اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
بدھ

22 دسمبر 2021

10:08:28 AM
1211138

آیت اللہ رمضانی: اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی "کتاب کونسل" کی سرگرمیاں تخصصی ہوں گی/ مکتب اہل بیت(ع) کو مثبت انداز میں متعارف کروائیں

"اہل بیت (ع) کی تعلیمات کو بین الاقوامی میدان میں نشر کرنے کی ترجیحات اور حکمت عملیوں کا جائزہ" کے زیر عنوان اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے قم دفتر میں منعقدہ ایک اجلاس میں، ہندوستان، جنوب مشرقی ایشیا اور لاطینی امریکہ کی ضرورتوں پر تبصرہ کیا گیا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ "اہل بیت (ع) کی تعلیمات کو بین الاقوامی میدان میں نشر کرنے کی ترجیحات اور حکمت عملیوں کا جائزہ" کے زیر عنوان اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے قم دفتر میں منعقدہ ایک اجلاس میں، ہندوستان، جنوب مشرقی ایشیا اور لاطینی امریکہ کی ضرورتوں پر تبصرہ کیا گیا۔
اس تقریب میں اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سکریٹری جنرل نے ہفتہ تحقیق کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا: تحقیق تبدیلی کے میدان میں اہم مسائل میں سے ایک ہے۔ تحقیق خالص نظریات کی صحیح وضاحت اور سوالات اور شکوک کے جوابات دینے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ خاص طور پر تحقیق کی جدیدیت انسانی معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کو صحیح سمت دینے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اور اگر تحقیق اس معیار پر ہو گی تو ہم مختلف شعبوں میں علم و دانش ترقی کا مشاہدہ کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا: " مختلف شعبوں میں فکری بے ضابطگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہمیں ان مسائل پر تحقیق کرنا چاہیے جو ہمیں درپیش ہیں اور مختلف موسموں اور مختلف ممالک میں ہمیں ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

۔ مکتب اہل بیت (ع) کو مثبت انداز میں متعارف کروائیں
آیت اللہ "رضا رمضانی" نے اہل بیت (ع) عالمی اسمبلی میں تحقیق کی اہمیت کے بارے میں کہا: اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی آج دنیا میں پیش کی جانے والی تعلیمات میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے اور ہمیں ایسا راستہ انتخاب کرنا چاہیے جو معاشرے میں تبدیلی پیدا کر سکے اور معاشرے کی ضرورت کے مطابق ہو۔ اسمبلی کی کتاب کونسل چودہ شعبوں میں تخصصی صورت میں کام کرے گی اور مختلف ممالک کے محققین کو دعوت دی جائے گی جو مکتب اہل بیت(ع) کو اپنے معاشروں میں متعارف کرنے میں ہمارا تعاون کریں گے۔
انہوں نے مکتب اہل بیت (ع) کے مثبت تعارف پر تاکید کرتے ہوئے کہا: ہمیں مکتب اہل بیت (ع) کو مثبت انداز میں متعارف کرانے اور کلام اہل بیت (ع) کے فضائل کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ مکتب اہل بیت (ع) کی مثبت تعلیمات پر زور دیا جانا چاہیے؛ کیونکہ جو چیز اہم ہے وہ اس مذہب کا مثبت پہلو ہے اور مسلمانوں اور شیعوں کو عقلی نقطہ نظر سے مکتب اہل بیت(ع) کے لٹریچر سے آشنا ہونا چاہیے۔
حوزہ علمیہ قم کے استاد نے بعض ادیان و مذاہب کی جانب سے انتہاپسندی اور انحرافی انداز میں کی جانے والی اسلام کی تبلیغ کی طرف اشارہ کیا اور کہا: مکتب اہل بیت (ع) کو متعارف کرانے کا راستہ عقلانی ہونا چاہیے۔ اگر اسلام کو متعارف کروانا چاہیں تو ہمیں صحیح، جامع اور گہرائی کے ساتھ متعارف کروانا چاہیے۔ جامع تعارف کا مطلب یہ ہے کہ انفرادی، سماجی، دنیوی اور اخروی تمام جہتوں کو بیان کیا جائے، تعلیم اور مطالب کی وضاحت سطحی نہیں ہونا چاہیے ہمیں اس سلسلے میں دقیق اور مستحکم عمل کرنا چاہیے۔ اسلام ایک متحرک دین ہے اور اسلامی معاشرے میں وقار بحال کر سکتا ہے کیونکہ اسلام سماجی میدان میں ظلم پذیر نہیں ہے، یہ ظلم کا مقابلہ کرنے والا دین ہے۔
انہوں نے تاکید کی: اسلام کے تمام احکام ہمیں معنویت اور روحانیت کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ وہ روحانیت جو ذمہ داری کا احساس دلاتی ہے نہ کہ ذمہ داری سے دور کرتی اور انسان کو غیر ذمہ دار بناتی ہے۔ واضح رہے کہ آج ہمیں مختلف بحرانوں کا سامنا ہے۔ کچھ نوجوان اسلام کی تعلیمات پر گہری نظر نہ رکھنے کی وجہ سے انحراف کا شکار ہو چکے ہیں۔ مکتب اہل بیت(ع) ہر دور میں انسانی معاشروں کے بحرانوں کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

