اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
بدھ

16 مارچ 2022

8:47:38 PM
1239993

اردوگان اور ہرزوگ بھائی بھائی!

اردوگان کی دوہری پالیسیوں نے بین الاقوامی سطح پر ترکی کی پوزیشن کو متزلزل کرکے رکھ دیا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ بدھ 9 مارچ 2022ع‍ کو غاصب یہودی ریاست کا سربراہ اسحاق ہرزوگ نے ترکی کے اخوانی صدر رجب طیب اردوگان کی سرکاری دعوت پر ترکی کا دورہ کیا۔ 2008ع‍ کے بعد یہ کسی اعلی اسرائیلی اہلکار کا ترکی کا پہلا اعلانیہ دورہ تھا۔
سنہ 2010ع‍ میں اردوگان کا بھجوایا ہؤا امدادی بحری جہاز "مرمرہ" غزہ کے ساحل پر پہنچا تو صہیونی فوجی دستوں نے اس پر حملہ کیا اور متعدد افراد کو قتل کیا۔ 2018ع‍ میں غاصب ریاست نے غزہ پر حملہ کیا اور بےشمار فلسطینیوں کو قتل کیا تو اردوگان نے یہودی ریاست کے سفیر کو انقرہ سے چلتا کردیا؛ اور یوں ترکی اور غاصب ریاست کے درمیان تعلقات میں کشیدکی آئی۔
عجیب ہے کہ جس ریاست کو ترکی جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لئے ان ممالک کی شرطیں قبول کرنا پڑتی ہیں، مگر ہرزوگ نے کچھ شرطین جناب اردوگان سے منوا کر ترکی کا دورہ کیا۔
صہیونی ریاست نے ہرزوگ کے دورے سے قبل شرط رکھی تھی کہ ترکی کو فلسطین کی مقاومتی تنظیم حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ "حماس" کی حمایت سے دستبردار ہونا چاہئے اور ترکی میں حماس کا دفتر بند کرنا چاہئے!
صہیونیوں کی شرطوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رجب اردوگان نے خود ہی غاصب ریاست کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لئے قدم اٹھایا ہے گوکہ انقرہ کی اخوانی حکومت میں اس طرح کا اشتیاق کئی برسوں سے دکھائی دے رہا تھا۔ بہرحال جو تعلق اس انداز سے بحال ہو جاتا ہے اس میں توازن کی توقع رکھنا بے جا ہوگا اور غاصب اسرائیل کو ہی ترکی کے مقابلے میں سیادت اور فوقیت حاصل ہوگی۔
اردوگان حالیہ چند برسوں کے دوران اسرائیل کی فلسطین دشمن پالیسیوں کے خلاف سخت اور تلخ لب و لہجے پر مبنی موقف اپناتے رہے تھے اور ان کا موقف ابلاغیاتی ہنگامہ خیزی کے ہمراہ سامنے آتا رہتا تھا۔ ایک ایسی ریاست کے ساتھ تعلقات کی طویل المدت خواہش، جس نے گذشتہ برسوں میں فلسطین کے خلاف بہت سارے ہولناک جرائم کا ارتکاب کیا ہے، اب یہ ثابت کرتی ہے کہ ان کا ماضی کا موقف - جو صرف زبانی کلامی تھا - ایک ڈھونگ کے سوا کچھ نہ تھا اور یہ موقف ان کے ذاتی اور جماعتی مفادات کے لئے ہی تھا؛ ان کا فلسطینی کاز کا جھوٹا دفاع مسلم ممالک کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے اور انہیں اپنے ساتھ ملانے کا بہانہ تھا۔ انھوں نے در حقیقت ان مواقع کو - خود کو - اسلامی دنیا میں ایک مُقتدیٰ اور قائد و زعیم کے طور پر متعارف کرانے اور ایک اعلیٰ نظریاتی پوزیشن حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا۔
