اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
بدھ

29 دسمبر 2021

4:56:15 PM
1213533

صہیونی اخبار ہا آرتص:

روس، چین اور ایران جانتے ہیں کہ امریکی عالمی نظام اختتام پذیر ہو چکا ہے

اگر کسی کو یہ وہم تھا بھی کہ یہ قوانین اور امریکی ورلڈ آرڈر - وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کے سوا کسی اور شخص کے کرسی صدارت پر براجماں ہونے کی صورت میں - دوبارہ بحال ہوسکتا ہے، تو اس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ سنہ 2021ع‍ ایسا سال تھا جس میں مغرب کی طرف سے کسی بھی مسلط قانون کی عدم موجودگی بالکل واضح ہوگئی اور روس، چین اور ایران اس حقیقت پر متفق ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ ہاآرٹض نے اپنی ایک یادداشت میں لکھا: روس، چین اور ایران سمجھ چکے ہیں کہ امریکی عالمی نظام کا دور ختم ہو چکا ہے اور موجودہ امریکی صدر اس کی بحالی سے عاجز ہیں۔
یادداشت کے اہم نکات:
– یوکرین کی سرحدوں کے قریب روسی افواج کی تعیناتی اور نقل و حرکت کے بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ کی حالیہ رپورٹوں اور ان علاقوں میں فوجی مشقوں کے بعد 10000 روسی فوجیوں کی چھاؤنی میں واپسی کے سلسلے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے بعد یہ بات قابل قبول ہے کہ روس بتدریج تناؤ کو کم کر رہا ہے۔
– یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ پیوٹن یوکرین پر وسیع پیمانے پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ انھوں نے محض یوکرین کی حکومت اور نیٹو اتحاد کی کمزوریوں کو بے نقاب کرکے اہم تزویراتی سیاسی اہداف حاصل کر لئے ہیں؛ وہ یوں کہ نیٹو نے اپنے بیان میں بےشرمی کے ساتھ کہہ دیا کہ روسی حملے کی صورت میں یہ مغربی فوجی اتحاد یوکرین کی مدد کو نہیں آئے گا۔
– سنہ 2021ع‍ میں یہ دوسری دفعہ ہے کہ روس نے بڑی تعداد میں فوجی دستوں کو یوکرین کی سرحدوں پر تعینات کیا ہے۔ ماہ اپریل میں بھی روسی فوجی دستے ایک گولی چلائے بغیر سرحدوں کے پاس تعینات کئے گئے اور اگلے چند ہفتوں میں بھی یہ سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔ لیکن اگر روسی جنگی بریگیڈ دونباس (Donbas) میں داخل نہ بھی ہوں، یوکرین کے معاشی مرکز کو نشانہ نہ بھی بنائیں، اور یوکرین کے صوبہ اودیسا (Odessa) کی بڑی بندرگاہ پر قبضہ نہ بھی کریں، حالیہ مشقوں میں ان کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ انہیں ناکام نہیں سمجھنا چاہئے۔
– پیوٹن چاہے یوکرین پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں چاہے نہ رکھتے ہوں، وہ یقینی طور پر اپنے پڑوسیوں اور باقی دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود کسی بھی دوسرے روسی قوم پرست کی طرح، پیوٹن کو بھی یقین ہے کہ یوکرین ایک ملک یا ایک قوم نہیں ہے اور اسے ایک بار پھر روس کا حصہ بننا چاہئے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ 2014 میں کریمیا کے الحاق سے کہیں زیادہ مہنگا کام کرنے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہیں! اس طرح کا کوئی بھی مہنگا اقدام اس کی وقعت اور اہمیت پر منحصر ہے۔ فوجی طاقت کا توازن بلاشبہ روس کی طرف ہے لیکن یوکرین بھی سخت مقابلہ کرے گا۔
– لیکن اس طرح کے حملے کا حکم دیے بغیر بھی، پوٹن نے یوکرین میں مغربی فوجی مداخلت کے تصور کو غلط [ہمیشہ کے لئے] باطل اور یوکرین کے صدر کے طور پر ولودومیر زیلینسکی (Volodymyr Zelensky) کی پوزیشن کو ڈرامائی طور پر کمزور کردیا۔ پیوٹن نے ایک بار پھر اس تصور پر ضرب لگا دی جسے باراک اوباما “قانون کی حکمرانی” کا نام دیتے تھے۔
