اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعہ

11 مارچ 2022

8:18:11 PM
1238217

یوکرین کی جنگ اور مغربی ماکیاولیت؛

انسانی حقوق سے لے کر فیفا تک؛ تمام کے تمام جھوٹے اور دوہرے معیار

جنگ یوکرین کے حقائق نے ایک بار مغرب قانونی اور ایک بار پھر مسلمہ اخلاقی اصولوں کے مقابلے میں مغربی نظام کے اخلاقی اور قانونی زوال کو فاش کرکے رکھ دیا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ یوکرین میں روسی فوجی کاروائی کے آغاز کے لمحے کے بعد سے دنیا کے باسی مغربی ممالک کی طرف سے ایسے مناظر، بیانات اور اقدامات کا مشاہدہ کررہے ہیں جو کچھ لوگوں کے لئے اس سے قبل ناقابل یقین تھے۔ یوکرین نے بہت اچھی طرح سے مغربی اصولوں اور اقدار کے سجے دھجے خول کو ہٹا دیا تا کہ غیر مغربی دنیا اس حقیقت کا عینی مشاہدہ کر سکے کہ جس وقت یورپ اور امریکہ کو سلامتی کے حوالے سے تشویش لاحق ہو تو وہ سابقہ تمام اصولوں اور اپنے ہی وضع کردہ قوانین کو ذرہ برابر اہمیت بھی نہیں دیتے۔
الجزائری اخبار "الشروق" کے کالم نگار "عبدالحمید العثمانی" نے لکھا کہ روس-یوکرین جنگ کے اثرات نے نام نہاد "آزاد مہذب" مغرب کی نسل پرستی، مغربی اشرافیہ اور مغربی میڈیا کے جھوٹ اور ان کے مبینہ انسان دوستی پر مبنی نعروں میں دوہرے معیارات کو فاش کر دیا ہے۔ روسی یلغار سے نمٹنے کے لئے مغربی ممالک کی یکجہتی، اور اسی اثناء میں افغانستان اور عراق پر قبضے، لیبیا کی تقسیم، شام کی تباہی اور یمن کو جلانے کے حوالے سے اقوام متحدہ کے تمام اصولوں کو پاؤں تلے روندنا، اسی دوہرے پن کے مصادیق ہیں۔
العثمانی لکھتے ہیں: برطانوی وزیر خارجہ پوری گستاخی کے ساتھ اپنے ملک اور دوسرے یورپی شہریوں کو یوکرین میں لڑنے کے لئے تیار کر رہی ہیں؛ لیکن اگر کوئی عراق، بوسنیا اور دوسرے ممالک میں جارحین کے خلاف لڑنا چاہیں تو یہی مغربی ممالک ان پر دہشت گردی کا الزام لگاتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ انھوں نے عراقیوں اور فلسطینیوں کو ہتھیار خریدنے سے محروم کر دیا لیکن آج وہ جدیدترین ہتھیار، طیارہ شکن میزائل اور مختلف النوع فوجی وسائل یوکرین بھیجوا رہے ہیں۔ انھوں نے ستر برسوں کے دوران فلسطینیوں کے خلاف صہیونیوں کے جرائم و مظالم اور مسلسل جنگی جرائم کو نظرانداز کیا ہے لیکن آج وہ یوکرینیوں کے لئے مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں اور روس کو دشمن قرار دیتے ہیں۔
دہشت گرد یا ہیرو؟
واضح رہے کہ یورپ، غاصب صہیونی ریاست، ترکی اور شام میں ترکی کے زیر قبضہ علاقوں سے ہزاروں داعشی اور دوسرے دہشت گرد ٹولوں کے اراکین یوکرین بھجوائے جا رہے ہیں۔ ترک صدر جناب رجب طیب اردوگان، جنہوں نے کسی وقت شامی عوام اور حکومت کے خلاف ہزاروں داعشیوں اور اخوانیوں کو مختلف ٹولوں کے سانچے میں مبینہ جہاد کے لئے بھیجوایا اور اس وقت شمالی شام پر قابض ہیں، اپنے پروردہ دہشت گردوں کو ایک عیسائی ملک "یوکرین" کو تحفظ دینے کے لئے دوسرے عیسائی ملک کے خلاف لڑنے کے لئے بھجوا رہے ہیں جہاں وہ یوکرین کی اینٹ سے اینٹ بجائیں گے جس طرح کہ انھوں نے شام کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور "شہادت" بھی پائیں گے اور "شہادت پسندانہ [خودکش] کاروائیاں" بھی کریں گے۔