اردوگان کے ارادے اب طشت از بام ہوچکے ہیں اور غاصب ریاست کے سربراہ کے دورہ ترکی کے بعد یہ رسوائی انتہا تک پہنچ گئی ہے؛ جیسا کہ انھوں نے ہرزوگ کے دورے کو دو طرفہ تعلقات میں ایک نیا موڑ قرار دیا اور حتی کہ اسرائیل کو بھائی قرار دیا: اردوگانی-یہودی مواخات! (1)
اس کے باوجود کہ اردوگان کسی صورت میں بھی اسرائیل کے ساتھ دوطرفہ تعلق اور تعاون کے خاتمے کے روادار نہیں رہے ہیں، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ عمومی فکری اور عملی رجحانات سے فائدہ لے کر عثمانی سلاطین کی جانشینی حاصل کرکے ایک بار پھر عرب دنیا پر مسلط ہونے کو سپنے دیکھ رہے ہیں اور اسی بنیاد پر انھوں نے شام، لیبیا اور عراق میں اپنے فوجی دستے بھی تعینات کئے ہیں اور قطر میں ایک اڈہ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؛ چنانچہ شاید ان دنوں وہ عرب دنیا کے عمومی رجحان سے متاثر ہوکر بھی، اسرائیل کی طرف مائل ہوئے ہوں؛ اور اب جبکہ مصر اور اردن کے بعد سعودی عرب، امارات، بحرین، اور مراکش بھی یہودی ریاست کے ساتھ بحالی کی دوڑ میں مصروف ہیں، اور خطے کی زعامت کا مسئلہ نئے رجحانات سے متاثر ہوکر نئی ڈگر پر چل نکلا ہے تو اردوگان بھی ان ہی کی دوڑ میں شامل ہونا چاہتے ہیں؛ کیونکہ وہ مزید فلسطین کی آزادی کے حوالے سے اپنی مثالیت کے پرفریب نعرے کے ساتھ ان ممالک کے ساتھ لین دین نہیں کرسکتے اور ان عربوں کو اس حوالے سے مزید دھوکہ نہیں دے سکتے جن کے حکمران فلسطین کو بھول کر فلسطین کے غاصبوں کے آگے سجدہ ریز ہوچکے ہیں۔ [یوٹرن لینے اور رنگ بدلنے کا اردوگانی اسٹائل]۔
اردوگان نے غاصب صہیونی دشمن کی تمام شرطیں قبول کرلیں تو ہرزوگ نے ان کی دعوت قبول کرلی؛ سوال یہ ہے کہ "ترکی میں حماس کا مستقبل کیا ہوگا؟"؛ حماس کے اردوگان کی انصاف و ترقی پارٹی کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور اردوگان کے فلسطین کے حوالے سے ظاہری مدافعانہ کردار کا ایک سبب یہ بھی تھا؛ لیکن اردوگان نے اسرائیل کے کہنے پر ان قربتوں کو تضاد اور تبایُن کی طرف دھکیل دیا ہے۔
بعض خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ترکی نے کافی عرصے سے خطے کے بعض ممالک کے ساتھ خفیہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تھا اور عین ممکن ہے کہ ان مذاکرات سے ترکی میں حماس کے دفتر کی کسی دوسرے ملک منتقلی مقصود ہو۔ ادھر ترکی کی اخوانی حکومت نے حماس [میں "اپنے سابقہ ہم مسلکوں"] کو بتایا ہے کہ اس کے عسکری اہلکار اور کارکنان کو ترک سرزمین سے چلے جانا چاہئے اور حماس کے دفتر کی سرگرمیوں کو صرف سیاسی حدود میں محدود رہنا چاہئے؛ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل کے اقدامات کی منصوبہ سازی پہلے ہی انجام پا چکی ہے۔
حماس نے ہرزوگ کے دورہ ترکی پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں غم و غصے کا عنصر جھلک رہا ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ "جن ممالک کو مقبوضہ فلسطین کی تزویراتی گہرائی سمجھا جاتا ہے، ان میں غاصب صہیونی ریاست کے اہلکاروں کا آنا جانا، باعث تشویش ہے، اور ترکی سمیت مسلم ممالک کو چاہئے کہ وہ اسرائیل کو خطے میں اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع نہ دیں"۔
