اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعہ

10 دسمبر 2021

9:56:58 AM
1207066

آیت اللہ رمضانی: دنیا کی جوان نسل معنویت اور روحانیت کی پیاسی ہے

آیت اللہ رمضانی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہمیں اس دنیا میں ابدی آخرت کے لیے تربیت پانا چاہیے، کہا: دین صرف انفرادی دائرہ پر توجہ نہیں دیتا بلکہ دین کے معاشرتی احکام انفرادی قوانین سے اگر زیادہ نہیں ہیں تو کم بھی نہیں ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ آیت اللہ رضا رمضانی نے تہران اور البرز کے صوبوں کے امام رضا بورڈ اور انجمنوں کے اراکین کے ساتھ منعقدہ ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ پہلے ہمیں کود دین کو مکمل، دقیق اور گہرائی کے ساتھ حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور کہا: انسانی معاشرے کو سطحی پن سے بالاتر ہو کر دینی فہم کے لحاظ سے گہرا ہونا چاہیے۔
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سکریٹری جنرل نے دین کی گہرائی کی نسبت فہم رکھنے کو ایک عالم اور استاد کا فرض قرار دیا اور کہا: ہم بین الاقوامی سطح پر علم دین کے حوالے سے سطحی دید سے روبرو ہیں حالانکہ اگر دین کی نسبت گہرائی رکھتے ہوں تو معلوم ہو گا کہ انتہا پسندی اور افراط و تفریط کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے دین اسلام کو اعتدال، عقلانیت، روحانیت، عدل و انصاف اور روحانی آزادی کا دین قرار دیا اور کہا: دین کے میدان میں لوگوں کے علم کو گہرا کرنے کے لیے ہمیں دنیا اور آخرت کے بارے میں ایک جامع نظریہ رکھنا چاہیے۔
آیت اللہ رمضانی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہمیں اس دنیا میں ابدی آخرت کے لیے تربیت پانا چاہیے، کہا: دین صرف انفرادی دائرہ پر توجہ نہیں دیتا بلکہ دین کے معاشرتی احکام انفرادی قوانین سے اگر زیادہ نہیں ہیں تو کم بھی نہیں ہیں۔
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سکریٹری جنرل نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ مذہب اور ہر وہ چیز جو انسانوں کی رہنمائی میں کردار ادا کر سکتی ہے، اس پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جانی چاہیے، مزید کہا: "دین بھی انسان کی حقیقی ضروریات کے مطابق منظم کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: "انسان مختلف جہتوں کے محتاج ہیں اور ان ضرورتوں کی بنیاد پر، خدا نے وحی کے ذریعے انسانوں کے لیے اپنے قوانین اور اصول پیش کیے ہیں۔"
آیت اللہ رمضانی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ نماز ایک فلسفہ رکھتی ہے اور نہ صرف فرد کی اصلاح کرتی ہے بلکہ معاشرے کی اصلاح میں بھی کردار ادا کرتی ہے، کہا: دین کے بارے میں ہمارا نظریہ اور فہم قطعی اور گہرا ہونا چاہیے۔
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سکریٹری جنرل نے تقوی الہی حاصل کرنے میں روزے کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی: روزے کی فرضیت میں روزہ دار بھوکوں اور پیاسوں کی پریشانیوں کو سمجھتا ہے اور یہی روزہ معاشرے کی اصلاح میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ جب دین کو صحیح طریقے سے سمجھا جائے گا تو ہمارے یہاں تب دین کی دشمنی اور دین سے بھاگنے کا تصور ختم ہو جائے گا، انہوں نے کہا: انسان ممکن ہے ایک غلط ادراک اور سوچ کی مخالفت کرتا ہو لیکن دین کی حقیقت اور اس کے جوہر کی مخالفت نہیں کر سکتا جو دین کی حقیقت کو جانتا ہے وہ اس سے محبت کرتا ہے۔
آیت اللہ رمضانی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ آج بہت سے لوگ دین کی روحانیت کے خلاف جنگ کرنا چاہتے ہیں اور دین کو خشک اور دقیانوسیت کے طور پر متعارف کرانا چاہتے ہیں، واضح کیا: یہ لوگ اصل روحانیت کے خلاف نہیں لڑ سکتے ہیں اسی وجہ سے جعلی اور من گھڑت روحانیت کا رخ کر لیتے ہیں۔
اہل بیت (ع) عالمی اسمبلی کے سیکرٹری جنرل نے اشارہ کیا: یورپ اور امریکہ میں تین سے چار ہزار جعلی اور من گھڑت عرفان پائے جاتے ہیں جو جھوٹی معنویت کے ساتھ نوجوانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا: آج عالمی میدان میں نوجوان نسل روحانیت کی پیاسی ہے۔
آیت اللہ رمضانی نے خدا کی طرف سے پیغمبر اکرم(ص) کی تربیت کے بارے میں امام صادق(ع) کی ایک روایت کا حوالہ دیا اور واضح کیا: جب پیغمبر اکرم(ص) کا ادب اور اعلیٰ درجے پر پہنچ گیا تو آپ کو خلق عظیم کا درجہ دیا گیا اور دین کی ذمہ داری آپ کے سپرد کی گئی۔
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سکریٹری جنرل نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ جو بھی مربی بننے کی کوشش کرے اسے پہلے خود تربیت یافتہ ہونا چاہیے، مزید کہا: تربیت کے میدان میں انسان کو اپنے اعضاء و جوارح اور عقل کی بھی تربیت کرنا چاہیے۔
انہوں نے ہاتھ، پاؤں، آنکھ اور زبان سمیت تمام اعضاء و جوارح کی تربیت کے بارے میں کہا: بعض اوقات ایک لفظ اور ایک نگاہ مغرب سے مشرق تک کو بدل دیتی ہے۔
آیت اللہ رمضانی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ایک مربی کو پیشہ ورانہ مہارت کے علاوہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ دوسروں کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے، کہا: اگر انسان کا دل درست ہو تو وہ آگے بڑھ سکتا ہے۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ہمیں خدا کے لیے اچھے سے تعلیم و تربیت حاصل کرنا چاہیے، کہا: مذہب کو خشک اور دقیانوسی تصورات کے طور پر متعارف نہیں کرانا چاہیے۔ دین اس قدر عزیز ہے کہ امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں دین کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی جان دیتا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242