اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
اتوار

12 دسمبر 2021

2:44:40 PM
1207894

اورشلیم (یروشلم) کو اورصیون میں بدلنے کی ناکام کوشش

مشرق وسطیٰ کے نئے منصوبے میں جن نکات ذکر کیا گیا ہے ان پر امریکہ، یورپ اور اسرائیل کے تناظر میں غور کیا جاسکتا ہے۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ میڈرڈ اور اوسلو امن کانفرنسیں جدید مشرق وسطیٰ کے منصوبے کی طرف ایک قدم تھیں۔ اور یہی کہ مغرب اور صہیونی ریاست کے اس منصوبے پر عملدرآمد کے لئے، اسرائیل کے مقابلے میں لڑنے والی مزاحمت تحریک کو توڑنا چاہئے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ مسلمین فلسطین کو بھول گئے ہیں کیا وہ قدس اور مسجد الاقصیٰ کو بھی بھول جائيں گے؟ / بیت المقدس کے یہودیانے کا دس سالہ عرصہ گذر چکا مگر بیت المقدس آج بھی بیت المقدس اور ایک مسلم اکثریتی شہر ہے۔
لبنان کے عیسائی مصنف و روزنامہ نگار سرکیس نعوم نے 21 نومبر 2014ع‍ کو لبنانی اخبار "النہار" میں ایک بہت اہم مضمون لکھا ہے جس کا عنوان: "تہوید القدس-2020" (قدس کا یہودیانا-2020)
اس مضمون میں سرکیس نعوم نے بیت المقدس کو یہودیانے کے منصوبے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
البتہ حقیقت یہ ہے کہ قدس کو یہودیانے کے یہودی منصوبے پر اسی وقت بھی عملدرآمد ہو رہا تھا۔ صہیونی ریاست کی حکومت اور فوج کی کوشش ہے کہ اَورشَلِیم (یروشلم) کے معنی "شہرِ صلح یا شہرِ امن" کے ہیں اور اورصیون کے معنی "صہیونی شہر" کے ہیں۔
اس منصوبے کے متعدد پیچیدہ پہلو ہیں:
- فلسطینیوں کی اراضی کو اپنی ملکیت میں لانا اور ضبط کرنا؛
- کسی بھی بہانے فلسطینیوں کے گھروں اور کھیتیوں کو منہدم کرنا؛
- فلسطینیوں کو مشرقی قدس میں گھربار چھوڑنے پر مجبور کرنا
- مشرقی قدس کے علاقے میں یہودی نوآبادیوں کی توسیع؛
- مسجد الاقصیٰ اور قبۃ الصخرہ کی حدود میں سطحی اور گہری کھدائیوں کو وسعت دینا؛
- قبۃ الصخرہ میں ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور مسجد الاقصیٰ کو شہید کرنا؛
- محلوں، گلیوں کوچوں اور علاقے کے نام بدلنا، تاکہ اس علاقے کا فلسطینی تشخص اور عربی، اسلامی اور عیسائی ثقافت کی نشانیاں مٹ جائیں۔
اس منصوبے کے لئے 10 سالہ عرصہ درکار تھا اور اس کا آغاز سنہ 2010ع‍ سے ہونا تھا اور تکمیل سنہ 2020ع‍ میں ہونا تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کیا جو بیت المقدس کے یہودیانے کی طرف ایک اہم قدم تھا۔
دوسری طرف سے یہودی ریاست اپنی حکمت عملی اور عرب اور مسلم ممالک کا سامنا کرنے کی کیفیت کی تشریح کے لئے مرحلہ وار عناوین اور تشریحات استعمال کرتی ہے:
- امن بمقابلۂ زمین، سادات-بیگن کے سمجھوتہ اور کیمپ ڈیوڈ معاہدہ
- امن بمقابلۂ امن
- امن اسرائیل کی سلامتی کے مقابلے میں
- یہودی ریاست اور بیت المقدس کو یہودیانا
- تعلقات معمول پر لانا
