اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
ہفتہ

18 دسمبر 2021

2:48:59 PM
1209758

قبلۂ اول سے غداری کا انجام؛

صہیونی-اماراتی تعلقات کی بحالی؛ کچھ لئے بغیر ابوظہبی سب کچھ دے بیٹھا

لگتا ہے کہ بینٹ کے دورہ امارات کا اقتصادی پہلو بہت نمایاں ہے اور تل ابیب بھی یہی کچھ چاہتا ہے۔ لیکن دو طرفہ فوجی اتحاد کے بارے میں مختصر سی بات یہ ہے کہ جب سے امریکہ نے اپنا ہاتھ مشرق وسطی سے کھینچ لیا ہے، امارات اور اسرائیل کے درمیان فوجی معاہدے کی ضرورت باقی نہیں رہتی، اور یہ وہی بات ہے جو اسرائیلی سیکورٹی تجزیہ کار یوسی ملیمین (Yossi Milliman) نے کہی تھی۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ صہیونی ذرائع کے مطابق، معاشی شعبوں میں یہودی ریاست اور متحدہ عرب امارات کے درمیان زراعت اور ٹیکنالوجی سمیت مختلف اقتصادی شعبوں میں دوطرفہ اقتصادی تبادلوں کا حجم ایک ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
تل ابیب میں اقتصادی ماہرین نے ایک سال کی مدت کے لئے اقتصادی منصوبوں کو حیرت انگیز قرار دیا؛ ان کی نظریں عرب امارات کی جانب سے “مقبوضہ فلسطین” میں مختلف شعبوں میں قائم کیے گئے 10 بلین ڈالر کے سرمایہ کاری فنڈ پر لگی ہوئی ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ فنڈ صہیونی ریاست کے مختلف شعبوں کو فروغ دے گا جن میں سب سے زیادہ اہم شعبہ زراعت ہے۔
صہیونی ریاست کے شعبۂ زراعت کے سرمایہ کاروں کی کوشش ہے کہ اگلے پانچ سالوں کے دوران امارات کو یورپ اور دوسرے ممالک سے درآمد ہونے والی سبزیوں اور پھلوں سے بے نیآز کریں اور امارات کی منڈی کو اپنے قبضے میں لے لیں۔
اسرائیلیوں کے لئے امارات کے ساتھ تعلقات کا اہم نکتہ “اقتصادی مفادات” ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تعلقات امارات کے لئے بھی اتنے ہی منافع بخش ہیں؟
واضح امر ہے کہ امارات ان تعلقات سے ایسا کوئی فائدہ حاصل کرنے میں ناکام ہی رہے گا
ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں متحدہ عرب امارات کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا، خاص طور پر یہ کہ نیتن یاہو کے دور میں تیل کی پائپ لائن کے معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے، جس کے تحت امارات کے تیل کو “اسرائیل” اور خلیج فارس کے ممالک کے درمیان زمینی پائپ لائن کے ذریعے یورپی اور ایشیائی منڈیوں تک پہنچایا جانا تھا؛ اور یہ پائپ لائن نہر سویز اور بحیرہ روم میں عسقلان کی دو بندرگاہوں اور بحیرہ احمر پر واقع بندرگاہ ایلات کے ذریعے نقل و حمل سے کم مہنگی پڑتی تھی؛ لیکن اس منصوبے نے بینیٹ حکومت کے اندر بہت سارے تنازعات کو جنم دیا ہے۔
یہاں تک کہ یہودی ریاست کے اہم وزراء اس معاہدے کے ماحولیاتی اثرات کو بہانہ بنا کر منسوخ کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف سے اس وقت بینیٹ حکومت کسی بھی دباؤ کو برداشت نہیں کرسکتی ہے، اس لئے ایسا لگتا ہے کہ اس معاہدے اور پائپ لانے کے منصوبے پر عمل درآمد نہیں ہوگا۔
چاہے بینیٹ نے ابوظہبی کے دورے کے دوران اس معاملے کو اٹھایا ہو یا نہ اٹھایا ہو، تیل پائپ لائن کا معاہدہ معطل ہونے کے بعد متحدہ عرب امارات کا احساس اس شخص کی طرح ہے جس نے سب کچھ دے دیا لیکن اس کے بدلے اسے کچھ بھی نہ ملا۔
لگتا ہے کہ بینٹ کے دورہ امارات کا اقتصادی پہلو بہت نمایاں ہے اور تل ابیب بھی یہی کچھ چاہتا ہے۔ لیکن دو طرفہ فوجی اتحاد کے بارے میں مختصر سی بات یہ ہے کہ جب سے امریکہ نے اپنا ہاتھ مشرق وسطی سے کھینچ لیا ہے، امارات اور اسرائیل کے درمیان فوجی معاہدے کی ضرورت باقی نہیں رہتی، اور یہ وہی بات ہے جو اسرائیلی سیکورٹی تجزیہ کار یوسی ملیمین (Yossi Milliman) نے کہی تھی۔
مترجم کا نکتہ: جب چڑیاں شاہین کی اداکاری کرنا شروع کرتی ہیں تو وہ غلبل بدست بچوں کا شکار بن جاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: فارس الصرفندی، از فلسطین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242