حالات بتا رہے ہیں کہ ترک صدر غاصب اسرائیلی ریاست کے ساتھ سنجیدہ اور گہرے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے درپے ہیں اور عین ممکن ہے کہ وہ اس مقصد کے لئے ماحول سازی کے مقصد سے اپنا اسرائیل مخالف موقف خودمختار فلسطینی اتھارٹی کی سطح پر تنزّل دے۔
مجموعی طور پر اردوگان کے دوہرے رویوں نے ثابت کیا ہے کہ ترکی کا سیاسی ڈھانچہ متزلزل ہے اور بین الاقوامی سطح پر صدر اردوگان کے فیصلے ناقابل پیش بینی (unforeseeable) ہوتے ہیں جس کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی اور عالم اسلام میں بھی اس ملک کی ساکھ کو زبردست دھچکا لگ رہا ہے۔
اور دوہری پالیسیاں اور مختلف اوقات میں ان کا منافع پرستانہ رویہ، انہیں پہلے سے زیادہ ناقابل اعتبار بنا دے گا اور ان کی پوزیشن کو نقصان پہنچائے گا۔ یہ کیفیت ملک کے اندر انتخابات کی آمد پر، کچھ زیادہ نمایاں ہے۔ ترک عوام نے یہودی ریاست کے سربراہ کے دورے پر شدید احتجاج کیا، اسرائیلی پرچم کو نذر آتش کیا اور صہیونی دشمن کے خلاف نعرے لگا کر اردوگان کے نعروں اور اقدامات کی مخالفت کا اعلان کیا۔
فلسطینی قوم کے ساتھ ایک خیانت اور
اس سے پہلے شام پر یلغار کرنے والے دہشت گرد شام کا تیل چرا کر ترکی کو فی بیرل 10 ڈالر بیچتے تھے اور جناب اردوگان اسی چوری کے تیل کو یورپیوں کے ہاتھوں بیچتے رہے اور اب قابض یہودی ریاست بحیرہ روم میں فلسطینیوں کے گیس کے ذخائر سے گیس نکال کر پائپ لائن کے ذریعے یورپ پہنچانے کے درپے ہے جس کے لئے غاصب ریاست نے ترکی کو مناسب سمجھا ہے اور ہرزوگ کے دورہ ترکی میں زیر بحث آنے والے مسائل میں سے ایک یہی منصوبہ تھا۔ صہیونی ریاست برسوں سے اس منصوبے پر کام کررہی تھی اور اب جبکہ یوکرین کے واقعے کے بعد یورپ روس سے درآمدہ اپنی ضرورت کی 40 فیصد گیس سے اپنی وابستگی کم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تو اس منصوبے پر ایک بار پھر کام شروع ہؤا ہے۔ [پھر چوری کا مال جو اسرائیلی ریاست فلسطینیوں سے چرا رہی ہے اور اردوگان اس کی فروخت کا وسیلہ ہونگے]۔
اردوگان یورپ کی ضروریات پوری کرنے میں کردار ادا کرکے یورپ اور امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہیں گے اور ساتھ ہی ترکی کو خود بھی گیس کی ضرورت ہے کیونکہ وہ اس سے پہلے اپنی توقعات کردوں کے ہاتھوں جوری ہونے والی عراق کی گیس سے توقع باندھے ہوئے تھے جس کی درآمد عراق کی وفاقی عدالت کے فیصلے کی وجہ سے ممکن نہ ہو سکی۔ عدالت نے کردستان کی مقامی حکومت کی طرف سے تیل اور گیس کی برآمدات کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