مشرق وسطیٰ کے نئے منصوبے میں جن نکات ذکر کیا گیا ہے ان پر امریکہ، یورپ اور اسرائیل کے تناظر میں غور کیا جاسکتا ہے۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ میڈرڈ اور اوسلو امن کانفرنسیں جدید مشرق وسطیٰ کے منصوبے کی طرف ایک قدم تھیں۔ اور یہی کہ مغرب اور صہیونی ریاست کے اس منصوبے پر عملدرآمد کے لئے، اسرائیل کے مقابلے میں لڑنے والی مزاحمت تحریک کو توڑنا چاہئے۔
موسم گرما سنہ 2006ع‍ میں حزب اللہ کے خلاف صہیونی ریاست کی جنگ، غزہ کے خلاف صہیونیوں کی لڑائی، شام کے نظام حکومت کا تختہ الٹنے کی صہیون-عربی-مغربی سازش اور لبنان میں سیاسی بحران - یہاں کہ عراق پر امریکی قبضہ بھی - کو جدید یا عظیم تر مشرق وسطیٰ کے منصوبے پر عملدرآمد کے مراحل اور اجزاء ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کی شراکت داری سے "ابراہیم سمجھوتے" (Abraham Accords) کا منصوبہ تعلقات معمول پر لانے کا ایک قدیم اور اسرائیل کو علاقے کا مرکز بنانے کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
ان منصوبوں کا مجموعہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکا: محاذ مزآحمت کو نہ توڑا جا سکا، لبنان پر اسرائیل کی مسلط کردہ 33 روزہ جنگ میں، اسرائیل اپنے اعلان کردہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہؤا اور حزب اللہ - لبنان میں محور المقاومہ (Axis of Resistance) کے طور پر - نہ شکست سے دوچار نہ ہوئی اور نہ صرف اس کے اراکین کو قیدی بن اسرائیل میں منتقل نہ کیا جا سکا، بلکہ اس جنگ سے پوری سربلندی کے ساتھ عہدہ برآ ہوئی اور اسرائیل کے افسانوی میر کاوا (Merkava) ٹینک حزب اللہ مجاہدین کے مقابلے میں گتے کے محل کی طرح جل کر راکھ ہوئے۔
امریکی حمایت بھی کارآمد ثابت نہ ہوسکی۔ سنہ 2006ع‍ کے موسم گرما میں جب یہودی ریاست لبنان پر بمباری کررہی تھی اور لبنانی شہریوں کو قتل کررہی تھی، - یہاں تک کہ اس نے اقوام متحدہ کے دفتر کو بھی تباہ اور اس عالمی ادارے کے کئی کارکنوں کو بھی قتل کو قتل کردیا، - اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل خاموشی سے تماشا کررہی تھی اور اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ "جو آواز اس وقت مشرق وسطی سے سنائی دے رہی ہے، یہ جدید مشرق وسطی کی پیدائش کی آواز ہے..."
گوکہ امریکی طرز کا مشرق وسطی نے تو جنم نہیں لیا مگر جدید مشرق وسطی کی ولادت ہو ہی گئی۔ "جدید مشرق وسطی" نامی کتاب میں بیان شدہ شمعون پیرز کا خواب یا "ایک جگہ سورج کے نیچے" نامی کتاب میں نیتن یاہو کا خواب چور چور ہوگیا، اسرائیلی توسیع پسندی کی خواہش کی عمارت زمین بوس ہو کر کھنڈر میں بدل گئی اور اسلامی مزاحمت تحریک کی جڑیں مضبوط ہوگئیں اور ان کھنڈرات کے اوپر جدید مشرق وسطی کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ کم از کم سنہ 2021ع‍ تک، اسرائیل مسلمانوں کے شہر بیت المقدس کو یہودی یا صہیونی شہر میں تبدیل نہ کر سکا۔
