اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
پیر

6 دسمبر 2021

4:15:18 PM
1205919

ترکی اور صہیونی ریاست کے درمیان خفیہ اور آشکار تعلقات

اس تحقیق میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ترکی تعلقات کو مضبوط کرنے میں پہل کرنے والا تھا، لیکن جس فریق نے "نخرے" اٹھوائے وہ اسرائیل تھا۔ اس تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ "انقرہ کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لیے، تل ابیب نے یہ شرط رکھی کہ انقرہ حماس کے کارکنوں کو ترکی کی سرزمین سے بے دخل کر دے اور اس تحریک سے رابطہ منقطع کر دے۔"

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ ہمیشہ صہیونی حکومت کے خلاف بولنے اور فلسطینیوں کی حمایت کرنے والے ترک حکام کے تابڑ توڑ ریمارکس کے باوجود، تل ابیب میں قائم اسرائیل انٹرنل سیکیورٹی ریسرچ سینٹر کی جانب سے ترکی کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات بڑھانے کی نئی تحقیقات کے نتائج پر پردہ ڈالا گیا ہے جو سکے کے دوسرے رخ کی عکاسی کرتے ہیں۔
حال ہی میں شائع ہونے والے اسرائیلی مرکز کے مطالعے کے کچھ پہلو یہ ہیں، جن میں 2010 میں ترک بحری جہاز “مرمرہ” کے واقعے جس میں 10 ترک کارکن اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے، کے بعد ترک-اسرائیل تعلقات میں نمایاں بگاڑ پر گفتگو کی گئی ہے۔

اس تحقیق میں لکھا گیا ہے کہ “اسرائیل-ترک سیاسی تعلقات کے بگاڑ کے باوجود، حالیہ برسوں میں ان کی باہمی تجارت کو خاصا فروغ ملا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، دو تہائی باہمی تجارت ترکی سے اسرائیل تک تھی، اور 2019 میں، نصف ملین اسرائیلی سیاحوں نے ترکی کا دورہ کیا جو 2010 میں مرمرہ جہاز کے تباہ ہونے سے پہلے ریکارڈ کیے گئے اعداد و شمار سے ملتی جلتی تعداد ہے!

اس تحقیق میں مزید آیا ہے کہ “ترکی میں اقتصادی بحران کے دوران، ترکوں کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی اہمیت اور ضرورت میں اضافہ ہوا ہے، اور اسرائیلیوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ انقرہ اور تل ابیب کے درمیان تجارتی تعلقات دو طرفہ سیاسی تعلقات کے فروغ میں ایک اہم عنصر ہیں جو برسوں سے تعلقات کے ٹوٹنے سے روکیں گے۔ ”

ترکی نے 2018 میں جب امریکہ نے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیا اور غزہ اور قابض افواج کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں تھیں احتجاج کے طور پر ترکی نے اپنے سفیر کو تل ابیب واپس بلا لیا تھا لیکن دسمبر 2020 کے آخر میں ترک صدر رجب طیب اردگان نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بہتری میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ یہ کہا کہ مسئلہ فلسطین ترکی کی ریڈ لائن ہے۔

اسرائیلی تحقیق کے مطابق یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسی وقت جب انقرہ اور تل ابیب کے درمیان سفیروں کا تبادلہ ہوا تھا، مئی میں غزہ پر اسرائیلی فضائی حملے شروع ہوئے تھے اور اردگان نے اسرائیل کو دشمنی کے پیغامات کا ایک سلسلہ بھیجا تھا۔ لیکن اس تحقیق کے مطابق، چند ہفتوں کے بعد جون 2021 میں اردگان اور صہیونی ریاست کے صدر کے درمیان پہلی ٹیلی فونی گفتگو ہوئی۔ اور ترکی نے ایک دہائی میں پہلی بار ایک ثقافتی وفد کو تل ابیب بھیجا، لیکن تل ابیب نے ان اشاروں کا محتاط جواب دیا۔ یہ واضح نہیں تھا کہ ترکی تعلقات میں ایک نیا صفحہ کھولنے کے لیے کتنا بے تاب ہے اور کیا یہ اقدامات محض اسرائیل، یونان اور قبرص کے درمیان مضبوط تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش ہے؟۔

اس تحقیق میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ترکی تعلقات کو مضبوط کرنے میں پہل کرنے والا تھا، لیکن جس فریق نے “نخرے” اٹھوائے وہ اسرائیل تھا۔ اس تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ “انقرہ کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لیے، تل ابیب نے یہ شرط رکھی کہ انقرہ حماس کے کارکنوں کو ترکی کی سرزمین سے بے دخل کر دے اور اس تحریک سے رابطہ منقطع کر دے۔”

لیکن ایسا لگتا ہے کہ ترک حکام نے اسرائیلی شرط پر اپنا موقف باضابطہ طور پر بیان نہیں کیا، لیکن کچھ لوگوں نے ظاہر کیا کہ سفیروں کے تبادلے کے ساتھ ہی، حماس کے ایک سینیئر رہنما صالح العروری نے 2012 میں ترکی چھوڑ کر فوراً شام میں سکونت اختیار کی۔

تل ابیب اور انقرہ کے درمیان تعلقات کی نوعیت سے واقف تجزیہ کار اس تحقیق کے نتائج سے حیران نہیں ہیں، خاص طور پر چونکہ دو طرفہ تعلقات 1948 سے شروع ہوئے اور ترکی پہلا اسلامی ملک تھا جس نے غاصب حکومت کو تسلیم کیا۔ ان تعلقات کی شاخیں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئیں، اور اگرچہ ترک حکام نے اپنے بیانات میں اسرائیل مخالف بیانات کو خالصتاً پروپیگنڈے کے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے، لیکن اس سے فوجی، اقتصادی یا سیکورٹی تعلقات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی اور یہ وہی چیز ہے جس پر اسرائیلی تحقیق زور دے رہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242