۔ اگر روحانیت دین کے علاوہ کوئی سہارا ڈھونڈے تو وہ مقصد تک نہیں پہنچے گی
آیت اللہ رمضانی نے مغرب کے بحرانوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ہم مغرب میں کئی بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں اور کئی ہزار جعلی روحانی مکاتب سامنے آ چکے ہیں، ان تمام بحرانوں سے نجات کا واحد راستہ دینی روحانیت ہے۔ اور روحانیت دین کے علاوہ کوئی دوسرا سہارا ڈھونڈھے گی تو مقصد تک نہیں پہنچ سکے گی۔
انہوں نے ماحولیاتی بحران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا: آج خاندانی تعلقات کا بحران اہل بیت(ع) کی پاکیزہ تعلیمات سے دوری کی وجہ سے ہے۔ خاندانی بحران ایک خطرناک بحران ہے جس سے انسانیت کا شیرازہ بکھر سکتا ہے اور آج سوشل میڈیا میں خاندانی رشتوں کو نشانہ بنا کر خاندانوں کے مقدسات کو پامال کیا جا رہا ہے۔
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سکریٹری جنرل نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ایک زمانے میں اسلامی ممالک دنیا میں علم و آگہی کا مرکز تھے لیکن اس وجہ سے کہ ہم اپنے بحرانوں کو حل کرنے کے لیے اہل بیت(ع) تعلیمات سے استفادہ نہیں کرسکتے تھے مسلمان ممالک تیسری دنیا کے ممالک کا حصہ بن گئے۔ اور قابل توجہ مشکلات کا شکار ہو گئے۔ لہذا ہماری تحقیقات اور ہماری کتابیں حقیقی ضرورتوں کی بنیاد پر مرب ہونا چاہیے۔ تعلیمات اہل بیت(ع) کو عام کرنے کا بہترین وقت جوانی ہے ہمیں جوانوں کی زبان میں تعلیمات اہل بیت(ع) کو بیان کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا: دینی کتابوں کی اشاعت میں ہمیں ایسے پیشہ ور مصنفین کی تربیت کرنی چاہیے جو مقامی ہوں۔ مقامی ماہرین کی تربیت کی طرف بڑھنا ضروری ہے جو اپنے معاشروں کی زبان و ادب سے واقف ہوں۔
آیت اللہ رمضانی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ہمیں دینی علوم کی درجہ بندی کرنا چاہیے، کہا: آج ہمارے پاس مغرب والوں کو اسلام سے آشنا کرنے کے لیے کوئی جامع کتاب نہیں ہے۔ تحقیق ضرورت کے مطابق ہو اور کام کی جامعیت کو مدنظر رکھا جائے۔ عوام الناس، نوجوانوں، خواتین، پڑھا لکھا طبقہ سب کے لیے مختلف درجہ بندی کے ساتھ ہمارے پاس کتابیں ہونا چاہیے۔ ہمیں ان مقاصد کے حصول کے لیے تخصصی تحقیقات کی ضرورت ہے۔