اور آج ہم کہتے ہیں: اے دنیا والو! یہ صدا جو تم قدس کی جانب سے سن رہے ہو، اسلامی مزاحمت کی حیات کی صدا ہے۔ شاید فلسطینیوں کے میزائل اور ڈرون یا ان کے آتشی پتنگ صہیونیوں کے طیاروں کی بمباری اور توپخانے کی گولہ باری کے ساتھ قابل موازنہ نہ ہوں لیکن اگر آہنی عزم و ارادہ اور فلسطینی کاز زندہ ہو، جو زندہ ہے، جو فلسطینیوں کی مایوسی اور بےمقصدیت پر غالب آگئی ہے اور جو غافل ہیں وہ بھی جاگ رہے ہیں، فلسطینی مجاہدین اپنا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں اور انہیں یقین ہے ان کی سرزمین کو - جو اسلحے کے زور سے غصب ہوئی ہے - مسلحانہ مزاحمت سے ہی آزاد کرایا جاسکتا ہے، اور وہ آج اسی راستے پر گامزن ہیں اور جو نہیں ہیں وہ بھی ہو رہے ہیں۔
یقینا جنگوں میں جہاں ہتھیاروں اور گولہ بارود کے ذریعے تصادم یقینی ہوتا ہے وہاں عزم و ایمان تقابل بھی ہوتا ہے۔ فلسطین کی جو بھی تصویر، جو بھی ویڈیو اور جو بھی خبر اور پیغام دیکھتے ہیں، تو اس سے ہمیں فلسطینیوں - بالخصوص ان کی نوجوان نسل - کے ہاں امید، عزم و یقین اور روشن مستقبل کا پیغام ملتا ہے۔ فلسطین ایک زندہ قوم ہے اور استکباری اور صہیونی قوتیں - سنہ 2017ع‍ میں بالفور کے اعلامیے اور سنہ 1948ع‍ (یوم النکبہ) یعنی ناجائز صہیونی ریاست کی ولادت بےسعادت سے لے کر آج تک کے 73 سالوں میں - اس امید اور حیات کا چراغ نہیں گل کرسکی ہیں۔
گوکہ بیت المقدس امن و آشتی کا شہر ہے، مگر فلسطینی شاعر و مصنف محمود درویش کے بقول برسوں سے امن و آشتی کا منہ نہیں دیکھ سکا ہے۔ بیت المقدس اور بطور قدس قدس شریف میں مسلمان اور عیسائی ظلم، جبر اور گھٹن کی سی کیفیت میں رہتے ہیں۔
اہلیان ستم اور موت کے بپوپاریوں نے گویا طے کر لیا ہے کہ ہر روز، ان کی زمین کا ایک ٹکڑا ان سے چھین لیا جائے، کوئی گھر تباہ کر دیا جائے، کسی مسجد یا گرجا گھر کو بند کر دیا جائے، کسی نوجوان فلسطینی کو قید کر لیا جائے، خاندانوں کے لئے بیت المقدس سے کوچ کرنے پر مجبور کرے کے لئے ان عرصۂ حیات تنگ کردیا جائے؟ کیا ایسی ہی صورت حال جاری رہے گی؟

سرکیس نعوم نے اپنا مضمون اس تلخ اور امت مسلمہ کی غیرت کو للکارنے والے جملے پر مکمل کرلیا ہے کہ "مسلمین فلسطین کو تو بھول ہی گئے ہیں لیکن کیا وہ کیا وہ قدس شرف اور اپنے قبلۂ اول "مسجد الأقصیٰ کو بھی بھول جائيں گے!!" اور مترجم کا سوال ہے کہ ڈوبتی ہوئی غاصب ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی قطار میں کھڑے ہوئے مسلم اور عرب حکمرانوں کو دیکھ کر کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ "مسلم قبلۂ اول کو بھی بھول چکی ہے؟" کیا امت اپنے حکمرانوں کی غدارانہ اقدامات میں ان کا ہاتھ بٹائے گی یا نہیں بلکہ اپنا دینی اور مذہبی اور انسانی فریضہ ادا کرنے کا عزم کرے گی آخر کار؟
...............
ترجمہ و ترتیب: فرحت حسین مہدوی
...............

110