اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
منگل

28 دسمبر 2021

11:27:25 AM
1213161

ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور؛

يہودی ربیوں کے ساتھ ترک رجب اردگان کی ملاقات کی ان کہی باتیں

صورت احوال یہ کہ حال ہی میں غاصب صہیونی ریاست کی طرف سے کچھ یہودی ربیوں نے انقرہ کے صدارتی محل میں ترک صدر رجب طیب اردگان سے بات چیت کی جس پر ملا جلا رد عمل سامنے آیا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ لگتا ہے کہ ان دنوں جبکہ یورپی اتحاد میں ترکی کی رکنیت کے مسئلے کو ایجنڈے سے نکال دیا گیا ہے اور امریکہ نے اس کو ایف 35 طیارے بیچنے پر پابندی عائد کی ہے، تو جناب رجب اردگان نے مغرب میں یہودی لابیوں کا سہارا لینے کے لئے یہودی ریاست کے بغل میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ آذربائیجان کی جنگ میں یہودی ریاست کے ساتھ مل کر ارمینیا کے خلاف باکو کا ساتھ دینا ہو، یا پھر یہودی ریاست کے ساتھ اقتصادی روابط کو فروغ دینا ہو یا اسرائیل کے علاقائی اتحادیوں "امارات اور سعودیوں" کو دوستی کے پیغامات بھیجنا ہوں، سب کچھ تل ابیب کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے ہو رہا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے شیدائی اردگان کی یہود نوازی اب سیاسی اور معیشت کے دائرے سے نکل کر مذہب کے دائرے میں داخل ہوئی ہے اور یہود دوستی سے پرہیز پر مبنی قرآن کے تمام تر فرامین اور متعلقہ آیات کریمہ کے معطیات و مندرجات کو پامال کرتے ہوئے یہودی ربیوں کو انقرہ بلوایا گیا ہے، اور اردگان نے ان کی خوب آؤ بھگت کی ہے۔
انقرہ میں یہودی ریاست کے بھیجے ہوئے کچھ ربیوں [بالفاظ دیگر "یہودی مولویوں"] نے ترک صدر رجب طیب اردگان کے ساتھ ملاقات کی، اور جناب اردگان نے اس ملاقات میں "صہیونی-اسرائیلی ریاست کے تعلقات کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا؛ دعاؤں، نیک تمناؤں اور مذہبی تحائف کا تبادلہ ہؤا۔
صورت احوال یہ کہ حال ہی میں غاصب صہیونی ریاست کی طرف سے کچھ یہودی ربیوں نے انقرہ کے صدارتی محل میں ترک صدر رجب طیب اردگان سے بات چیت کی جس پر ملا جلا رد عمل سامنے آیا۔
المیادین اخباری ویب گاہ نے ایک رپورٹ کے ضمن میں اس مسئلے کو زیر بحث لاتے ہوئے لکھا کہ ترک صدر نے گذشتہ بدھ (22 دسمبر 2021ع‍) کو صہیونی ریاست سے آئے ہوئے یہودی ربیوں کا خیر مقدم کیا اور اس ملاقات کا مقصد "علاقائی سلامتی و استحکام کے لئے ترک-اسرائیلی تعلقات کی اہمیت" پر بات چیت کی ہے۔ اور اس ملاقات نے ترکی کے اندر بھی اور بیرون ملک بھی لوگوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔


