قیادت نے آج تسلط پسند عالمی نظام اور یمن مخالف اتحاد کے خلاف مقاومت کے میدان میں ثابت کرکے دکھایا ہے۔

جاری۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242