اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
منگل

4 جنوری 2022

2:40:31 PM
1215551

جنرل سلیمانی پر دہشت گردانہ حملوں کے بعد؛ (۲)

امریکہ ایران کے مقابلے میں خود ساختہ بکھیڑے سے دوچار ہے

بائیڈن انتظامیہ ایران پر حقیقی دباؤ نہیں ڈال سکی ہے اور اسی مسئلے نے ویانا مذاکرات میں امریکہ کو تعطل اور رکاوٹوں سے دوچار کیا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ قطری اخبار "العربی الجدید" نے اپنے تجزیئے میں لکھا ہے: تہران مغربی فریقوں کے مطالبات سے بالکل بے رخ ہوکر ویانا مذاکرات میں شرکت کررہا ہے۔ اسی لیے واشنگٹن اور اس کے یورپی اتحادی ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے متبادل راستے تلاش کر رہے ہیں۔

یہ وہ مخمصہ ہے جس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے - معاہدے سے دستبردار ہو کر اور زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی نافذ کرکے - بائیڈن کو پھنسایا ہے۔ بائیڈن حکومت تجربے سے بھانپ گئی کہ صرف اقتصادی پابندیوں کے ذریعے ایٹمی ایران کو روکنے کے لئے کافی دباؤ کا باعث نہیں بن سکتیں۔ ایران پہلے ہی سے پابندیوں کے لئے تیار تھا۔ چنانچہ اس نے علاقے کے ممالک کے ساتھ تزویراتی تعلقات قائم کئے اور ان تعلقات کی بنا پر اس نے پابندیوں کے مسئلے پر کافی حد تک غلبہ پایا۔ ایران اپنے تیل کا زیادہ حصہ چین کو برآمد کرتا ہے اور تیل اور گیس سے تیار کردہ مصنوعات چین اور متحدہ عرب امارات کے ذریعے دنیا جہان کو فروخت کرتا ہے۔ ترکی کو گیس برآمد کرتا ہے اور علاوہ ازیں ایسے بحری جہازوں کے ذریعے بالواسطہ سمندری راستوں کی تلاش کرنے میں مہارت رکھتا ہے جن کی نگرانی کھوج لگانے والے آلات سے ممکن نہیں ہے۔
اس لمحے تک بائیڈن انتظامیہ تہران پر حقیقی دباؤ ڈالنے میں ناکام رہی ہے کیونکہ وہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں کم کرنے کی غرض سے تیل کی پیداوار میں اضافہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ خلیج فارس کی ساحلی عرب ریاستیں تیل کی پیداوار بڑھانے کی تجویز سے متفق نہیں ہیں کیونکہ اس صورت میں انہیں بہت بڑے نقصانات سے دوچار ہونگی اور دوسری بات یہ کہ تیل کی قیمتوں میں کمی اس بات کی ضمانت فراہم نہیں کرتی کہ تہران اپنے جوہری اور میزائل پروگرام نیز علاقائی اثر و رسوخ سے دست بردار ہوگا! بلکہ اس کا الٹا اثر ہوتا ہے۔
ایران ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ایک علاقائی اور ایٹمی قوت ہے، گوکہ شاید اپنے اس عزم کا اعلان نہ ہی کرے۔ ایران ہنوز ایسے معاہدے کا خواہاں ہے جو اقتصادی پابندیوں کے اٹھائے جانے کے سلسلے میں اس کے مفاد میں ہو؛ بغیر اس کے، کہ جوہری اور میزائلی پروگرام اور علاقائی اثر و رسوخ کے سے متعلق مغرب کو کوئی رعایت دیدے۔
تہران نے ایٹمی معاہدے میں واپسی کے عالمی رجحان، یورینیم کی افزودگی کی سطح میں اضافے اور خطے کے استحکام اور خلیج فارس میں جہازرانی کو بحران زدہ کرنے کی دھمکی، بائیڈن کے آپشنز کے محدود ہونے، جیسے امور کو اہمیت دیتا ہے۔
بائیڈن کو اب اپنی ساکھ بچانے کے لئے کوئی راستہ تلاش کرنا چاہئے۔ وہ مذاکرات میں ایران پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ ایسا راستہ تلاش کررہے ہیں کہ جس سے گذر کر وہ ایران پر اپنی پابندیوں کو مفید بنا سکیں؛ چنانچہ انہیں بہت سے پیچیدہ اور درہم برہم موضوعات کا انتظام و انصرام کرنا پڑ رہا ہے تاکہ اپنے لئے درپیش بند گلی سے نکل سکیں۔ یہ عجیب بات نہیں ہوگی کہ ایران اور امریکی اتنا سارا دوطرفہ تناؤ پیدا کرنے کے بعد اب یورپ کی ثالثی اور روس اور چین کے حامیانہ کردار کے بدولت مفاہمت کا کوئی کلیہ یا فارمولا حاصل کریں، ایسا کلیہ جو ایران پر لگی کچھ پابندیوں کو کم کردے۔ لیکن یہ سب، اس حقیقت کو بدل نہیں سکتا کہ ایران ایک ایٹمی ملک میں تبدیل ہورہا ہے۔

جاری۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110