– ڈونالڈ ٹرمپ کے دور میں بھی ایسا ہی ہؤا، جب امریکہ نے “قوانین کی پابندی کی اداکاری” تک کو بھی ترک کردیا۔ اور اب، جو بائیڈن کے وائٹ ہاؤس میں بر سر اقتدار آنے کے بعد بھی معاملہ وہی ہے، چنانچہ روس ان قوانین کا مذاق اڑانے میں تنہا نہیں ہے۔ اگر آنے والے ہفتوں میں روسی فوجیوں کی تعیناتی ایک بار پھر عمل میں آتی ہے تو پیوٹن کو کچھ بھی نہیں کھونا پڑے گا۔ وہ پہلے ہی ثابت کر چکے ہیں کہ حملے کے وقت اور جگہ کا تعین کر سکتے ہیں۔ چین کا بھی یہی حال ہے جس نے سنہ 2021ع‍ میں کئی مرتبہ تائیوان کی فضائی اور سمندری حدود کی خلاف ورزی کی ہے۔
چینی صدر شی جن پنگ کے پاس پڑوسی جزیرے (تائیوان) پر حملے پر جوا نہ کھیلنے کی معقول وجوہات ہیں، لیکن وہ دنیا کو جتا رہے ہیں کہ ایسا کرنا یا نہ کرنا ان کی مرضی پر منحصر ہے؛ تائیوان اس وقت تک خود مختار رہے گا جب تک کہ اجازت دیں گے۔ چین کا پیغام یہ ہے کہ تائیوان کوئی مستقل اور خودمختارانہ وجود نہیں رکھتا اور اس نے جو وقت ادھار کے طور پر لیا ہے، اس کے خاتمے تک زندہ رہنے کا حق رکھتا ہے اور کوئی بھی اس سلسلے میں کچھ نہیں کرسکتا۔ اس بات کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ تائیوان کے راہنما کیا کہتے ہیں؟ افغانستان سے بھاگا ہؤا امریکہ کسی دور دراز کے ملک میں لڑنے کا قابل نہیں رہا ہے اور ایسا کوئی واقعہ کم از کم جو بائیڈن کے زمانے میں رونما نہیں ہوگا۔
– اگرچہ ایران کے پاس روس اور چین جیسی عالمی طاقت نہیں ہے، تاہم اس نے اس سال جوہری معاہدے میں واپسی کے لئے مشکل اور سست رفتار مذاکرات میں اسی طرح کے حربے اپنائے ہیں۔ پچھلے ساڑھے تین سالوں کے دوران، – جب سے ٹرمپ نے ایران کے ساتھ معاہدے سے علیحدگی اختیار کی ہے – اور “زیادہ سے زیادہ دباؤ” پر مبنی پابندیاں عائد کی ہیں، ایران یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہا ہے کہ وہ اس دباؤ کو برداشت کر سکتا ہے، اپنی جوہری صلاحیتوں کو ترقی دے سکتا ہے اور اپنی حامی افواج کو بھی لیس کرسکتا ہے۔ (البتہ ہا آرتص کے مطابق ایران کو حاصل روس اور چین کی مدد بھی کم نہیں رہی)۔
– نئی ایرانی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد، مذاکرات میں تہران کی طرف سے مغرب کو حد سے زیادہ رعایتیں دینے کے [سلسلے میں ایران] کے خدشات ختم ہو گئے ہیں، اور – ایسے حال میں کہ ایٹمی سینٹری فیوجز گھوم رہے ہیں – نئی مذاکراتی ٹیم سازباز کرنے والی نہیں ہے۔
– ایران کو تمام راستے طے کرنے اور ایٹمی دہلیز کو عبور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے اپنے یورینیم کے ذخائر کو فوجی مقاصد ميں بروئے کار لانے کی طرف آگے بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ اس نے پہلے ہی ثابت کردیا ہے کہ پابندیوں نیز اسرائیل سے منسوب تخریب کاری اور قتل و غارت گری کے باوجود چند مہینوں میں [ایٹمی دہلیز] اور اینٹم بم بنانے کے بالکل قریب پہنچ کر اسی نقطے پر جوڑ توڑ اور بحث و مباحثہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرسکتا ہے اور اس کے لئے نظام الاوقات کا تعین کرسکتا ہے۔ ادھر امریکہ اسے روکنے والا نہیں ہے اور بعض اسرائیلی لیڈروں اور کمانڈروں کے متکبرانہ دعووں کے برعکس اسرائیلی ریاست بھی ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف کارروائی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
– تنیجہ یہ ہے کہ اگر کسی کو یہ وہم تھا بھی کہ یہ قوانین اور امریکی ورلڈ آرڈر – وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کے سوا کسی اور شخص کے کرسی صدارت پر براجماں ہونے کی صورت میں – دوبارہ بحال ہوسکتا ہے، تو اس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ سنہ 2021ع‍ ایسا سال تھا جس میں مغرب کی طرف سے کسی بھی مسلط قانون کی عدم موجودگی بالکل واضح ہوگئی اور روس، چین اور ایران اس حقیقت پر متفق ہیں۔
اس صہیونی اخبار کی یادداشت اسی دن شائع ہوئی جس دن اسلامی جمہوریہ ایران کے سینئر مذاکرات کار “ڈاکٹر علی باقری” اور ان کا ساتھی وفد 1+4 گروپ کے ساتھ مذاکرات کے لئے ویانا پہنچے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242