اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعرات

6 جنوری 2022

8:23:11 AM
1216088

جنرل الحاج قاسم کی شہادت سے قصر ستم پر لرزہ طاری ہو گیا (2)

یزیدیت کا نیا رنگ ڈھنگ

"اگر حسین بن علی (علیہما السلام) آج کے زمانے میں ہوتے یقینا فرما دیتے کہ "اگر میرے لئے عزاداری کرنا چاہتے ہو، میرے لئے سینہ زنی اور زنجیر زنی کرنا چاہتے ہو تو تمہارا آج کا نعرہ "فلسطین" ہونا چاہئے۔ آج کا شمر موشے دایان ہے، تیرہ سو سال قبل کا شمر مر گیا۔ آج کے شمر کو پہچان لو، آج تمہارے شہر کے در و دیوار کو "فلسطین" کے [نام اور] نعرے سے ہل جانا چاہئے"۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ گزشتہ سے پیوستہ
اقبال نے کہا تھا:
موسی و فرعون و شبیر و یزید
این دو قوت از حیات آید پدید

“موسیْ و فرعون و شبیر و یزید
[حق و باطل کی] یہ دو قوتیں ازل سے چلی آ رہی ہیں۔
شہید مطہری نے نصف صدی قبل کہا تھا:
"اگر حسین بن علی (علیہما السلام) آج کے زمانے میں ہوتے یقینا فرما دیتے کہ "اگر میرے لئے عزاداری کرنا چاہتے ہو، میرے لئے سینہ زنی اور زنجیر زنی کرنا چاہتے ہو تو تمہارا آج کا نعرہ "فلسطین" ہونا چاہئے۔ آج کا شمر موشے دایان ہے، (1) تیرہ سو سال قبل کا شمر مر گیا۔ آج کے شمر کو پہچان لو، آج تمہارے شہر کے در و دیوار کو "فلسطین" کے [نام اور] نعرے سے ہل جانا چاہئے"۔
چنانچہ یہ سمجھنے والی بات ہے اور الحاج قاسم اور ان کے ساتھیوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا ہے کہ یزیدیت، آج استکبار اور صہیونیت کی شکل میں ہمارے سامنے ہے اور مقاومت اسلامیہ حسینیت کی علمبردار ہے۔ شہید الحاج قاسم سلیمانی موجودہ زمانے میں اس محاذ کے سپہ سالار تھے اور آج بھی مقاومت کی کمان ان ہی کے ہاتھ میں ہے؛ یہ ہم نہیں بلکہ ان کے قاتل کہہ رہے ہیں کہ "جتنا نقصان قاسم سلیمانی نے ہمیں قتل ہونے کے بعد پہنچایا ہے اتنا قتل سے قبل نہیں پہنچایا تھا"۔ چنانچہ الحاج قاسم نے ظاہری حیات میں کفر و استکبار کو ناکوں چنے چبوائے لیکن انھوں نے شہادت کے بعد جو کارنامے رقم کئے ہیں ان کی کہیں مثال نہیں ملتی؛ یہاں تک کہ ان دو برسوں میں استکبار اور صہیونیت کو ایک لمحے کے لئے بھی چین و سکون نصیب نہیں ہوسکا ہے۔
صہیونیوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو جولان کے مقبوضہ فلسطین سے الحاق، امریکی سفارتخانے کی قدس شریف منتقلی، عربوں کو ابراہیم نامی معاہدے کے تحت تل ابیب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے، صدی کی ڈیل اور پانچ عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے ایٹمی معاہدے سے علیجدگی جیسے عجلت زدہ فیصلوں پر مجبور کیا، مگر الحاج قاسم کی شہادت کے صرف دو سال بعد یہ ساری سازشیں، ایران اور مقاومت پر لگی شدید پابندیاں، غرضیکہ سب کچھ ختم ہؤا ہے یا ختم ہو رہا ہے؛ امریکہ افغانستان سے بھاگ چکا ہے؛ عراق سے بھاگ رہا ہے؛ افغانستان سے شرمناک فرار کے بعد آج امریکہ کے کٹھ پتلیوں کو اپنے مستقبل کے حوالے سے خوف لاحق ہوچکا ہے اور دشمنی میں زیادہ روی سے نادم ہوکر ایران کے ساتھ مذاکرات کررہے ہیں، یمن میں عربی-مغربی-عبرانی محاذ کو شکست ہوئی ہے، مقاومت ہمیشہ سے کہیں زیادہ قوی ہے یہاں تک کہ صہیونی اور امریکی حکام، تجزیہ کار اور سیاستدان ایٹمی معاہدے سے علیحدگی کو امریکی سفارتی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی قرار دینے لگے ہیں اور ویانا مذاکرات کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوچکا ہے جبکہ ایران کا موقف پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ اس عرصے میں امریکہ نے جو کچھ بھی اسرائیل کی سیاسی حیات میں اضافے کے لئے سرانجام دیا ہے، وہ اسرائیل اور امریکہ کی علاقائی پوزیشن کو دھچکا لگنے کا باعث بنے ہوئے ہیں اور ان کے عرب اتحادیوں کے تاج و تخت پر لرزہ طاری ہے۔
