اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اسلام ٹائمز
اتوار

13 فروری 2022

12:36:18 PM
1229123

انقلاب اسلامی ایران اور اس کے اثرات

مسلم اقوام اگر اسلامی انقلاب کے ماڈل کو فالو کریں تو ان کے ممالک میں بھی تبدیلی آسکتی ہے اور یہ اقوام بھی خود انحصاری کی پالیسی اپنا کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہیں۔ اسلامی تہذیب کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ انقلابِ اسلامی ایران کی بقاء کا راز یہ ہے کہ ایرانی قیادت کا اللہ کی کریم ذات پر یقین کامل ہے۔ انقلاب سے پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ انقلاب آ ہی نہیں سکتا۔ بھلا ایک مولوی کیسے انقلاب لائے گا۔؟ مگر الہیٰ خطوط پر نسل نوء کی تربیت نے ثابت کر دیا کہ انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ امام خمینیؒ سے ایک صحافی نے پوچھا تھا کہ انقلاب کیسے لائیں گے، شاہ کے پاس تو بھاری فوج ہے، اس فوج کا مقابلہ کرنے کیلئے آپ کے پاس فوج ہے؟؟ جس کے جواب میں امام خمینیؒ نے فرمایا تھا کہ ہاں، میری فوج ماوں کی گود میں ہے۔ پھر تاریخ کی بوڑھی آنکھوں نے وہ منظر دیکھا کہ اس انٹرویو کے 18 سال بعد ایران میں انقلاب آگیا اور یہ انقلاب لانے والے نوجوان ہی تھے، جو 18 سال قبل اپنی ماوں کی گود میں تھے، امام خمینیؒ نے انہیں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میری فوج ماوں کی گود میں ہے۔

یہ تربیت کا اثر تھا کہ نئی نسل پر توجہ دی گئی، ان کی فکری تربیت کی گئی اور انہی نوجوانوں نے پھر انقلاب کیلئے کردار ادا کیا۔ ایران میں شاہ کا زوال دراصل رضا شاہ کا زوال نہیں تھا، بلکہ یہ امریکہ کی شکست تھی۔ انقلاب نے شاہ کا تخت نہیں اُلٹایا تھا بلکہ امریکہ کے ایجنٹ کا تخت اُلٹا کر امریکہ کو پیغام دیا تھا کہ جب الہیٰ فوج میدان میں آتی ہے تو شیطانی فوج کو منہ چھپانے کی جگہ بھی نہیں ملتی، کیونکہ جب حق آجائے تو باطل اپنے قدموں پر کھڑا نہیں رہتا اور امام خمینیؒ نے یہ ثابت کر دیا کہ حق کے مقابل باطل نہیں ٹھہر سکتا۔ انقلاب اسلامی ایران دراصل دنیا کے مستضعفین کیلئے بھی امید بن کر آیا۔ اس سے دنیا کے مطلوموں نے روشنی حاصل کی اور اپنی جدوجہد آزادی کو جلا بخشی۔

وہ قوتیں جو کہتی تھیں کہ انقلاب نہیں آسکتا، یہ مولوی کیسے انقلاب لائے گا، انہوں نے انقلاب کو کامیاب ہوتے دیکھ بھی لیا۔ پھر کہنے لگے یہ انقلاب زیادہ دیر قائم نہیں رہے گا، مگر خدا کی نصرت سے انقلاب آج 43 ویں سالگرہ منا رہا ہے۔ انقلاب کے بعد ایران نے بہت سے شعبوں میں ایسی ایسی کامیابیاں حاصل کی ہیں کہ دنیا انگشت بدنداں ہے، یہ مفلوک الحال قوم کیسے اس اوج پر پہنچ گئی۔ ایران میڈیکل کے شعبے میں دنیا بھر میں صف اول میں کھڑا ہے، ایران دفاعی شعبے میں بھی کسی سے کم نہیں، اس کی میزائل ٹیکنالوجی نے دشمنان اسلام کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ ایران کی ایٹمی صلاحیت سے دشمن آج بھی خوفزدہ ہے کہ کہیں ایران ایٹم بم نہ بنا لے۔ تعلیمی شعبے میں ایران کی یونیورسٹیز میں تعلیمی معیار یورپ سے کم نہیں۔ ایران نے سیاسی دباو اور اقتصادی پابندیوں کا بھی مردانہ وار مقابلہ کیا۔ ایرانی استقامت کے سامنے دشمن کو اپنے فیصلے سے واپس ہٹنا پڑ گیا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ خود کو سپرپاور سمجھنے والا امریکہ بھی ایران سے خوفزدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اسرائیل کا سہارا لیتا ہے، اس کیساتھ اپنے تعلقات بہتر بنا کر اسے ایران کیخلاف قربانی کا بکرا بنانے پر تُلا ہوا ہے۔ ایران کے اسلامی انقلاب نے عرب عوام کے اندر بھی بیداری کی لہر پیدا کی، جس سے صدیوں سے چلے آتے خاندانی بادشاہت کے نظام کی چولیں ہلنے لگ گئیں۔ عرب حکمرانوں نے بھی اپنی بقاء اسرائیل سے دوستی میں سمجھی اور ایران کے مقابلے میں اسرائیلی بلاک میں پناہ لینے میں عافیت سمجھ رہے ہیں جبکہ عرب حکمران شائد نہیں جانتے کہ اسرائیل ان کا کبھی خیرخواہ نہیں ہوسکتا۔ امریکہ خطے میں ایران کے اثر و رسوخ کو روکنے کیلئے اربوں کھربوں ڈالر اس آگ میں جھونک چکا ہے۔ امریکہ نے عراق میں پنجے گاڑھے، یہ اقدام بین الاقوامی قوانین کیخلاف تھا، مگر ایرانی انقلاب کے خوف نے امریکہ کو مجبور کر دیا کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں بیٹھ کر انقلاب کا راستہ روکے، مگر اس میں بھی امریکہ کو سوائے ہزیمت کے اور کچھ نہ ملا۔

