اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
جمعرات

20 جنوری 2022

12:55:44 PM
1220737

شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد خطے کے بدلتے حالات اور خون شہادت کی تاثیر (پہلا حصہ)

شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد جب ایران نے عراق میں امریکی بیس ''عین الاسد'' پر بیلسٹک میزائل سے حملہ کیا تو ہر ایک کو ایسا لگ رہا تھا کہ ہر طرف ایک بار پھر جنگ کے شعلے بھڑک جائیں گے، توقع یہ تھی کہ ایران کی جانب سے جوابی کاروائی کے بعد امریکہ بھی جواب دے گا اور یوں خطرناک جنگ کا آغاز ہو جائے گا

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ فاران تجزیاتی ویب سائٹ کے مطابق، حوثیوں کے ذریعہ متحدہ امارات پر جو ڈرون اور بیلسٹک میزائل کے حملے ہوئَے ہیں اور حالیہ دنوں میں مآرب میں جو یمنیوں نے سامراج کو شکست فاش دی ہے اس کو دیکھتے ہوئے عالمی سامراج کی بوکھلاہٹ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ، جس طرح جلد بازی میں سعودی محاذ کی طرف سے یمن پر کاروائی ہوئی اور عام لوگ جاں بحق ہوئے اس سے واضح ہے کہ سامراج کے پاس انتقام کی آگ میں جھلسنے کے علاوہ اور کوئی آپشن بچا نہیں ہے وہ بے گناہوں اور مظلوموں کا ہی قتل عام کر سکتے ہیں ان جیالوں تک پہنچنے میں وہ بری طرح ناکام ہیں جو ہر محاذ پر ایمانی طاقت کے ذریعہ مسلسل عالمی استکبار کی تقدیر میں ناکامیوں کو لکھتے چلے جا رہے ہیں جہاں تک خطے کے حالات کی بات ہے تو اکیسویں صدی کی جس دہائی میں ہم زندگی گزار رہے ہیں شک نہیں کہ اس میں مشرق وسطی کے حالات کبھی اتنے نا بہ گفتہ نہیں تھے ، اور نہ ہی کبھی اتنے خطرناک تھے جتنے ابھی ہیں، یقینا صاحبان فکر و نظر خطے کے نازک حالات کو بھی دیکھ رہے ہیں اور سامراج کی ریشہ دوانیاں بھی انکے پیش نظر ہوں گی اور دنیا کے منظر نامے پر نظر رکھنے والے اس بات کی تائید کریں گے کہ ایسے بحرانی حالات موجودہ دور میں اس سے پہلے دیکھنے کو نہیں ملے وہ بھی ایسے حالات جہاں پل پل کے بارے میں ایک غیر یقینی کیفیت پائی جاتی ہو کہ کب کیا ہو جائے پتہ نہیں نہ ہی جنگ کے بارے میں کچھ کہا جا سکتا ہے نہ ہی یہ کہا سکتا ہے کہ کب ایک چھوٹا سا تصادم خطے کو آگ میں جھونک دے بارہا ایسا ہوا کہ لگا ایک مکمل جنگ شروع ہوا چاہتی ہے لیکن پھر ٹل گئی اور ہر ایک نے چین کی سانس لی ۔
ابھی حال ہی میں جس طرح حوثیوں نے متحدہ امارات پر ڈرون حملے کئے ہیں اور جس طرح مسلسل سعودی محاذ کو شکست مل رہی ہے اس نے لوگوں کے ذہنوں میں بہت سے سوالات پیدا کر دئے ہیں کہ جس مشرق وسطی کو عالمی سامراج اسرائیل کے لئے پر امن بنانا چاہتا تھا تمام تر سفارتی تعلقات کی بحالی کے باوجود آج وہی علاقے یمنی حوثیوں کی میزائلوں کی زد پر ہیں جنہوں نے استکبار کی خطے میں کامیابی کے لئے اپنے ضمیر کے ساتھ اپنا سب کچھ داوں پر لگا دیا تھا لیکن آج وہ انقلاب کے لپکتے شعلوں کو اپنے گھروں تک پہنچنے سے روکنے میں ناکام ہیں ۔