العثمانی لکھتے ہیں: اگر فلسطین میں صہیونی غاصبوں کے خلاف اور عراق اور افغانستان میں امریکی جارحوں کے خلاف شہادت پسندانہ [استشہادی] کاروائی کریں تو مغربی ذرائع ابلاغ اور حکومتوں کے خیال میں یہ لوگ دہشت گرد شمار ہونگے اور ان کی کاروائی "خودکش دہشت گردی" سمجھی جائے گی لیکن اگر اس طرح کی کاروائیاں روس کے خلاف انجام پائیں تو مغرب کی قاموس میں بہادرانہ (heroic) کاروائیاں سمجھی جائیں گی اور ان حملوں میں کردار ادا کرنے والے افراد کو سورما سمجھا جائے گا۔
العثمانی کے کالم کے اہم نکات:
یہاں تک کہ بین الاقوامی ادارے بھی مغرب کے ہاتھوں کے اوزار ہیں اور گواہ یہ ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے یوکرین پر روسی حملے کے صرف چار روز بعد روس کے خلاف ازخود اقدام کیا جبکہ عشروں سے فلسطین اور عراق کی شکایات اس عدالت کی ردی کی ٹوکریوں کی نذر ہوتی رہی ہیں۔
جہاں تک فیفا (International Federation of Football Association [FIFA]) کا تعلق ہے تو یہ ادارہ آج تک ان عرب اور مسلمان کھلاڑیوں اور سپورٹس فیڈریشنوں کو فلسطین کی حمایت کرنے پر سزائیں دیتا رہا ہے [ور کھیل کے میدان میں کوئی بھی سیاسی نعرہ اور سیاسی اقدام کو "حرام سمجھتا رہا ہے] مگر آج اس نے کھیل کے میدان میں ہی یوکرین کے ساتھ یورپ کی یکجہتی کے نعروں کو ایک انسان دوستانہ اقدام سمجھتا ہے اور اس سلسلے میں تمام سابقہ قوانین اور ضوابط کو نظر انداز کرتا ہے۔
ان تضادات کی بنا پر ہی آئرلینڈ کے ایک رکن پارلیمان رچرڈ بائیڈ برٹ (Richard Boyd Burt) نے خاموشی کی مہر توڑ دی اور مغرب کے دوہرے معیاروں کو فاش کر دیا ہے اور کہا ہے: "یوکرین پر روسی حملے کے صرف پانچ دن بعد، صدر پیوٹن پر شدید پابندیاں لگائی گئیں اور اسرائیل 70 سال سے فلسطین پر قبضہ کرکے یہاں کے عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے لیکن ابھی تک اس پر کوئی پابندی نہیں لگی ہے"۔
یوکرین کے خلاف روس کی کاروائی کے ساتھ امریکہ اور یورپ کے برتاؤ نے ایک بار ثابت کرکے دکھایا کہ عرب اور مسلم جغرافیے میں مغرب کی تمام تر مداخلتوں کا مقصد تسلط جمانا اور مادی مفادات کا حصول تھا جبکہ یہ مداخلتیں "امن"، "سلامتی"، [جمہوریت]، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جھوٹے بہانوں کے تحت انجام پائی ہیں۔
نیلی آنکھیں اور ابلاغیاتی نسل پرستی
یوکرین کے مسئلے نے مغربیوں کی نسل پرستی کو بھی ثابت کیا [جس کا وہ صدی بھر سے انکار کررہے تھے]۔ اس ابلاغیاتی فتنے نے ان لوگوں کو چونکا دیا ہے جو مغرب کے جھوٹے نعروں کی حقیقت سے غافل تھے یا ان کے دھوکے میں آئے تھے۔ ان لوگوں نے اپنی سماعتوں سے ہی مغربی نامہ نگاروں اور اینکروں کی زبان سے نیلی آنکھوں، سنہرے بالوں اور سفید رنگت کے یوکرینیوں کا نوحہ سنا۔ سی بی ایس نے نہایت بے شرمانہ انداز سے کہہ دیا: "یوکرین نہ تو عراق ہے اور نہ ہی افغانستان، بلکہ یہ ایک تہذیب یافتہ یورپی علاقہ ہے اور ہم اس علاقے میں اس طرح کے واقعات نہیں دیکھنا چاہتے"۔
حقیقت یہ ہے کہ یوکرین میں جنگ کی اس صورت حال میں بھی نسل پرستانہ برتاؤ کو نہ بھلایا جاسکا؛ یوکرین میں زیر تعلیم افریقی نژاد طلباء کو یا تو اس جنگ زدہ ملک سے نکلنے ہی نہیں دیا گیا یا پھر انہیں پیچھے رکھا گیا اور یورپی ممالک میں اگر سفید فاموں کو سیاسی پناہ دی گئی تو ان کی پناہ کی درخواستوں کو مسترد کیا گیا۔ یہاں این بی ایس ٹی وی چینل کے نامہ نگار کلے کاپیلا کی چیخوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری نظر آتا ہے جس نے کہا: "یہ شام سے آئے ہوئے پناہ گزین نہیں ہیں، پڑوسی یورپی ملک یوکرین سے آئے ہیں؛ یہ عیسائی مذہب کے پیروکار ہیں، یہ سفید فام ہیں"۔
