اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعہ

11 فروری 2022

11:26:57 AM
1228344

"یمن کے خلاف جارحیت کے پہلؤوں کا جائزہ" سیمینار - 2

شیخ ابراہیم زکزکی: جو کچھ یمن میں ہو رہا ہے وہ جنگ نہیں بلکہ اسرائیل کے مفاد میں ہونے والے جرائم کا تسلسل ہے

شیخ ابراہیم زکزکی نے سب کو یمن پر حملے سے مغربی ممالک کے اصل مقصد پرغور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا: کیا اس معزول صدر کا اس ملک میں کوئی نہیں ہے، کہ جارحین ممالک اس پر تو رحم کرتے ہیں لیکن اس کے اقرباء پر رحم نہیں کرتے؟ اس المیئے کے مقابلے میں عالمی خاموشی بے معنی ہے۔

اہل البیت(ع) نیوز ایجنسی - ابنا - کی رپورٹ کے مطابق، یمن کے مظلوم عوام پر عربی-مغربی-عبرانی جارحیت میں شدت آنے پر بین الاقوامی سیمینار بعنوان "یمن کے خلاف جارحیت کے پہلؤوں کا جائزہ" بروز ہفتہ 5 فروری 2022ع‍ کو اربعین انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام "اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی" اور ہم فکر اداروں کے تعاون سے منعقد ہؤا۔
شیعیان نائیجیریا کے قائد اور نائیجیریا اسلامی تحریک کے سیکریٹری جنرل حجت الاسلام و المسلمین شیخ ابراہیم زکزکی نے سیمینار کے دوسرے مقرر کے عنوان سے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ یمن میں ہو رہا ہے وہ ایک جنگ نہیں ہے اور دو متقابل افواج کا باہمی مقابلہ نہیں ہے بلکہ یہ سب دشمنی، عداوت اور اسرائیلی ریاست کے مفاد میں بنی نوع انسان کے خلاف [جنگی] جرائم (Crimes Against Humanity) کے زمرے میں آتا ہے۔
حجت الاسلام و المسلمین زکزکی نے کہا: عام اور نہتے لوگوں پر اتنی شدید اور طویل فضائی بمباریاں، گولہ باریاں اور پیدل افواج کے شدید ترین حملے اور یمن کے مردوں، خواتین اور بچوں کو ان کے گھروں میں موت کے گھاٹ اتارنا، ان کے دفتروں اور کام کاج کے مقامات کا انہدام اور مزدوروں اور کاشتکاروں کا قتل عام کرنا اور اسپتالوں پر حملے اور مریضوں، ڈاکٹروں اور نرسوں کا قتل عام اور جیلوں پر حملے اور قیدیوں کا قتل عام، جنگ کے زمرے میں ہرگز ہرگز نہیں آتا۔
انھوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی حکومت خطے میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ، انگلستان، فرانس اور دوسرے مغربی ممالک کے نمائندے ہیں اور ان سب کی کوشش یہ ہے کہ معزول و مستعفی صدر کو دوبارہ اقتدار تک پہنچایا جائے لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ اس خونی تجارت اور عوام کے قتل کا نتیجہ کیا ہوگا؟ کیا وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہونگے؟
انھوں نے سب کو یمن پر یلغار سے مغربی ممالک کے اصل مقصد پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی اور کہا: اگر کوئی کسی معزول و مستعفی صدر کو اس کے ملک میں لوٹانا چاہے اور اسے یہ توقع ہو کہ اس ملک کے مرد، خواتین اور بچے اس شخص کو قبول کریں، تو کیا یہ مقصد لوگوں کے قتل عام سے حاصل ہوسکتا ہے؟ کیا اس مستعفی صدر کا یمن میں کوئی عزیز اور رشتہ دار نہیں ہے جو جارح اتحاد کے رحم کا لائق ہو؟
نائیجیریا کے اس مشہور عالم دین نے لیبیا، عراق اور شام کے عوام پر ڈھائے جانے والے مغربی-عربی-یہودی جرائم و مظالم آج کے دن کے یمن میں ہونے والے جرائم سے تشبیہ دی اور کہا: مغربی ممالک ہر چیز کو نیست و نابود کرتے ہیں اور یہ ایک نئی سازش اور نیا منصوبہ ہے کہ جو تیار کیا گیا ہے اس لئے کہ ایک نئی عالمی جنگ کے لئے راستہ ہموار کیا جا سکے اور اس کا مقصد [ڈوبتی ہوئی] یہودی ریاست کا تحفظ ہے۔
انھوں نے کہا کہ یمن کے مظلوم عوام بجلی، پینے کے پانی، پٹرول، ڈیزل اور طبی سازوسامان سے محروم ہیں؛ اور مختلف ممالک سے مطالبہ کیا کہ اس مسئلے کے حل میں مدد دیں، کیونکہ اس المیئے پر خاموشی بے معنی ہے۔ سب پر لازم ہے کہ اس المیئے کے خاتمے میں مدد دیں۔
انھوں نے کہا: یمن کی جنگ ایک انسانی المیہ ہے، یہاں کے عوام صحت اور علاج معالجے کی سہولیات سے محروم ہیں؛ یہ مسئلہ دنیا کے موجودہ معاشروں کے لئے ایک پیچیدہ اور خطرناک واقعہ ہے۔ یمن کے عوام کو حق پہنچتا ہے کہ دشمن کی جارحیتوں کا جواب دیں اور رد عمل ظاہر کریں کیونکہ انہیں بدترین انداز سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔
نائیجیریا کے شیعیان اہل بیت(ع) کے قائد نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا: یمنی عوام کے سامنے مقاومت اور مقابلے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے اور ہمیں امید ہے کہ یہ جنگ ختم ہوجائے اور یمن کے بہادر عوام فتح و کامرانی سے ہم کنار ہوں اور مستکبر قوتیں جلد از جلد یہاں سے چلی جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110