اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
بدھ

9 مارچ 2022

1:48:05 PM
1237680

عبدالباری عطوان: اسرائیل اپنے اتحادیوں کے کندھوں پر سیکورٹی بوجھ بن چکا ہے

عبدالباری عطوان لکھتے ہیں کہ یوکرین کی جنگ میں سب سے بڑا نقصان اسرائیل ریاست کو ہوگا اور یہ ریاست اب اپنے اتحادیوں کے کندھوں پر سیکورٹی بوجھ بنی ہوئی ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ۔ابنا۔ عرب دنیا کے مشہور صحافی اور رأیُ الیوم کے چیف ایڈیٹر عبدالباری عطوان لکھتے ہیں: صہیونی ریاست نے یوکرین کے بحران پر مبہم سا موقف اپنایا ہے اور وہ اس جنگ کے نتائج سے اتنی خوفزدہ ہے جتنی کہ وہ حزب اللہ لبنان کے صحیح نشانے پر لگنے والے بیلیسٹک اور کروز میزائلوں اور ڈرون طیاروں سے خائف ہے۔ یوکرین کی جنگ اس وقت غاصب صہیونی ریاست کے سیاستدانوں اور فیصلہ سازوں کے لئے ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہوچکی ہے کیونکہ اس جنگ کے علاقائی اور بین الاقوامی نتائج و اثرات کا اندازہ لگانا تو درکنار، کوئی اس کی ضمنی کیفیات تک کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ (1)
غاصب ریاست کو درپیش مسائل کا انتہائی خوفناک پہلو یہ ہے کہ اس جنگ کے دو فریق یعنی روسی وفاق کے صدر ولادیمیر پیوٹن (Vladimir Vladimirovich Putin) اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن (Joseph Robinette Biden Jr.) یوکرین کے بحران میں اسرائیلی ریاست کو صفر میں ضرب دے چکے ہیں اور اس کے لئے کسی قسم کی اہمیت کے قائل نہیں ہیں۔ (2) چنانچہ غاصب صہیونی ریاست کے موجودہ وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے یوکرین کے بحران سے پہلے، ترک صدر رجب اردوگان کی طرح، بارہا، یوکرین اور روس کے درمیان کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی اور نفتالی بینیٹ نے بحران کے آغاز پر روس کی دعوت کے بغیر ہی ماسکو کا دورہ کرکے عملی طور پر ثالثی کی اپنی سی کوشش کردی، یوکرینی حکام سے بھی گفتگو کی اور مشرقی یورپ کا دورہ بھی کیا لیکن کسی نے بھی اس کی کوششوں کا خیر مقدم نہیں کیا۔ بینیٹ نے روس کو "روس-یوکرین" مذاکرات کی میزبانی کی بھی پیشکش کی مگر جواب ندارد، یا یوں سمجھئے کہ فریقین [امریکہ اور روس] نے اس کو جواب دینا ضروری ہی نہیں سمجھا۔
غاصب صہیونی ریاست یوکرین کے معاملے میں "چور سے کہے چوری کر شاہ سے کہے ہوشیار رہ" کی پالیسی پر کاربند ہوکر روس اور امریکہ کو باور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ "ہم تو بس غیر جانبدار ہیں"، مگر اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ یوکرین میں پہلا روسی ٹینک داخل ہوتے ہی، صہیونی ریاست کے وزیر خارجہ یائیر لاپیڈ (Yair Lapid) نے دوٹوک موقف اپنا کر اعلان کیا کہ "اسرائیل امریکہ کے مورچے میں کھڑا ہے"، اور جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کے خلاف امریکی قرارداد کا مسودہ روس نے ویٹو کیا اور امریکہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس مذمتی قرارداد پر ووٹنگ کرائی تو صہیونی ریاست نے اس کی حمایت کی اور روس کے خلاف ووٹ دیا؛ اور یوکرین پر حملہ کرنے پر روس کی مذمت کی، اور اجلاس میں شریک یوکرینی ہم منصب کو گلے لگایا اور اس سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ لیکن اپنی ریاکاری اور منافقت جاری رکھتے ہوئے پھر بھی بینیٹ نے اپنی کابینہ کے اراکین کو ہدایت کی کہ وہ روس کے حملے کے بارے میں اظہار خیال کرنے سے پرہیز کریں، تاکہ اس طرح اسرائیل پیوٹن کے غیظ و غضب سے محفوظ رہے۔ (3)
یوکرین کی صورت حال سے غاصب صہیونیوں کی تشویش کا ایک سبب ملک شام کے میدان میں روس کی پالیسی بھی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ یوکرین میں روس کی خصوصی کاروائی کے بعد سے شام پر غاصب صہیونیوں کے حملوں میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔
غاصب صہیونی دشمن کی تشویش کا دوسرا بڑا سبب ایران اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں۔ روس اور ایران کے تعلقات اس روسی کاروائی کے بعد بہت حد تک مستحکم ہوئے ہیں۔