امریکہ اور یورپ آج روسی گیس کے لئے متبادل تلاش کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں قطر ہی نہیں بلکہ وینزویلا جیسے ممالک سے بھی مذاکرات کر چکے ہیں جن پر مغرب نے پابندیاں لگا رکھی تھیں۔ تاہم دوسری طرف سے بالکل واضح ہے کہ روس کی طرف سے تیل اور گیس کی فروخت پر پابندی لگنے کے امکان کی وجہ سے ایندھن کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے؛ چنانچہ مغربی ممالک دوسرے ممالک کے ساتھ گیس کے معاملے میں بات چیت کی افواہیں اڑا کر درحقیقت ایندھن کی قیمتوں میں اضافے اور اندرون ملک عوامی دباؤ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیونکہ فلسطینی ساحلوں سے نکلنے والی گیس یا حتی کہ وینزوویلا اور قطر سے برآمد ہونے والی گیس روسی گیس کا متبادل نہیں بن سکتی اور پھر اس طرح کے کسی بھی منصوبے کے لئے بہت زیادہ وقت درکار ہے۔ ہاں مگر ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ ترکی اپنی ضرورت کی گیس ایران سے درآمد کرتا ہے اور یہودی ریاست ایران کے ساتھ اپنی دیرینہ دشمنی کی بنا پر ترکی کو گیس فراہم کرکے ایران سے آنے والی گیس کی درآمد کا خاتمہ کروانا چاہتی ہے اور ساتھ ساتھ ایران اور ترکی کی پرامن سرحدوں کو بدامنی سے دوچار کرنا چاہتی ہے جس کے لئے وہ ترکی کے ساتھ گہرے روابط قائم کرنے کے لئے کوشاں ہے۔
غاصب اسرائیلی ریاست عراق کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لئے بھی ترکی سے فائدہ اٹھانا چاہے گی۔ عراق کے ساتھ تعلقات کے لئے ماحول کی فراہمی کے لئے اس سے پہلے کئی خفیہ بیٹھکیں بھی ہوئی ہیں اور عراق میں سرگرم عمل متعدد امریکی کمپنیوں میں اسرائیلی کارکنوں کو بھرتی کیا گیا ہے، بعض عراقی اہلکاروں کے ساتھ اسرائیلیوں کی ملاقاتوں کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ علاوہ ازیں شمالی عراق کے صوبے کردستان کے دارالحکومت اربیل میں امریکی اور اسرائیلی اڈے بھی قائم ہوئے ہیں، خلیج فارس کی عرب ریاستوں میں بھی صہیونی اپنا رسوخ بڑھا رہے ہیں؛ ادھر ایران کی نئی حکومت نے بھی پڑوسی ممالک کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر تعاون کا اعلان کیا ہے چنانجہ غاصب اسرائیلی ریاست ایران کو علاقے میں تنہا کرنے کی ناکام کوششیں کر رہی ہيں۔
البتہ ابتدائی طور پر اربیل میں صہیونی اڈوں پر ایران کے بیلسٹک میزائلوں کے حملوں نے صہیونی منصوبوں پر کاری ضرب لگائی ہے اور یوکرین میں روس کی خصوصی کاروائی کے بعد اسرائیل اور مغرب کی طرف رجحان میں کافی کمی آئی ہے؛ کیونکہ عالمی صورت حال تیزی سے بدلنے لگی ہے اور مغرب کی بالادستی کو روس نے چیلنج کیا ہے اور اس صورت حال میں صرف سادہ لوح حکمران اسرائیل کے دامن میں پناہ لینے کے لئے کوشش کرسکتے ہیں اور اس کے ساتھ تعلقات کو اپنی نجات کا وسیلہ سمجھ سکتے ہیں۔