۔اسلام اور اہل بیت(ع) کی تعلیمات کی ترویج کے لیے روایتی آلات ضروری ہیں لیکن کافی نہیں ہیں
انہوں نے اہل بیت(ع) کی تعلیمات کی ترویج کے لیے سائبر اسپیس کے استعمال کی ضرورت کے بارے میں کہا: تبلیغ کے لیے روایتی آلات استعمال کیے جائیں۔ روایتی آلات کی ضرورت ہے لیکن کافی نہیں۔ کبھی ہمارے منبر کے سامنے سو لوگ ہوتے تھے آج سائبر اسپیس کے ذریعے ہزاروں لوگ ہمارے منبر کے سامنے موجود ہو سکتے ہیں۔ ہندوستان میں ہونے والی کچھ کانفرنسوں میں تیس یا چالیس لاکھ تک لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے تقاریر میں شرکت کرتے ہیں۔
حوزہ علمیہ قم کے استاد نے بین الاقوامی سطح پر تعلیمات اہل بیت(ع) کو پھیلانے کے لیے متعدد حکمت عملیوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا: مکتب اہل بیت(ع) کا تعارف کراتے ہوئے، ہمیں اس بات پر اصرار نہیں کرنا چاہیے کہ ہمارا مخاطب شیعہ ہونا چاہیے، بلکہ ہمارا اصرار اس بات پر ہونا چاہیے کہ ہم مکتب اہل بیت(ع) کی جامعیت اور درستی سے آگاہ کریں، ہمیں یورپیوں کو بتانا چاہیے کہ اسلام وہ نہیں ہے جس کا آپ تصور کرتے ہیں اور آپ تشدد کو اسلام سے منسوب کرتے ہیں۔ بلکہ اسلام محبت، ہمدردی اور عقلانیت سے بھرا ہوا ہے۔ اگر اسلام کو اس کی جامعیت میں متعارف کرایا جائے تو دنیا کے لوگ اسے پسند کریں گے، کیونکہ اسلام لوگوں کو حقیقت میں عزت اور سربلندی کا درس دیتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: "ویانا میں ایک تقریر میں میں نے امام حسین علیہ السلام کا تعارف کرایا کہ امام نے انسانیت کے لیے قیام کیا، تو اس شہر کے دو باشندوں نے جو کہ عیسائی تھے، تقریر کے بعد کہا کہ اس نقطہ نظر سے، "امام حسین علیہ السلام ہمارے بھی امام ہیں۔" عاشورہ کی صلاحیتیں بین الاقوامی صلاحیتوں کی حامل ہیں جن کی تمام جہتوں پر غور کرنا چاہیے نہ کہ صرف اس کا ایک حصہ بیان کیا جائے۔ ہم اہل بیت (ع) کو انسانی معاشرے میں جامع طور پر متعارف نہیں کرا سکے ہیں اور اگر ایسا ہوتا تو مغرب والے یہ مضمون نہ لکھتے کہ پیغمبر اکرم (ص) ایک جنگجو تھے۔ کیونکہ ان کے پاس پیغمبر کی جنگوں کا کوئی تجزیہ نہیں ہے۔ پیغمبر اسلام کی جنگیں انسانی وقار کے تحفظ اور آمریت اور جبر کے خلاف جدوجہد کے لیے تھیں۔

۔ اسلام کا صحیح، جامع اور گہرائی سے تعارف کروائیں
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سکریٹری جنرل نے کہا: بعض لوگ اسلام اور امام زمانہ (ع) کا صحیح تعارف نہیں کراتے ہیں۔ مغرب میں ایک شخص نے ایک تقریر میں کہا کہ ظہور کے زمانے میں دنیا کے دو تہائی لوگ مارے جائیں گے۔ جب کہ ظہور کے وقت دو تہائی لوگوں کو قتل کرنے کی تمام روایتیں جعلی ہیں۔
انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ہمارے پاس اسلام اور اہل بیت (ع) کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے بہترین فرصت ہے، کہا: اسلام کو صحیح، جامع اور گہرائی کے ساتھ اور اس عقلانیت کے ساتھ متعارف کروائیں جیسا کہ اہل بیت(ع) سے ہم تک پہنچا ہے۔ افریقہ میں، ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ اہل بیت (ع) غیرخدا کی پرستش کے مخالف تھے، اور یورپ میں، ہمیں عقلانیت، آزادی اور وقار پر زور دینا چاہیے، جو اس وقت کے موضوعات ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں محققین کی ضرورت ہے اور ہم کتاب کونسل کے تخصص ہونے کے ساتھ مختلف شعبوں میں تحقیق کا ایک نیا دور دیکھنے کی امید رکھتے ہیں۔

............

242