المیادین کے مطابق، اردوگان نے تعریفی لہجے میں اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ اور وزیر اعظم نفتالی بینٹ کے ساتھ ہونے والی اپنی مکرر در مکرر ٹیلیفون کالوں کی یاددہانی کروائی "اور یہودی ربیوں سے زور دے کر کہا کہ وہ ترکی-اسرائیلی مذاکرات میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لیں!"۔
ادھر ترک صدر کے میڈیا سیل نے بھی اپنے بیان میں کہا: اردوگان نے جس وفد کا خیرمقدم کیا اس میں مبینہ "اسلامی ممالک کے ربیوں کے اتحاد" کے سربراہ اور سیکریٹری جنرل کے ساتھ ساتھ ترکی کی یہودی کمیونٹی کے 20 سماجی اور مذہبی راہنما، ازبکستان، البانیہ، کوسوو، آذربائیجان، کرغزستان، قازقستان، یوگنڈا، مصر، ترک قبرص، امارات اور نیویارک میں مقیم ایرانی یہودی ربی شامل تھے؛ علاوہ ازیں، اس موقع پر روس کے سینئر ربی "برل لازار" بھی موجود تھے؛ کہا جاتا ہے برل لازار کے روسی وفاق کے صدر پیوٹن کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
"ترک صدارتی محل کے پریس آفس کے ایک بیان کے مطابق، صدر نے "ربیوں کو سلام کیا اور انہیں یاد دلایا کہ [سلطنت عثمانیہ کے] سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں استنبول کی فتح کے بعد سے، - سنہ 1492ع‍ میں اندلس کے سقوط کے بعد ہسپانیہ سے یہودیوں کی بے دخلی اور ہٹلر کے جبر سے تنگ آکر جرمنی سے یہودیوں کے فرار کے وقت عثمانی سلطنت نے ہمیشہ یہودیوں کا خیر مقدم کیا ہے۔" (1)
اردگان نے "یہود دشمنی کو انسانیت کے خلاف جرم" قرار دیا اور ہولوکاسٹ کی برسی کے انعقاد میں انقرہ کے کردار کا حوالہ دیا۔
اس رپورٹ کے مطابق، ترک صدر نے انقرہ-تل ابیب تعلقات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے گذشتہ برسوں میں یہودی ریاست کے حکام پر تنقید کا بھی جواز پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ "اسرائیلی کابینہ پر میری سابقہ تنقید کا مقصد مشرق وسطی میں سلامتی، امن اور استحکام قائم کرنا تھا"۔ (2)
انھوں نے کہا: "میں صدر ہرزوگ اور وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کے ساتھ بات چیت کو بہت اہمیت دیتا ہوں، کیونکہ ترکی اور اسرائیل کا باہمی تعاون ہمارے علاقے کے لئے بہت اہم اور ضروری ہے؛ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ [یہودی ربی] ترکی-اسرائیل مذاکرات کی حمایت کریں تو یہ بہت اہم بات ہے کیونکہ دو طرفہ بات چیت اور ملاقاتیں فریقین کے مفاد میں ہیں جس طرح کہ تجارتی اور سیاسی تعلقات بھی ایسے ہی ہیں۔ اور ہمارے سیاسی اور تجارتی تعلقات بہت اچھے ہیں"۔
لیکن - المیادین چینل کی اخباری ویب گاہ کی رپورٹ کے مطابق - ترک حکومت کے ترجمانوں نے بیان نہیں کئے تھے لیکن ترکی کے یہودی راہنماؤں نے کچھ حقائق بیان کئے ہیں؛ اور یہ ترک یہودی راہنما وہی ہیں جنہوں نے نوظہور "اسلامی ممالک کے یہودی ربیوں کا اتحاد" نامی تنظیم کے قیام میں کردار ادا کیا ہے اور اردگان نے اس کے پہلے اجلاس میں شرکت کی ہے۔ (3)
مذکورہ نشست میں شریک سینئر یہودیوں نے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اردگان کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کی تصاویر بھی شائع کی ہیں اور وہ دعائیں بھی شائع کی ہیں جو اس اجلاس میں دی گئیں۔ انھوں نے ان دعاؤں میں ترکی کا شکریہ ادا کیا جس نے ہسپانیا سے اپنی جلاوطنی کے بعد انہیں پناہ دی تھی! نیز "ربیوں نے ترکی اور اردگان کی تقدیس کی!!، اور ان کو صحت و سلامتی اور درازیِ عمر کی دعا دی اور مذکورہ اجلاس کے انعقاد پر ان کا شکریہ ادا کیا" یہ حقیقتا تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ تھا جو دنیا میں پہلی بار وقوع پذیر ہؤا۔ [چشم امتِ اسلام روشن!]
