اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
منگل

8 مارچ 2022

12:25:49 PM
1237292

اردگان بدھ کو اسرائیلی صدر کی کریں گے میزبانی!!!

اسحاق ہرتزوگ کل اردگان کے مہمان ہیں، ترک عوام نے اسرائیل کا پرچم جلا کر سفر کا خیر مقدم کیا ہے۔

اہل بیت(ع)نیوز ایجنسی۔ابنا۔ اردگان کی وہ تاریخی تقریر تاریخ میں درج ہے جب کئی عرب ممالک جیسے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا اعلان کرنے کے بعد انہوں نے کہا: اے کمینو! کیوں فلسطین اور اس کے عوام کے ساتھ غداری کر رہے ہو؟ بلاشبہ، اردگان کو اپنی عملیت پسندی کے لیے جانا جاتا ہے، اور بنیادی طور پر سیاست میں ان کے لیے متضاد موقف اختیار کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

۔ اگرچہ ترک حکومت نے 28 مارچ 1948 کو صہیونی ریاست کے قیام کے فوراً بعد اسے تسلیم کر لیا تھا لیکن ترک مسلم عوام اور ترک مسلم حکمرانوں نے ہمیشہ فلسطینی کاز سے وفاداری کا اظہار کیا ہے لیکن اردگان اور ان کی جماعت نظریاتی طور پر “اخوانی” ہیں۔ اسی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں جو اتنی جلد بازی سے کام لیتے ہیں اس کا تجزیہ سیاسی اور معاشی محرکات کے تناظر میں کیا جا سکتا ہے۔

– سیاسی نقطہ نظر سے، سب جانتے ہیں کہ بائیڈن حکومت اور ریاستہائے متحدہ کے صدر اردگان میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں، اور کم از کم اعلان کردہ پالیسیوں میں، انہوں نے ہمیشہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عوامی آزادیوں کے فقدان کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ بائیڈن شامی کردوں کے مدافع بھی ہیں، جو اردگان کے نمبر ایک دشمن ہیں۔ ان دو مسائل کے علاوہ امریکی حکومت کا ترکی کو F-35 لڑاکا طیارے فراہم کرنے سے انکار اور اردگان کے خلاف “فتح اللہ گولن” کی حمایت اس کی مزید وجوہات ہیں۔ ایسے حالات میں، اردگان ہرتزوگ کو مدعو کر کے ایک دوہرے مقصد کا تعاقب کر رہے ہیں: پہلا، اسرائیل سے قربت کے ذریعے امریکہ کا دل جیتنا، اور دوسرا، اس دن کا اندازہ لگانا جب امریکہ خطے سے نکل جائے اور اسرائیل کو خطے میں اپنا جانشین بنا کر ہتھیاروں سے لیس کر جائے۔

– اقتصادی طور پر، ایسا لگتا ہے کہ اردگان نئے مالی وسائل حاصل کرنے کے مقصد کے ساتھ اسرائیل کے راستے سے یورپ کی گیس اپنے ملک منتقل کرنا چاہتے ہیں، خاص طور پر اپنے ملک کی بحرانی اقتصادی صورت حال میں۔ ترکی اپنی قدرتی گیس کا 90 فیصد حصہ درآمد کرتا ہے۔

– ایسے ماحول میں، اسرائیل ترکی کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے میں فتح کا احساس کر رہا ہے، خاص طور پر وہ ایرانی کی زمینی سرحدوں سے خود کو قریب محسوس کرے گا اور یہ ایسے حال میں ہے کہ اس سے قبل اسرائیل نے امارات اور بحرین کے ساتھ تعلقات قائم کر کے خود کو ایران کی سمندی سرحدوں کے قریب کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اسرائیل مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے دائرہ کار کو توڑنے میں خود کو کامیاب قرار دیتا ہے جو کہ “بینیٹ” کی نئی اور کمزور حکومت کے لیے ایک قابل اعتماد اور یقیناً پرکشش مسئلہ ہے۔

– ایسا لگتا ہے کہ اس سفر سے فلسطینی کاز کے حقیقی حامیوں اور زبانی حامیوں کے درمیان ایک واضح فرق محسوس ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ انسان فلسطینی کاز سے وفاداری کا نعرہ بھی لگاتا رہے اور مسلمانوں کے دشمن نمبر ایک کے ساتھ 7 ارب سے زائد کی تجارت بھی کرتا رہے۔ یہ توقع بھی کی جا سکتی ہے کہ اس سفر کے بعد اسرائیل کی پالیسیاں، خاص طور پر نئی آبادکاری کے حوالے سے، مضبوط ہو جائیں گی، اور ” شیخ جراح ” جیسے علاقوں پر قبضے میں مزید شدت آ جائے گی، اور آخر میں یہ توقع کی جا رہی ہے کہ ترکی کے ساتھ فلسطینی کاز کی وفادار حماس اور اخوانیوں کے تعلقات میں کافی فاصلہ آ جائے جو پچھلے چند مہینوں سے اس کے آثار نظر آ رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242