ایران کا اسلامی نظام، انقلاب کی 43 ویں سالگرہ منا رہا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مشرق وسطیٰ کے سیاسی مستقبل کو کنٹرول کرنے کیلئے مغرب نے جو جیو پولیٹیکل، اقتصادی اور تزویراتی منصوبہ بندی کی تھی، وہ بُری طرح ناکام رہی۔ ایران کا اسلامی انقلاب خالص محمدی اسلام کے نظریات اور تعلیمات پر مبنی واحد حقیقی مذہبی انقلاب ہے، جو ایک بیداری کی تحریک ثابت ہوا، جس نے بلاشبہ حالیہ دہائیوں میں بہت سی اسلامی تحریکوں اور دینی تحریکوں کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ دنیا کا اصول ہے کہ جہاں بھی کوئی بڑی تبدیلی رونما ہوتی ہے اور اس کے اثرات دنیا لازمی لیتی ہے۔ ایران کے انقلاب اسلامی نے بھی دنیا میں وہی سٹیٹس حاصل کیا۔ اس انقلاب نے بہت سے مظلوموں کو حوصلہ دیا اور کئی ممالک میں تبدیلی کی ہوا چلی۔ اس طرح کی بڑی کامیابیاں عوام کیساتھ حکمرانوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہیں۔ امام خمینیؒ کے انقلاب نے ثابت کیا کہ اسلام میں سامراج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اسی انقلاب میں خطے میں امریکہ کے سب سے مضبوط اڈے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا یہاں تک کہ شاہ ایران کو بھاگنا پڑا۔

انقلاب کی فتح نے دنیا پر ظاہر کیا کہ اسلام میں جدوجہد کی تڑپ، عزم، تحریک اور جدوجہد کو آگے بڑھانے کے طریقے موجود ہیں اور اسلامی قیادت عالمی تسلط کے نظام سے نمٹنے کیلئے ایک قابل قیادت رکھتی ہے۔ انقلاب اسلامی نے دنیا کو ایک نظریہ دیا۔ انقلاب کے بعد امریکہ اور کیمونسٹ سوویت یونین متحد ہوگئے اور انقلاب کیخلاف سازشیں شروع کر دیں، مگر انقلاب نے استقامت کیساتھ ان کا مقابلہ کیا۔ انقلاب اسلامی کی استقامت نے ثابت کیا کہ اسلامی افکار و مقاصد نہ صرف جدوجہد اور فتح کی راہ میں استعمال ہوتے ہیں بلکہ سامراجیوں کا زبردست دباؤ برداشت کرنے اور انقلاب اور مزاحمت کے تسلسل کو برقرار رکھنے میں بھی استعمال ہوسکتے ہیں۔ آج 43 سال بعد بھی انقلاب اپنی آب و تاب کیساتھ موجود ہے۔ دشمن کی تمام سازشیں ناکام ہوچکی ہیں۔ انقلاب کی کشتی پر سوار ایران ترقی کے منازل طے کرتا جا رہا ہے۔ اس میں استعمار کی سازشیں اور جھوٹا پروپیگنڈہ بھی کامیاب نہیں ہوا کہ استعماری میڈیا نے دنیا کو یہ جھوٹ سچ ثابت کرکے بتانے کی کوشش کی کہ ایران میں اقتصادی پابندیوں کے باعث ایران کے عوام فاقوں کا شکار ہیں، انقلاب ناکام ہوچکا ہے۔ مگر یہ قوتیں بھول گئیں کہ انقلاب کی بنیادوں میں شہداء کا لہو ہے اور جہاں شہداء کی قربانیاں ہوں، وہ انقلاب کبھی ناکام نہیں ہوتا۔

استعماری قوتوں کی ہزار سازشوں کے باوجود انقلاب اسلامی ایران دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ دشمن نے اس اسلامی انقلاب کو شیعی انقلاب کا لیبل بھی لگانے کی کوشش کی، مگر اس میں بھی اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ آج پوری امت کی نظریں اسی انقلاب پر ہیں۔ آج پوری امت انقلاب اسلامی کو ہی اپنا نجات دہندہ سمجھ رہی ہے۔ ایران کی دور اندیش قیادت نے بھی ثابت کیا ہے کہ وہ دشمن کی چالوں سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ علامہ محمد اقبالؒ نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ
تہراں ہو اگر عالم مشرق کا جنیوا
شائد کہ قرہ ارض کی تقدیر بدل جائے

مسلم اقوام اگر اسلامی انقلاب کے ماڈل کو فالو کریں تو ان کے ممالک میں بھی تبدیلی آسکتی ہے اور یہ اقوام بھی خود انحصاری کی پالیسی اپنا کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہیں۔ اسلامی تہذیب کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کا ایسا مرکز بنانا ہوگا، جہاں صرف اسلامی تہذیب کے احیاء کیلئے ہی کام کیا جا رہا ہو، جبکہ امت جنہیں اسلام کا مرکز سمجھتی ہے، وہ تو یورپی فلسفے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے گمراہی کے راستے کا انتخاب کرچکے ہیں۔ جب سرزمینِ حجاز پر بے حیائی اور بے راہ روی کے بادل چھائیں گے تو یقیناً امت کسی ایسی ریاست کی طرف دیکھے گی، جس میں حقیقی اسلامی تہذیب ہوگی اور اسلام نابِ محمدی ملے گا۔ تو ایسی صورت میں صرف ایران ہی دکھائی دیتا ہے، جس میں حقیقیی اسلامی اقدار موجود ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242