اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
منگل

25 جنوری 2022

3:40:26 PM
1222414

نیتن یاہو کا اعتراف گناہ اور اقتدار کی رسہ کشی؛

ریاست کا تزلزل، بینیٹ حکومت دیکھتی سب کچھ ہے مگر انکار کرتی ہے

قصے کا آغاز وہاں سے ہؤا جہاں صہیونی ذرائع نے بولنا شروع کیا کہ نیتن یاہو کا وکیل اٹارنی جنرل کے دفتر کے ساتھ ایک سودے بازی کر رہا ہے اور وہ یہ کہ عدلیہ اس کے خلاف دائر مقدمات اور کیسز کا خاتمہ کرے اور اس کے بدلے نیتن یاہو سیاسی میدان ترک کرے اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ جب سے نیتن یاہو کے “اعتراف گناہ” کے عنوان سے ہونے والی سودے بازی کا مسئلہ سامنے آیا ہے، جس کے تحت یاہو کو صہیونی ریاست کے سیاسی میدان سے الگ ہونا پڑا، اب تک بینیٹ حکومت کے تمام اراکین یکے بعد دیگرے سمجھ گئے ہیں کہ یہ واقعہ اس حکومت کی بقاء کے تمام بہانوں کے غیر مؤثر ہونے کے مترادف ہے اور اس کی مزید کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ ان سب نے نیتن یاہو کے بعد کے دور کے انتخابات میں مقابلے کی تیاریاں شروع کیں۔

قصے کا آغاز وہاں سے ہؤا جہاں صہیونی ذرائع نے بولنا شروع کیا کہ نیتن یاہو کا وکیل اٹارنی جنرل کے دفتر کے ساتھ ایک سودے بازی کر رہا ہے اور وہ یہ کہ عدلیہ اس کے خلاف دائر مقدمات اور کیسز کا خاتمہ کرے اور اس کے بدلے نیتن یاہو سیاسی میدان ترک کرے اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرے۔

اس سیاسی لین دین کا امکان ظاہر ہوتے ہی صہیونی دانشوروں اور سیاستدانوں کے درمیان نفتالی بینیٹ کی حکومت کا دھڑن تختہ ہونے اور ایک بار پھر عام انتخابات کا سہارا لینے کے بارے میں بحث شروع ہوئی۔ جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ جن جماعتوں نے نیتن یاہو کو سیاسی میدان سے نکال باہر کرنے کے لئے باہم اختلاف بھلا کر اتحاد کرلیا تھا، وہ نئے انتخابات میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں گی۔ اگرچہ “تضادات کی حکومت” (بینیٹ کابینہ) کے تمام اراکین نیتن یاہو کی سیاست سے بےدخلی کے نتیجے میں اپنی حکومت کے خاتمے کی نفی کررہے ہیں۔ لیکن ان سب نے تیزی سے نیتن یاہو کے بعد کے دور کے لئے تیاری اور تنظيم نو کا آغاز کیا۔ حکومت کے موجودہ تین موجودہ سربراہان نے یہ ثابت کرنے کے لئے عملی اقدامات کا آغاز کیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک اگلے مرحلے کی قیادت کرنے اور لیکوڈ پارٹی میں نیتن یاہو کے جانشینوں کا مقابلہ کرنے کی زیادہ اہلیت رکھتا ہے۔

بینی گانٹز کی فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس اور اردن کے بادشاہ عبداللہ دوئم کے ساتھ ملاقاتیں آنے والے مسابقتی ماحول سے غیر متعلق نہیں ہیں؛ اور پھر کنیسٹ [یہودی ریاستی پارلیمان] میں فوج میں جبری خدمت کے قانون کے مسودے کی نامنظوری نے بہت شدت کے ساتھ واضح کیا کہ بینیٹ حکومت کی یکجہتی مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے۔

جس طرح کہ دکھائی دے رہا ہے، گانٹز اپنے آپ کو علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر سابقہ حکمرانوں کے مناسب ترین متبادل کے طور پر متعارف کروا رہا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ اپنے آپ کو اسرائیلیوں کے درمیان اسحاق رابین کے جانشین کے طور پر متعارف کرا دے۔

اس سے تھوڑے ہی فاصلے پر – حکمران الائنس کا دوسرا فرد – (موجودہ وزیر خارجہ) مائیر لاپید ہے جو سفارت کاری اور خارچہ پالیسی کے میدان میں اپنی ایک قابل قبول تصویر پیش کرنے کے لئے کوشاں ہے اور کہنا چاہتا ہے کہ وہ اپنے شرکاء کو فلسطینیوں کے ساتھ بات چیت اور عربوں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے پر آمادہ کرنے کا خواہاں ہے تاکہ “بائیڈن کی قیادت میں علاقائی مفاہمت کے ذریعے سلامتی کے قیام” کے نظریئے کو تقویت پہنچائی جا سکے۔