ادھر زیلینسکی نے امریکی بطور یہودی، امریکی یہودیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کی مدد کریں۔ (4) اور اس اپیل کا مقصد امریکہ اور یورپ میں موجود یہودی لابیوں اور ان عرب ریاستوں کی حمایت حاصل کرنا ہے جنہوں نے ذلیلانہ ساز باز کرکے صہیونی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے [اور اب گویا وہ اسرائیل کی ذیلی ریاستیں سمجھی جانے لگی ہیں]۔ چنانچہ غاصب صہیونی ریاست کی غیرجانبداری کے دعوے جنگ کی طوالت کے امکان کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ یہ ریاست دنیا کے یہودیوں کی حمایت یا عدم حمایت پر مبنی واضح موقف اختیار کرنے پر مجبور ہے۔
سوویت اتحاد کی ٹوٹ پھوٹ کے دوران، اس اتحاد کی مختلف ریاستوں سے 15 لاکھ یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین منتقل کیا گیا جن میں سے ایک بڑی تعداد کا تعلق یوکرین سے تھا اور آج تک بھی یورپ کی دوسری بڑی یہودی آبادی یوکرین میں مقیم تھی جن کی تعداد دو سے تین لاکھ تک ہے۔ عجیب یہ ہے کہ یوکرین سے منتقل ہونے والے یہودیوں کی ایک خاصی تعداد غاصب اسرائیلی ریاست کی پالیسیوں سے متفق نہیں ہے۔ یوکرین سے جا کر مقبوضہ فلسطین میں بسنے والے یہودی یوکرین کے موجودہ بحران میں یا تو غیر جانبدار ہیں، یا پھر روس کی حمایت کررہے ہیں۔
چنانچہ غاصب ریاست مغرب میں بھی اور مشرق میں بھی، ایک قابل اعتماد اتحادی کی حیثیت سے بھی اور ایک فوجی قوت کے طور پر بھی، اپنی اہمیت کھو چکی ہے اور یہ ریاست اپنے اتحادیوں اور حامیوں کے دوش پر سیکورٹی بوجھ بنی ہوئی ہے۔
ادھر ایران اور اس کے اتحادی جدیدترین ہتھیاروں، صحیح نشانے پر لگنے والے میزائلوں اور ڈرون طیاروں سے لیس ہیں اور ان ہتھیاروں کی تیاری میں بے پناہ ترقی کر چکے ہیں چنانچہ ان کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت نے تنازعات کے توازن اور تسدیدی قواعد (deterrence rules) کو بگاڑ کر رکھا ہے۔ چنانچہ اگر ہم یوکرین کے تنازعے کو سود و زیان (یا نفع اور نقصان) کی رو سے دیکھیں تو یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ غاصب اسرائیلی ریاست اس جنگ کے ہارنے والے فریقوں میں سر فہرست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدودی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ یہ یہودی قوم کی تاریخی خصلت ہے کہ وہ چڑھتے سورج کو سلام کرتے ہیں۔ یہودی دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے ساتھ تھے اور ان کی پوری دولت جرمن بینکوں میں تھی لیکن جب اتحادی افواج کی فتح اور جرمنی کی شکست کے آثار نمودار ہوئے تو انھوں نے اپنا سرمایہ جرمنی سے نکال کر برطانیہ منتقل کیا اور خاص طور پر جرمن یہودیوں کا یہ اقدام فطری طور پر غداری کے زمرے میں آیا جس کی وجہ سے ایڈالف ہٹلر اور ان کی نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی (یا نازی پارٹی) یہودیت دشمنی پر اتر آئی تھی؛ اب بھی یہودی منتظر ہیں اس بات کے کہ کونسا فریق جیتتا اور کونسا فریق ہارتا ہے!! اور انتظار کی یہ گھڑیاں اور غلطی کر بیٹھنے کا امکان صہیونیت کی شدیدترین تشویش کا باعث بنا ہؤا ہے۔
2۔ گویا بین الاقوامی نظام کی تبدیلی کی آمد آمد ہے اور جو دوسری عالمی جنگ کے بعد، اس نظام کو قائم رکھنے کے لئے معرض وجود میں آئی ہے، وہ اپنی اہمیت کھو گئی ہے چنانچہ یہودی ریاست کو بھی اور سعودی ریاست کو بھی اور ان جیسی دوسری ریاستوں کو بھی اپنے مستقبل کے سلسلے میں بھی - فطری طور پر - اندیشے لاحق ہیں۔
3۔ یہودی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بخوبی دیکھا جاسکتا ہے کہ اس قسم کا رویہ یہودیوں نے حضرت موسی (علیہ السلام) کے دور ہی سے جاری رکھا ہے، اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ وہ جو کہتے یا کرتے ہیں خدا بھی اسی کی تائید کرتا ہے اور دوسری قوموں کو بھی ان کے ہاں میں ہاں ملانا پڑتا ہے، چنانچہ اس مسئلے میں بھی گویا وہ اس بات کا تصور بھی نہیں کرتے کہ "روس اور امریکہ اور دنیا کی تمام قومیں اس کی ان حماقتوں کو سمجھتی ہیں"؛ حالانکہ شاید صرف دنیا کے مرحومین ہی نہیں جانتے کہ روس کی کاروائی کے آغاز ہی سے ہزاروں یوکرینی یہودی مقبوضہ فلسطین کی غصب شدہ اراضی میں بسائے جا چکے ہیں اور لاکھوں یوکرینی یہودی بسانے کا منصوبہ ہے، اور سینکڑوں یہودیوں کو بھرتی کرکے روس کے خلاف لڑنے کے لئے یوکرین پہنچایا گیا ہے اور یہ بھرتیاں بدستور جاری ہیں۔
4۔ زیلینسکی یہودی ہیں اور ان کی کابینہ کے متعدد اراکین بھی یہودی جن میں سے گیارہ افراد باقاعدہ طور پر اسرائیلی شہریت کے حامل ہیں۔
......................
110