"بین الاقوامی تعلقات (I.R)" میں دلچسپی رکھنے والے اب بین الاقوامی قانون کے ٹوٹتے ہوئے نظام پر روس یوکرین جنگ کے اثرات کو دیکھ رہے ہیں جو کہ محض فلسفیانہ نظریہ پردازی اور غیر واجب (Non-obligatory) اور غیر نافذ العمل ہدایات پر ہی مشتمل ہے۔ بے شک یوکرین جنگ کی حقیقتوں نے ایک بار پھر مسلمہ اخلاقی اصولوں کے مقابلے میں مغربی قانونی نظام کے زوال کو بے نقاب کر دیا۔
بے شک یوکرین کی جنگ کے مظاہر اور نشانیوں نے مغرب کی جدیدیت کے جعلی اصولوں کے حوالے سے ہمارے تہذیبی شعور و آگہی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ جبکہ غاصب اور قابض و جارح قوتیں ان ہی جعلی اصولوں کو عرب اور مسلم ممالک سے "روڈ میپ" کے طور پر منوانا چاہتی ہیں۔ مغربی قوتیں ان ہی اصولوں کو امن و سلامتی کے نام سے پیش کرتے ہیں حالانکہ ان کا بنیادی مقصد لوگوں کی صلاحیتوں کو مغرب کے مفادات کی تکمیل کے لئے ان ہی کی خدمت پر آمادہ کرنے کے لئے، قابو میں لانا ہے۔ مغربی ممالک پندرہویں صدی عیسوی کے اطالوی سیاستدان نکولائی میکیاولی (Niccolò Machiavelli) کے دورخی نظریئے کی رو سے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے تمام تر بین الاقوامی [قانونی اور اخلاقی] حدود کو پامال کرتی ہیں۔
ہم نے دیکھا کہ مغرب کی اصل حقیقت کے آشکار ہونے کے وقت، صلیبی مذہبی اور نسل پرستانہ رجحانات کس طرح اپنی پوری قوت کے ساتھ ظہور پذیر ہوئے یہ بتانے کے لئے کہ سیکولرزم، جدیدیت، عالمی اقدار اور انسانی حقوق - انتہائی حسن ظن رکھتے ہوئے بھی - صرف مغربیوں کے حقوق [کے لئے] ہیں۔ جبکہ باقی انسانوں کو برابری اور مساوات کے حقدار نہیں سمجھا جاتا؛ ہاں! اگر یہ اصول ہماری دینی اور تہذیبی اقدار سے متصادم ہیں تو ہم ویسے بھی انہیں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہونگے بلکہ جو کچھ ہم چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ مغرب کی روشن خیالی کے حامی [اور مغربی جھوٹ سے مرعوب لوگ] جاگ جائیں تا کہ وہ اگلی نسلوں کو فکری اور نفسیاتی تھرتھراہٹوں اور لرزشوں اور مغربی مرکزیت (western-centricity) کے جھوٹے نظریئے کے سامنے پس جانے سے محفوظ رکھیں، کیونکہ زمانے کے تمام بحرانوں میں بنی نوع انسان کی حفاظت، بقاء، سربلندی اور سعادت کا واحد ضامن "اسلام" ہے۔
۔۔۔۔۔
یوکرین کی جنگ کو کچھ ہی ہفتے ہوئے ہیں اور پورا مغرب یکجا ہوکر یوکرین کی چند روزہ جنگ کے لئے نوحہ گری کررہا ہے جبکہ یمن پر مغربی-عربی-عبرانی جارحیت کے سات سال پورے ہورہے ہیں اور یہ جنگ اپنے آٹھویں سال میں داخل ہورہی ہے۔ اس ظالمانہ جنگ میں اب تک لاکھوں شہید اور زخمی اور کروڑوں بےگھر ہوگئے ہیں، یمن کے بنیادی ڈھانچوں مغرب اور سعودی و اماراتی اور اسرائیلی محاذ نے تباہ و برباد کردیا ہے؛ یمن کی اکثریتی آبادی بھوک اور افلاس کا شکار ہے اور گذشتہ ہفتے یمن کی قومی نجات حکومت کے نائب وزیر خارجہ "حسین العزی" نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں لکھا:
"تاریخ نہیں بھول پائے گی کہ چند عرب ممالک آٹھ برسوں سے یمن پر بمباری کررہے ہیں، یمنیوں کو قتل یا بے گھر کررہے ہیں؛ اور ساتھ ہی یوکرینی پناہ گزینوں کو ویزا دے کر اپنی سرزمینوں میں پناہ دے رہے ہیں"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110