لیکن بینیٹ کا خطاب مختلف لوگوں سے ہوتا ہے اور اس کا لب و لہجہ بنیامین نیتن یاہو سے ہی ملتا جلتا ہے۔ کیونکہ اسے معلوم ہوچکا ہے کہ نیتن یاہو کے حامی اور سننے والے قومی-مذہبی دائیں بازو سے وابستہ لوگوں کے درمیان پائے جاتے ہیں اور یہ لوگ اس کے اقتدار کو تحفظ دے سکتے ہیں؛ چنانچہ اس کی زیادہ تر باتیں یہودی نوآبادیوں کی توسیع، فلسطینیوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی ملاقات کی نفی اور ان کے سلسلے میں کچھ معاشی اور سیکورٹی کے منصوبوں پر اکتفا کرنے، پر مبنی ہیں۔

شک نہیں ہے کہ بینٹ کی مخلوط حکومت میں شامل دوسری جماعتوں کے سربراہان میں سے ہر ایک کوشش ہے کہ کنیسٹ میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے اگلی حکومت میں اپنی موجودگی کے امکان کو یقینی بنائیں۔

ان افراد میں سر فہرست “اسرائیل بیتنا” (Yisrael Beiteinu = اسرائیل ہمارا گھر) پارٹی کا سربراہ ایویگڈور لائبرمین (Avigdor Lieberman) اور اسرائیلی لیبر پارٹی کی راہنما میراف اسرائیلی (Merav Michaeli) ہیں جو شاید اگلے مرحلے میں بہترین اتحادی کے بارے میں سوچ رہے ہوں۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ بینیٹ حکومت میں تردید درحقیقت تائید و تصدیق کے مترادف ہے اور اس کے رکن سیاستدان جتنا بھی اپنی ٹوٹتی اور کمزور حکومت کے استحکام کا ڈھنڈورا پیٹیں اندر ہی اندر جانتے ہیں کہ اس حکومت زیادہ دیر تک نہیں چلے گی اور انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ زیرو آور (Zero hour) کی طرف پلٹ رہی ہے۔ لہذا ان میں سے ہر ایک اگلی حکومت میں نیتن یاہو کے بعد والی لیکوڈ پارٹی نیز موجودہ حریفوں کے خلاف انتخابی مہم چلانے کے لئے تیار ہے اور ہر ایک نے اپنے ممکنہ حامیوں سے میٹھے میٹھے بول کہنا شروع کردیئے ہیں۔

البتہ نفتالی بینیٹ، – جو دوسرے سیاستدانوں کی طرح ابھی سے اگلی انتخابی مہم شروع کرچکا ہے – یہودی ریاست کی اسٹبلشمنٹ اور خفیہ اداروں اور فوج کی حمایت حاصل کرنے کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف مسلسل ہرزہ سرائیوں میں بھی مصروف ہے۔ اس نے اسی سلسلے میں، حالیہ چند ہفتوں سے ویانا مذاکرات میں رکاوٹیں ڈالنے کی اپنی سازشوں میں اضافہ کیا ہے اور کہا ہے کہ “اسرائیل کا بنیادی مشن ایران، حزب اللہ لبنان اور فلسطینی مقاومتی تحریک حماس سمیت مغربی ایشیا کی مقاومتی تنظیموں کو نقصان پہنچانا ہے”۔

نفتالی نے مذاکرات کے نتائج سے ناامیدی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغرب کو ایران کے خلاف زیادہ مضبوط موقف اختیار کرنا چاہئے۔

اس نے اپنی ہرزہ سرائیوں کو جاری رکھتے ہوئے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ “ایران اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے جتنا کہ وہ نظر آتا ہے”۔ [لیکن اس نے یہ نہیں کہا کہ اگر ایران کمزور ہے تو پوری مغربی دنیا اس کے ساتھ مذاکرات پر اصرار کیوں کرتی ہے اور اس کا نام سن کر یہودی ریاست کے سرغنوں بےچین کیوں ہوتے ہیں اور ایران کو نقصان پہنچانا غاصب ریاست کا بنیادی مشن کیوں ہے، اور وہ مغرب کو – بقول اس کے – ایک کمزور ملک کے خلاف! مضبوط موقف اپنانے کا مشورہ کیوں دے رہا ہے!؟]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242