جہاں تک خطے میں جنگ کی صورت حال ہے تو مشرق وسطی کا حال ایسا ہی ہے جیسے کسی بے آب و گیاہ صحرا میں گھن گرج کے ساتھ بادل اکھٹے ہوں اور پھر ہوا کے دوش پر اڑ کر اپنی راہ لیں نہ ہی برسیں اور نہ ہی زمین جل تھل ہو ، ایسا ہی کچھ علاقے کی صورتحال ہے یہاں ہر کچھ دنوں میں جنگ کا بگل بجتا ہے اور لگتا ہے سب کچھ تباہ ہو جائے گا لیکن پھر سب کے سب نارمل ہو جاتا ہے اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ دشمن خائف ہے کہ اگر کسی جنگ کے دلدل میں پھنس گیا تو اس کے لئے نکلنا بہت مشکل ہوگا جہاں تک شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے حالات کی بات ہے تو اس وقت تو حالات اس وقت سے بھی زیادہ خطرناک تھے جن میں ہم جی رہے ہیں۔
شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد جب ایران نے عراق میں امریکی بیس ”عین الاسد” پر بیلسٹک میزائل سے حملہ کیا تو ہر ایک کو ایسا لگ رہا تھا کہ ہر طرف ایک بار پھر جنگ کے شعلے بھڑک جائیں گے، توقع یہ تھی کہ ایران کی جانب سے جوابی کاروائی کے بعد امریکہ بھی جواب دے گا اور یوں خطرناک جنگ کا آغاز ہو جائے گا ۔امریکہ کی کھلی دھمکی بتا رہی تھی حالات کیا ہونگے ہر ایک کو انتظار تھا امریکہ کی طرف سے اب کیا اقدام ہوگا اور اس کے لئے نظریں جمی تھیں وہائیٹ ہاوس میں ہونے والے اس وقت کے امریکی صدر جمہوریہ کے خطاب پر، ہر ایک سوچ رہا تھا کہ نہ جانے امریکی صدر کی زبان سے کیا نکل جائے اور دنیا پھر سمیٹتی رہ جائے لیکن بالکل توقع کے برخلاف وہ سب کچھ نہیں ہوا جسکی دھمکی دی گئی تھی اور بات اقتصادی پابندیوں پر سے ہوتے ہوئے یہاں پر ختم ہو گئی کہ “ہمارے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں اور ہم زیادہ طاقت ور ہیں لیکن اپنی طاقت کو جنگ میں صرف کرنا نہیں چاہتے ہم خوش ہیں کہ ایرانی حملے میں ہماری فوج کو ئی نقصان نہیں ہوا اور کوئی امریکن ہلاک نہیں ہوا حملے میں کتنا نقصان ہوا اسکی الگ الگ روایتیں ہیں لیکن اتنا تو طے ہے کہ ایران نے تقریبا ۷۰ سال کے اس طلسم کو توڑ دیا جو امریکہ نے اپنی طاقت کا بنایا تھا کہ اس پر کوئی حملہ نہیں کر سکتا پرل ہاربل کے بعد بظاہر یہ پہلا حملہ تھا جو کسی ملک کی جانب سے کسی امریکی بیس پر ہوا ہو ادھر سب نے دیکھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے وعدہ انتقام کے مطابق انتقامی کاروائی کرتے ہوئے عراق میں موجود امریکی بیس پر حملہ کر کے واضح طور پر اس بات کا اعلان کر دیا کہ ہر گز ہم خاموش تماشائی نہیں بنے رہیں گے اگر ہم پر حملہ ہوا تو بھرپور انداز میں جواب دیں گے ۔شاید یہی پیغام اس بات کا سبب بنا کہ دشمن نے واضح طور پر پیچھے ہٹتے ہوئے بالکل اس طرح کا رد عمل پیش کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو جب کہ اس سے پہلے لگ رہا تھا کہ مشرق وسطی آتش فشاں کے دہانے پر ہو اور ایک چنگاری آگ کے دھانے کا منھ کھول دے اور پھر ہر طرف آگ ہی نظر آئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242