اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران
اتوار

30 جنوری 2022

3:38:42 AM
1223962

صہیونی فاؤنڈیشن: بادشاہ بننے کی صورت میں بن سلمان کی پہلی ترجیح: یہودی ریاست کے ساتھ رابطہ

سعودی-اسرائیلی تعلقات کی بحالی واشنگٹن پر ایم بی ایس کے اعتماد اور ایران کے حلیفوں کے حملوں کے مقابلے میں سعودیوں کے تئیں امریکی حمایت کی سطح پر منحصر ہے اور اگر امریکہ اسرائیلی دفاعی سہولیات کے ذریعے سعودیوں کے فضائی دفاعی کمزوریوں کا ازالہ کرے تو یہ سعودی-یہودی تعلقات کی بحالی کا سبب ہوگا۔

اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ فاران تجزیاتی ویب سائٹ کے مطابق امریکہ میں ایک صہیونی فاؤنڈیشن نے اپنی ویب گاہ میں لکھا: بادشاہ بننے کی صورت میں سعودی ولی عہد ایم بی ایس [محمد بن سلمان] کی پہلی ترجیح تل ابیب کے ساتھ تعلقات کی بحالی ہوگی۔
یہودی انسٹی ٹیوٹ برائے امریکی قومی سلامتی “جنسا” (Jewish Institute for National Security of America [JINSA]) – جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں صہیونی ریاست کے مفادات کے لئے کام کررہا ہے – کا خیال ہے کہ اگر ایم بی ایس سعودی عرب کا بادشاہ بنے تو اس کی پہلی ترجیح اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی ہوگی؛ اور سعودی عرب میں ایم بی ایس ہی ہے جو اسرائیل کے ساتھ رابطے کے بارے میں اخری فیصلہ کرے گا۔
جنسا نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ایم بی ایس فلسطینی راہنماؤں کی تذلیل کے حوالے سے مشہور ہے اور اس نے اب تک تل ابیب کو بےشمار مثبت پیغامات ارسال کئے ہیں اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کو آسان بنانے کے حوالے سے واضح اقدامات کئے ہیں، جن میں سے ایک یہ تھا کہ اس نے امارات اور بحرین کی طرف اسرائیل طیاروں کی پرواز کے لئے اپنی فضائی حدود کھول دیں۔ نیز اس نے سابق صہیونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ کئی بار خفیہ ملاقاتیں کیں؛ اور ان کی آخری ملاقات چند ماہ قبل بحر احمر کے ساحل پر بننے ہونے والے شہر نیوم میں انجام پائی۔
جنسا نے مزید لکھا ہے کہ یہودی اور سعودی ریاستوں کے درمیان فوجی مسائل اور ہتھیاروں کے شعبے میں تعاون کے وسیع امکانات پائے جاتے ہیں؛ سعودیوں کو دنیا کے دوسرے ممالک سے کہیں زیادہ ڈرون حملوں کا سامنا ہے اور امریکہ اسرائیلی دفاعی نظامات سعودی عرب میں منتقل کرسکتا ہے اور یہ مسئلہ ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کی بحالی کی طرف ایک بڑا قدم ہوسکتا ہے۔
اس مضمون کے مطابق، سعودی-اسرائیلی تعلقات کی بحالی واشنگٹن پر ایم بی ایس کے اعتماد اور ایران کے حلیفوں کے حملوں کے مقابلے میں سعودیوں کے تئیں امریکی حمایت کی سطح پر منحصر ہے اور اگر امریکہ اسرائیلی دفاعی سہولیات کے ذریعے سعودیوں کے فضائی دفاعی کمزوریوں کا ازالہ کرے تو یہ سعودی-یہودی تعلقات کی بحالی کا سبب ہوگا۔
اسی حوالے سے کچھ عرصہ قبل، فاکس نیوز نے کہا تھا کہ امریکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ پارٹیوں کے نمائندوں نے سعودی عرب اور صہیونی ریاست کے درمیان تعلقات کے معمول پر آنے کو امریکہ کی قومی سلامتی کے لئے اہم واقعہ قرار دیا ہے۔
امریکی جریدے اکانومسٹ نے بھی لکھا ہے کہ ایم بی ایس نے سعودی کے دروازے اسرائیلی سیاحوں کے لئے کھول دیئے ہیں اور ان کا خیر مقدم کرتا ہے اور اس وقت سعودی عرب کے اندر کی مختلف تقریبات اور نمائشوں اور میلوں میں ایسے لوگ ضرور نظر آتے ہیں جو “عبرانی” بولتے ہیں۔
آج سے دو مہینے پہلے ذرائع نے انکشاف کیا کہ جون 2021ع‍ میں 15 ریپبلکن یہودیوں نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جن کا مشن ریاض اور تل ابیب کے درمیان سازباز کا راستہ ہموار کرنے سے عبارت تھا۔
مقبوضہ فلسطین سے شائع ہونے والے اقتصادی روزنامے گلوبیز (Globes) نے اکتوبر 2021ع‍ میں لکھا تھا کہ سعودی-یہودی ریاستوں نے امارات اور بحرین کی وساطت سے کئی تجارتی سمجھوتوں پر دستخط کئے ہیں؛ اور مسئلہ فلسطین کے حل کے حوالے سے ریاض کے موقف کے باوجود یہودی اور سعودی ریاستوں کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے حوالے سے کامیاب مذاکرات ہوئے ہیں۔
صہیونی ذرائع کے مطابق، ایم بی ایس نے سعودی منڈی کے دروازے اسرائیلی مصنوعات کے لئے کھول دیئے ہیں اور یہ مسئلہ اسرائیلی کمپنیوں اور برآمد کنندگان کے لیے بہت اہم ہے۔ روزنامہ گلوبیز نے 33 ملین کی آبادی والے ملک کی منڈی کو بہت اہم اور اسرائیل کے لئے بہت سے مواقع کا حامل قرار دیا۔
قابل ذکر [اور سعودی نوازوں کے لئے لمحۂ فکریہ] ہے کہ اسی اثناء میں سعودی دارالحکومت ریاض میں یہودیوں کی پہلی عبادتگاہ (یا کنیسے) کی تعمیر کے منصوبے پر کام جاری ہے اور یہودیوں کی تمام تقریبات اسی مقام پر انجام پایا کریں گی۔ (1)
واللا صہیونی ویب گاہ نے حال ہی میں لکھا تھا کہ امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سالیوان نے 27 ستمبر 2021ع‍ کو ریاض میں ایم بی ایس کے ساتھ ملاقات میں، اس کے ساتھ ریاض-تل ابیب تعلقات کی بحالی کے سلسلے میں بات چیت کی اور اگرچہ سعودی ولی عہد نے اس امکان کو رد نہیں کیا اور کہا کہ “اس کے لئے اس کو وقت چاہئے”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ ویکی پیڈیا کے مطابق، دنیا کے 99 ممالک میں یہودی آبادی پائی جاتی ہے جن میں سعودی عرب شامل نہیں ہے۔ چنانچہ سرزمین حرمین میں یہودی عبادتگاہ کی تعمیر کے لئے “‘یہودیوں کے تئیں سعودیوں کی چاپلوسی'” کے سوا کوئی بھی وجہ تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔ اور اس کنیسے کی تعمیر کا مقصد پاک سرزمیں پر قدم رکھنے والے منحوس صہیونیوں کی پذیرائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے حالانکہ قرآن کریم کے مطابق یہودی مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں۔ (رجوع کیجئے: سورہ مائدہ، آیت 82)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