اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اسلام ٹائمز
بدھ

23 فروری 2022

12:19:18 PM
1232704

ڈونٹسیک اور لوہانسک کی نئی ریاستیں اور یوکرین کا مسئلہ

روس نے 2014ء میں جزیرہ کریمہ کو اپنے ساتھ ملحق کرنے اور فروری 2022ء میں ڈونٹسیک اور لوہانسک کی خودمختاری کو تسلیم کر کے بحر اسود جیسے اسٹریٹجک خطے پر اپنا کنٹرول ثابت کر دیا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کل پیر 21 فروری کی رات قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں یوکرین سے علیحدہ ہونے والی دو نئی ریاستوں "ڈانباس" اور "لوہانسک" کی خودمختاری تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2014ء میں ان ریاستوں کی جانب سے خودمختاری کے اعلان کے بعد خطے کے حالات بہت ہی کشیدہ رہے ہیں اور جنگ بندی پر مبنی مینسک معاہدہ بھی ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ روس کے صدر نے یوکرینی حکمرانوں کی جانب سے مشرقی حصے میں مقیم روس نژاد باشندوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کو نسل کشی قرار دیا اور کہا کہ وہ گذشتہ آٹھ برس سے جاری اس بدامنی کو ختم کرنے کیلئے تمام تر پرامن طریقے آزما چکے ہیں اور اپنا پورا زور لگا چکے ہیں۔ صدر ولادیمیر پیوٹن کے اس فیصلے کو سمجھنے کیلئے خطے کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

ڈانباس خطے کا تعارف
جب 2014ء میں یوکرین میں نارنجی مخملی انقلاب آیا اور جزیرہ کریمہ نے روس سے ملحق ہونے کا اعلان کر دیا تو ساتھ ہی مشرقی یوکرین میں واقع ڈانباس خطے کے دو صوبوں ڈونٹسیک اور لوہانسک نے بھی خودمختاری کا اعلان کر دیا۔ آبادی کے لحاظ سے یہ خطہ یوکرین کے دارالحکومت کی ایف کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ ڈونٹسیک میں مقیم افراد میں سے 57 فیصد کا تعلق یوکرین سے ہے جبکہ 38 فیصد افراد روسی نژاد ہیں۔ البتہ زبان کے لحاظ سے اس شہر میں بسنے والے 75 فیصد افراد روسی زبان بولتے ہیں۔ جزیرہ کریمہ کی یوکرین سے علیحدگی کے بعد 6 اپریل 2014ء میں مشرقی یوکرین کے تین صوبوں لوہانسک، ڈونٹسیک اور خارکوف میں بھی عوام نے سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر لیا اور خودمختاری کا اعلان کر دیا۔

اگلے چند سالوں میں یوکرین حکومت اور ان صوبوں کے درمیان فوجی جھڑپیں جاری رہیں اور آخرکار مینسک معاہدے کے تحت جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا۔ یہ معاہدہ یوکرین، روس اور یورپ کی سکیورٹی و تعاون تنظیم کے مابین طے پایا تھا۔ ڈانباس کا علاقہ اور اس میں موجود ریاستیں بدستور یوکرین اور روس کے درمیان جاری ثقافتی کشمکش کا مرکز بنے رہے۔ ماسکو کا موقف ہے کہ یہ علاقہ روسی زبان والا علاقہ ہے اور اسے یوکرین میں جاری قوم پرست تحریک سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ کل پیر کی رات تک نہ تو روس اور نہ ہی یوکرین ان ریاستوں کی خودمختاری کو تسلیم نہیں کرتے تھے لیکن روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے ڈونٹسیک اور لوہانسک کی خودمختاری تسلیم کرنے کے اعلان کے کچھ ہی گھنٹے بعد وینزویلا، کیوبا، شام اور صربیا نے بھی ان کی خودمختاری کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

مشرقی یوکرین کی ان ریاستوں کے سربراہان مملکت
ڈونٹسیک اور لوہانسک کی ریاستیں 2014ء میں خودمختاری کے اعلان کے بعد سے ہی عالمی سطح پر تسلیم کئے جانے کی کوشش میں مصروف تھیں۔ 2018ء میں ڈونٹسیک میں صدارتی الیکشن منعقد ہوا جس میں ڈینس پوشلائن کو صدر بنا دیا گیا۔ اسی طرح لوہانسک میں لایونیڈ پاسچنیک صدر بنے۔ یوکرین نے ان دونوں انتخابات کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ کل جب روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ان ریاستوں کی خودمختاری کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تو امریکی صدر جو بائیڈن نے ان دونوں ریاستوں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یوں ان کے ساتھ کسی قسم کی تجارت اور اقتصادی لین دن غیر قانونی قرار پائے گا۔ یوکرین، امریکہ اور ان کے اتحادی ممالک کی نظر میں روسی صدر کا یہ اقدام غیر قانونی ہے۔

ان نئی ریاستوں کی جیوپولیٹیکل اہمیت
روس نے 2014ء میں جزیرہ کریمہ کو اپنے ساتھ ملحق کرنے اور فروری 2022ء میں ڈونٹسیک اور لوہانسک کی خودمختاری کو تسلیم کر کے بحر اسود جیسے اسٹریٹجک خطے پر اپنا کنٹرول ثابت کر دیا ہے۔ گذشتہ کافی عرصے سے روسی حکومت اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ بحر اسود میں پائے جانے والے خطرات خطے کی حدود سے باہر نکل چکے ہیں اور روس کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں نیٹو کیلئے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس سمندر کے اردگرد چھ ممالک موجود ہیں جن میں روس، رومانیہ، بلغاریہ، یوکرین، جارجیا اور ترکی شامل ہیں۔ یہ سمندر ان چھ ممالک کو بحیرہ قلزم کے ذریعے بحر اطلس سے ملاتا ہے۔ ان میں سے تین ممالک (رومانیہ، بلغاریہ اور ترکی) ایسے ہیں جو نیٹو کے رکن ہیں جبکہ دیگر دو ممالک یعنی جارجیا اور یوکرین نیٹو میں شامل ہونے کے خواہشمند ہیں۔

دوسری طرف بحر اسود روس کے گرد پھیلا ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ روس کا بڑا حصہ امریکہ کے ان درمیانے رینج کے میزائلوں کی زد میں ہے جو رومانیہ میں نصب کئے گئے ہیں۔ اگرچہ 2014ء میں جزیرہ کریمہ کے روس سے الحاق نے اس کی دفاعی صلاحیتیں بڑھا دی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ چھوٹی سی غفلت بھی مغربی بلاک کے حق میں طاقت کا توازن بگاڑ سکتی ہے۔ لہذا روس نے ڈونٹسیک اور لوہانسک کی خودمختاری تسلیم کر کے اپنی پوزیشن مزید مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے۔ مزید برآں، بحر اسود میں روس کے کافی اقتصادی اثاثے بھی موجود ہیں جن کی حفاظت اس کی پہلی ترجیح ہے۔ بحر اسود روس کی اہم تجارتی شاہرگ سمجھا جاتا ہے۔ روس یورپ کو برآمد کی جانے والی گیس کیلئے نئی پائپ لائن بحر اسود کے راستے بچھانے کا خواہاں ہے۔

تحریر: مریم خرمائی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242