المیادین نے لکھا کہ ترک یہودیوں کے چیف ربی نے صدر اردگان کو مقدس یہودی شمع دان (menorah, or hanukkiah) کا تحفہ بھی دیا لیکن صدارتی محل کے بیان میں نہ تو اس تحفے کی طرف اشارہ ہؤا تھا اور نہ ہی یہودیوں کی دعاؤں اور اردگان کے تئیں یہودیوں کی تقدیس کی طرف۔
المیادین کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ترک صدر نے ملک کی اسلامی اور غیر اسلامی اپوزیشن جماعتوں کی تنقید کے خوف سے حالیہ قابل مذمت اجلاس کے تمام حقائق بیان کرنے سے اجتناب کیا ہوگا، کیونکہ ایک بار سنہ 2004ع‍ میں جب امریکہ میں یہودی لابنگ تنظیموں نے اردگان کو سیاسی تمغۂ جرأت سے نوازا اور سنہ 2005ع‍ میں اردگان نے بیت المقدس کا دورہ کیا اور فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے آنجہانی وزیر اعظیم ایریل شیرون سے ملاقات تھی، تو ترکی کے اسلام پسند وزیر اعظم نجم الدین اربکان مرحوم بہت غضبناک ہوئے یہاں تک کہ انھوں نے اردگان اور ان کی جماعت "انصاف و ترقی پارٹی" پر شدید ترین تنقید کی اور کہا: "اردگان صہیونی منصوبوں پر عمل درآمد کررہے ہیں"۔
ترکی میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہودی ربیوں اردگان کی ملاقات سے - تل ابیب اور امریکی و یورپی یہودی لابنگ تنظیموں کے ساتھ ایک طرح کی قربت اور دوستی کی پینگیں بڑھانا مقصود تھیں اور یہ بالکل ویسا ہی عمل تھا جو ترکی کے آٹھویں صدر خلیل تورگوت اوزال (Turgut Özal) نے اگست سنہ 1992ع‍ میں ہسپانیہ سے جلاوطن یہودیوں کی سلطنت عثمانیہ میں آمد کی سالگرہ کے موقع پر کیا تھا۔ اور اوزال کے اس عمل کی بنا پر ہی امریکہ نے ترکی کی تمام داخلہ اور خارجہ پالیسیوں - بالخصوص "بحیرہ آڈریاٹک سے چینی سرحدوں تک ترک ملت واحدہ" کی تشکیل کے منصوبے - کی حمایت کی۔
اس کے علاوہ، امریکہ اور اس کی یہودی لابیوں نے مبینہ "امن پائپ لائن" کے ذریعے (شام اور اردن کے راستے سے) مقبوضہ فلسطین میں پانی کی منتقلی کے تورگوت اوزال کے منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا۔ لیکن چونکہ شام کی حکومت فلسطین پر قابض یہودی ریاست کو تسلیم نہیں کرتی تھی اور پھر دریائے فرات کے پانی کے مسئلے پر شام اور ترکی کے درمیان تنازعہ عروج پر تھا، چنانچہ اس نے اس منصوبے کو مکمل طور پر مسترد کردیا۔
یاد رہے کہ چند سال قبل سویٹزرلینڈ کے شہر ڈیوس کے عالمی اقتصادی فورم میں غاصب یہودی ریاست (اسرائیل) کے آنجہانی صدر شمعون پیریز کے خطاب کی باری آئی صدر رجب طیب اردگان نے شور مچایا، غزہ کے لئے مگرمچھ کے آنسو بہائے اور واک آؤٹ کیا لیکن مسلمانوں نے اس بات کی طرف توجہ دیئے بغیر - کہ ترکی پہلا مسلم ملک تھا جس نے غاصب ریاست کو تسلیم کیا تھا اور ترک سفارتخانہ تل ابیب میں اور اسرائیلی سفارتخانہ انقرہ میں سنہ 1948ع‍ سے قائم ہے - مسٹر اردگان کو خلافت عثمانیہ کا چشم و چراغ اور مسلمانوں کا ہیرو قرار دینا شروع کیا۔ مسلمانوں نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ ترک صدر غزہ کے مظلوم عوام کے لئے مگرمچھ کے آنسو تو بہاتے ہیں مگر انھوں نے ایک شکاری بندوق یا ایک گولی تک بھی آج تک فلسطینی مجاہدین کو نہیں دی ہے؛ اور وہ کام کم کرتے ہیں اور چیختے زیادہ ہیں!
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اردگان اور تل ابیب کے درمیان تعاون اور دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے لیے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور آذربائیجان کے صدر علیوف کی مسلسل ثالثی کے ساتھ ساتھ، یہودی ربی بھی اب تورات اور یہودی رسومات کے متن کے عین مطابق میدان میں اتر آئے ہیں جو فریقین کے درمیان ممکنہ اختلافات کو دور کرنا اور خلیج کو کم کرنا چاہتے ہیں؛ ادھر متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زاید بھی اس سلسلے میں زیلنسکی، علیوف اور یہودی ربیوں کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔


