اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعرات

6 جنوری 2022

8:35:19 AM
1216089

امریکہ کو تزویراتی نقصانات اور مسلسل پسپائیوں کا سامنا ہے (2)

ایران کا دباؤ اور امریکہ کی پسپائی

ایران میں نئی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے ساتھ ساتھ ملت ایران کے ضائع شدہ حقوق کی بحالی پر نئی پارلیمنٹ کا اصرار نیز یہ موقف کہ ایران امریکہ کی وقت کشی کا انتظار نہیں کرے گا اس بات کا باعث بن گیا ہے کہ امریکہ غنڈہ گردی پر مبنی لچر الفاظ بروئے کار لانے کی اپنی عادت کو ترک کر دیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ ایران کے امور میں امریکی ایلچی رابرٹ مالی نے کہا ہے کہ ان کا ملک 2015ع‍ کے ایٹمی معاہدے سے بدتر کسی مفاہمت کو قبول نہیں کرے گا، کیونکہ ایران نے اس عرصے میں اپنے جوہری پروگرام کو وسعت دی ہے۔
مالی نے امریکہ کے ہاتھوں ایٹمی معاہدے کی پامالی کی طرف اشارہ کئے بغیر کہا: ایٹمی معاہدے کی بحالی کی کوشش ایک بےجان جسم کے احیاء کی کوشش ہے۔ اس وقت ایران اپنی علاقائی سرگرمیوں میں پہلے سے زیادہ متخاصم اور متشدد ہوچکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بہار 2021ع‍ کو ہونے والے مذاکرات اور سفارت کاری کے چھ ادوار میں حقیقی پیشرفت ہوئی تھی۔
رابرٹ مالی نے یہ موقف ایسے حال میں اختیار کیا ہے کہ بائیڈن، بلینکن اور رابرٹ مالی جیسے لوگ ایک سال قبل، ڈیموکریٹ جماعت کے برسر اقتدار آنے کے بعد، مکرر در مکرر دعوی کرتے رہے کہ وہ ایران کے ساتھ سابقہ معاہدے سے کہیں زیادہ طاقتور، مستحکم تر اور وسیع تر معاہدے کے درپے ہیں؛ اور یہ کہ وہ معاہدے میں مندرجہ پابندیوں کو دائمی ابدی بنانا چاہتے ہیں، اور انہیں ایران کے میزائل پروگرام اور علاقائی اثر و رسوخ پر سمجھوتہ کرنے کی حد تک توسیع دینا چاہتے ہیں۔ امریکیوں کی گستاخی صدر روحانی کے دور میں عروج کو پہنچی تھی اور بعض حکام معذرت خواہانہ اور انفعالی سفارت کاری پر اصرار کر رہے تھے۔
لیکن ایران میں نئی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے ساتھ ساتھ ملت ایران کے ضائع شدہ حقوق کی بحالی پر نئی پارلیمنٹ کا اصرار - نیز یہ موقف کہ ایران امریکہ کی وقت کشی کا انتظار نہیں کرے گا - اس بات کا باعث بن گیا ہے کہ امریکہ غنڈہ گردی پر مبنی لچر الفاظ بروئے کار لانے کی اپنی عادت کو ترک کر دیں اور اب رابرٹ مالی کہتے ہیں کہ "ہم JCPOA سے بدتر کوئی معاہدہ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں!"
یہ عبارت ایران کے قوی منطق اور مذاکرات میں اس کی بالا دستی کی نشاندہی کرتی ہے جس نے امریکہ کو تمام پابندیاں اٹھانے، پابندیوں کے خاتمے کی توثیق کرانے، معتبر ضمانتیں دینے اور چند سالہ عہدشکنیوں سے ایران کو ملنے والے نقصانات کا ازالہ کرنے جیسے مطالبات سے واشنگٹن کو شدید دباؤ سے دوچار کردیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ جب امریکہ ان سارے مطالبات کو عملی جامہ پہنائے گا اور غیر جانبدار فریق اس کے اقدامات کی توثیق کریں گے تو ہی امریکہ کو معاہدے میں واپسی کی اجازت دی جاسکے گی۔ ایرانی مذاکرات کاروں کی ٹیم کا اصرار ہے کہ معاہدے کے نفاذ کو توازن اور اعتدال تک پہنچنا چاہئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110