اردوگان یہودی ریاست کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سفارتی تعلقات استوار کرکے اپنی اقتصادی بدحالی کی بہتری کی امید رکھے ہوئے ہیں لیکن وہ شاید نہیں جانتے کہ وہ اندرونی سطح پر بھی اور علاقائی سطح پر بھی ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار ہورہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اندرونی سیاسی اور معاشی مسائل اور اپنے گرد و نواح کے ممالک کے ساتھ جنگی صورت حال سے دوچار اور حماس اور حزب اللہ سے شکست کھانے والی غاصب اسرائیل کے ساتھ تعلقات سے کسی ملک کو بھی کوئی خاص فائدہ نہيں ملتا سوا اس کے، کہ اس تعلق سے امریکہ اور یورپ کی ہمدردیاں حاصل کرنا مقصود ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں مغرب کے ساتھ معاشی اور سیاسی روابط قائم کرنا ممکن ہوجاتا ہے اور سلامتی کے حوالے سے بھی تعاون کا راستہ کھل جاتا ہے! لیکن امریکہ اور یورپ بھی فی الحال بحرانوں سے دوچار ہیں اور وہ بھی ترکی کی مدد کو نہیں آسکتے کیونکہ وہ نیٹو کے سانچے میں ترکی سے روس کے خلاف اقدامات کے حوالے سے کچھ توقعات رکھتے ہیں جنہیں ترکی برآوردہ نہیں کرسکتا اور اگر اس ہنگامی صورت حال میں جناب اردوگان مغرب کی مدد نہ کریں تو اسرائیل کی خوشامد بھی کچھ کام نہ آئے گی۔
انقرا یوکرین کی جنگ میں ثالثانہ کردار ادار کرنے کا خواہاں ہے لیکن عملی طور پر غیرجانبدار نہیں ہے، وہ یوکرین کو ہتھیار فراہم کرتا ہے، غاصب اسرائیل سے گیس یورپ تک پہنچا کر روس کو بائی پاس کرنا چاہتا ہے، چنانچہ جناب اردوگان روس کے ہاں قابل اعتماد ثالث بننے کی صلاحیت بھی کھو چکے ہیں اور یورپ کو بھی فوری طور پر کوئی ریلیف پہنچانے سے عاجز ہیں، چنانچہ اسرائیلی گیس منصوبے کا مستقبل بھی چنداں روشن نہیں ہے۔
صہیونی ریاست کا ثقافتی وار
صدر اردوگان نے ہرزوگ کو ترکی بلا کر اسلامی دنیا کے ایک اہم رکن ملک میں بیٹھ کر مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی صہیونی کوششوں کو جاری رکھا اور دروغ گوئی اور جعلی پن کی یہودی خصلت کو بروئے کار لاتے ہوئے کہا: "دو ملکوں کے عوام ابراہیم (ع) کے فرزند ہیں اور ابراہیم (ع) اللہ کے مؤمنوں کے باپ ہیں اور ہمیں مشترکہ مستقبل کے لئے تمام تر اختلافات کا خاتمہ کرنے کے لئے کوشاں رہنا چاہئے"۔ یہ وہ الفاظ مکارانہ الفاظ ہیں جو "معاہدہ ابراہیم" کے ضمن میں بھی آئے ہیں جس کی رو سے تعلقات کی بحالی کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ اور 70 سال سے عربوں اور مسلمانوں کا خون بہانے والی صہیونی ریاست آج اپنے ستر سالہ جرائم چھپانے کے لئے امن اور پرامن بقائے باہمی کے نعرے لگا کر اقوام عالم کی سوچ اپنے ساتھ ملانے کے لئے کوشاں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رپورٹ: فائزہ سادات یوسفی:
ترجمہ و تکمیل: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ یہ تو اخوان کا حال ہے ادھر سیکولر عربوں کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی وہابی حکومت بھی اور خلیج فارس کی چھوٹی ریاستوں کے حکمران بھی اردوگان ہی کی کشتی میں سوار تل ابیب کے آگے کرنش کررہے ہیں؛ جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اخوانی، وہابی اور سیکولر نسخے عزت و آبرو پر مبنی حکمرانی میں ناکام ہوچکے ہیں اور عزت و عظمت کا واحد کامیاب نسخہ مقاومت (=مزاحمت) ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242