واضح رہے کہ محمد بن زاید نے حال ہی میں یہودی ریاست کی آغوش میں پناہ لی ہوئی ہے اور وہ گویا اردگان کے ساتھ یہودی ریاست کے تعلقات بہتر بنانے کے سلسلے میں ہرزوگ اور بینٹ کی نمائندگی کر رہے ہیں!
رپورٹ کے آخر میں کہا گیا ہے کہ تل ابیب کے حکمران توریت کی مبینہ نصوص اور متعلقہ افسانوں کو قدس شریف کے یہودیانے کے لئے صہیونی ریاست کا سب سے طاقتور ہتھیار سمجھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حواشی و یاددہانیاں:
1۔ لگتا ہے کہ جناب اردگان تاریخ کا پرچہ پاس کئے بغیر ہی سلطان بن گئے ہیں؛ حقیقت یہ ہے کہ عثمانی سلطنت یکم نومبر 1922ع‍ کو مکمل طور پر اختتام کو پہنچی اور دوسری جنگ عظیم سنہ 1939ع‍ میں شروع اور 1945ع‍ میں اختتام پذیر ہوئی اور فلسطین میں ہٹلر کے ستائے یہودیوں کی منصوبہ بند منتقلی انگریزوں کی نگرانی میں انجام کو پہنچی۔ سلطنت عثمانیہ کے اختتام کے بعد سے 1948ع‍ تک انگریزوں کے قبضے میں تھا۔ غرضیکہ جرمن یہودیوں کی مشرق وسطیٰ میں آمد عثمانیوں کے انقراض کے 23 سال بعد شروع ہوئی ہے اور بڑی حیرت کی بات ہے مسٹر اردگان کو اپنی تاریخ کا بھی علم نہیں ہے یا پھر شاید وہ ابھی تک سلطنت عثمانیہ کے زوال کو تسلیم نہیں کررہے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ وہ سلسلۂ عثمانیہ ہی کا تسلسل ہیں!
2۔ مطلب یہ ہے کہ جناب اردگان تیوریاں چڑھا کر یہودی حکام پر برس پڑتے وقت صرف اسرائیلی کابینہ پر تنقید کرتے تھے نہ کہ اسرائیلی ریاست پر؛ اور یہ بات ان خوش فہم سادہ اندیشوں کے لئے لمحۂ فکریہ ہے جو رجب بن احمد اردگان کو اپنے تاریخی سورماؤں سے تشبیہ دیتے ہوئے فلاں بن فلاں کہنے لگے تھے۔
3۔ یہ نوظہور تنظیم اردگان کی یہود نوازی کا اظہار ہے اور اس کی بنیاد بھی ان ہی کے ہدایت پر رکھی گئی ہے۔۔۔ شاید اس تصور کی بنا پر کہ ترکی مستقبل میں اسرائیل کی مدد سے امریکہ اور یورپ کو بلیک میل کرسکے گا! گویا اردگان ماضی قریب میں مصر کے منتخب اخوانی صدر محمد مرسی مرحوم کے انجام سے غافل ہیں جنہوں نے اپنی مختصر دور حکومت میں شمعون پیریز کو بھائی کہہ کر پکارا اور اسرائیلی ریاست کے دوام کے لئے دعائیں بھی دیں مگر جو ان کے ساتھ ہؤا وہ ان کی توقع کے مطابق نہ تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242