شہید جنرل الحاج قاسم سلیمانی کے قاتلوں کو جان کی پڑی ہے، ایرانی وزارت خارجہ اور عدلیہ نے شہید پر دہشت گردانہ حملے میں ملوث تقریبا ڈیڑھ سو افراد کی فہرست تیار کرلی ہے جن میں سر فہرست سابق امریکی صدر ٹرمپ ہے، جس کو الحاج قاسم کی شہادت پر منتج ہونے والی اپنی دہشت گردانہ کاروائی پر فخر تھا، آج مکمل طور پر مایوسی اور اداسی میں مبتلا ہے اور اس نے ایکسیوس (Axios) نامی ویب گاہ کے ساتھ بات چیت میں اسرائیل کے بارے وہ کچھ کہہ دیا ہے جس نے امریکی باشندوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور گویا، مختصر سی امریکی تاریخ میں پہلی بار ایک امریکی سابق صدر نے شہید کے خون کے ابال کے نتیجے سے خوفزدہ ہوکر اندر کے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے اور کہا ہے: "میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے قاسم سلیمانی پر حملے کے حوالے سے اسرائیل نے دھوکا دیا ہے؛ وزیر اعظم نیتن یاہو چاہتا تھا کہ امریکہ اپنے آخری سپاہی تک ایران کے خلاف لڑے ۔۔۔ امریکی عوام مناسب وقت پر اس سلسلے میں پوری تفصیلات سے آگاہ ہوجائیں گے"۔ ٹرمپ کے اس انکشاف کے معنی یہ ہیں کہ "اسرائیل نے امریکی حکومت کو الحاج قاسم سلیمانی پر دہشت گردانی حملے پر مجبور کیا تھا" اور یہ افغانستان سے فرار کے بعد کے مختصر عرصے میں امریکہ کے پیکر پر دوسری بڑی چھوٹ ہے۔
ٹرمپ نے بعدازاں نے شہید سلیمانی کے قتل میں مطلوبہ مجرم کی حیثیت سے مقاومت کے انتقام کا نشانہ بننے سے بچنے کی خاطر یہاں تک بھی کہہ دیا ہے کہ "امریکی عوام یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں"۔
یقینا یہ ابتدائے راہ ہے؛ اور ہم سب کو شہید سلیمانی کے ابلتے خون سے مغرب اور صہیونیت کے خوف کی اگلی نشانیوں کا انتظار ہے۔ " أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: فرحت حسین مہدوی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ بدنام زمانہ یہودی دہشت گرد موشے دایان 1915 میں پیدا ہؤا اور 1981 میں چل بسا۔ 1953 سے 1958 تک غاصب اسرائیلی ریاست کا کمانڈ اینڈ آپریشن اسٹاف کا سرغنہ اور چوتھا اسرائیلی جنرل تھا۔ وہ 14 سال کی عمر میں ہگانا دہشت گرد ٹولے میں شامل ہؤا۔ دوسری عالمی جنگ میں ایک آنکھ سے محروم ہؤا۔ خبیث برطانوی راج کے بعد جب انگریزوں نے فلسطینیوں کی سرزمین یہودیوں کے سپرد کردی تو وہ مقبوضہ درہ اردن میں تعینات ہؤا۔ سنہ 1950 میں اس نے عسقلان یں مسجد نبی حسین سمیت متعدد مساجد کو شہید کیا۔ کچھ فلسطینیوں کا خیال تھا کہ اس مسجد میں امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک مدفون تھا۔ 1969 کو موشے دایان فلسطینی مزاحمت سے نمٹنے کے لئے خصوصی تربیت حاصل کرنے کے لئے امریکی فوجی دستوں کے ساتھ ویتنام چلا گیا اور 1967 میں عربوں کی شکست میں موشے دایان کا بڑا کردار تھا۔ اور بعد میں وہ وزیر جنگ بنا اور 1973 میں لوئی اشکول کی ہلاکت کے بعد گولڈامائر وزیر بنی تو یہ اپنے عہدے پر برقرار تھا اور 1973 کی جنگ میں بھی مصر کو زبردست شکست دی (افسوسناک تاریخ کے افسوسناک کے یہ واقعات شرمناک ہیں لیکن مسلم نوجوانوں کی اطلاع کے لئے ضروری بھی ہیں)۔ 1977 میں یہی شخص مناخم بیگن کی حکومت میں وزیر خارجہ بنا اور اسی نے مصر کو کیمپ ڈیوڈ کے شرمناک معاہدے پر دستخط کرنے پر آمادہ کیا۔ موشے دایان 1981 میں حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے اپنے اعمال کا جواب دینے کے لئے اس مقام پر پہنچا جہاں یہودی نہیں جانا چاہتے۔ (دیکھئے: سورہ جمعہ آیت 6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110