اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
منگل

9 نومبر 2021

9:29:05 AM
1196952

امریکی ڈیموکریٹوں کی نیابتی جنگ اور افغانستان میں داعش کی جولانیوں کا راز / کیا مشرق وسطی میں "داعش کی اسلامی خلافت" کا منظرنامہ دہرایا جا رہا ہے؟

عربی اور اسلامی دنیا میں داعشی سرگرمیوں کی حدود میں توسیع نیابتی جنگوں (Proxy Wars) ڈیموکریٹوں جانی پہچانی پالیسیوں کی یاد دہانی کرا رہی ہے اور یہ پالیسی ان ملکوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے جو اپنی سرزمین پر تناؤ اور تنازعات کا ماحول فراہم کرتے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ مشرق نیوز عالمی سروس کے مطابق سنہ 2021ع‍ اور اور اس سال 19 جنوری کو امریکی صدر جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری کے ساتھ ہی بغداد میں دو خونی دھماکے ہوئے جن میں درجنوں افراد شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ اور ساتھ ہی ڈیموکریٹوں بر سر اقتدار آنے کے ساتھ ہی - دوبارہ احیاء کے سلسلے میں - داعش کی امیدوں میں کے بارے میں بحث شروع ہوئی۔
عراق سے افغانستان تک داعش کی خودنمائیاں
بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ داعش کی دہشت گردانہ کاروائیاں در حقیقت صدر بائیڈن کو یہ جتانے کی کوشش ہے کہ ڈیموکریٹوں کی منحوس میراث ابھی زندہ ہے اور یہ کہ وہ اپنے آقاؤں کو اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے تیار ہے؛ جس کے بعد داعش نے عراقی دار الحکومت اور دوسرے صوبوں میں نہتے عوام کے خلاف اپنے حملوں میں اضافہ کیا اور داعشیوں نے الحشد الشعبی کو بھی نشانہ بنایا جو سو فیصد امریکی مفاد میں ہے۔
داعش کے خفتہ خلیوں (sleeping cells) کی سرگرمیاں عراق تک محدود نہ رہیں بلکہ انھوں نے شام میں بھی متعدد حملے کئے ہیں اور لاتعداد افراد کو شہید کردیا ہے، اور بعدازاں افغانستان سے امریکیوں کے خفت آمیز انخلاء کے بعد افغانستان میں بھی داعش نے عام لوگوں بالخصوص شیعیان افغانستان کو بربریت کا نشانہ بنایا ہے۔
امریکہ بھاگ گیا اور داعش نے افغانستان میں اپنی کاروائیوں کا آغاز کیا تو کیا افغانستان میں داعش کی امریکیوں کے ساتھ ہم آہنگی کو چھپایا جاسکتا ہے؟ داعش کے حملوں کو بھاگے ہوئے عالم دہشت گردی کے اصلی سرپرست امریکہ کی پالیسیوں سے جدا نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ آج ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ امریکہ نے گذشتہ دو برسوں کے دوران - اور افغانستان سے بھاگنے سے پہلے - ہزاروں داعشی تکفیری دہشت گردوں کو عراق اور شام سے افغانستان منتقل کیا لیکن جب تک امریکی یہاں موجود تھے انھوں نے کوئی خاص حملہ نہیں کیا اور بالخصوص امریکی فوجی ان کے حملوں سے محفوظ رہے؛ گویا انہیں ان دنوں کے لئے کہیں چھپایا گیا تھا اور امریکی بھاگ گئے تو انھوں نے اپنے حملے شروع کئے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ 20 سالہ قبضے اور ظلم و ستم اور قتل و غارت کے بعد افغانستان میں ناکام ہوکر بھاگ گیا تو اب اس نے افغان قوم سے بدلہ لینے کے لئے داعش کو فعال کردیا ہے اور وہ فی الحال صرف شیعیان اہل بیت کو نشانہ بنا رہے ہیں گویا امریکہ اہل تشیّع ہی کو اپنی ذلت و خفت کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے!
اسی بنا پر - اور افغانستان کے موجودہ قابل اشتعال ماحول کو دیکھتے ہوئے، کہا جا سکتا ہے کہ اس ملک کے مختلف علاقوں میں اس طرح کے واقعات دہرائے بھی جا سکتے ہیں۔ حتی بعض مبصرین تو اس سے بھی زیادہ ہولناک صورت حال اور مزید دہشت گردوں کے افغانستان میں داخلے کی پیشن گوئیاں بھی کررہے ہیں۔
کیا دہشت گردی مغربی ایشیا سے افغانستان میں منتقل ہوئی ہے؟
چنانچہ یہ تصور ابھر سکتا ہے کہ امریکہ عراق اور شام سمیت عرب ممالک میں موجودہ داعش کے خفیہ خلیوں کو افغانستان منتقل کرکے - 2011ع‍ میں - شام کی طرح کا بحران افغانستان میں بھی دہرانا چاہتا ہے۔ شواہد سے بھی ظاہر ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکہ افغانستان کے خلاف اپنا معمول کا دائمی حربہ - یعنی دہشت گردی - استعمال کرکے اس کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے لیکن اس نکتے سے بھی غفلت جائز نہیں ہے کہ افغانستان میں داعش کی سرگرمیوں میں شدت آنے کے بعد، شام اور عراق میں داعش زدہ علاقوں میں داعشی تکفیریوں کی بربریت اور جرائم میں کوئی کمی نہیں آئی ہے اور تقریبا ہر روز ان علاقوں میں کسی دھماکے یا قتل و غارت کی کم از کم ایک خبر ذرائع ابلاغ میں شائع ہو رہی ہے۔
یہ جاننا ضروری ہے کہ داعش نے مشرق وسطی میں اپنی سرگرمیوں کی حدود میں توسیع کیوں کی ہے، تاکہ امریکہ کے ساتھ داعش سمیت دہشت گردی کی تمام اشکال، کے تعلق پر ایک نظر ڈالی جا سکے۔ امریکی حکومت کے کئی اہلکاروں کے اعتراف کے مطابق، ڈیموکریٹ انتظامیہ بالخصوص جو بائیڈن نے گذشتہ عشرے میں داعش نامی پراجیکٹ میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ حتی اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اپنی یادداشتوں میں اس حقیقت کا اعتراف کیا۔ ہلیری کلنٹن نے وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالا تو مغربی ایشیا داعش کا مرکزہ معرض وجود میں لایا گیا۔ انھوں نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب میں صراحت کے ساتھ اعتراف کیا ہے کہ امریکہ نے داعش کے قیام، تقویت اور فعالیت کے لئے زمین فراہم کرنے میں اصل کردار ادا کیا ہے۔ ہلیری کے اعترافات سے پہلے دسمبر 2013ع‍ میں برطانوی اخبار "ٹائمز" نے لکھا تھا کہ امریکہ نے ہی داعش کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا اور ابوبکر البغدادی کا دنیا میں چرچا کرایا۔
ہلیری کلنٹن کی خبریں – ہلیری کی تازہ ترین خبر
اگست سنہ 2016ع‍ میں امریکہ کی دفاعی انٹیلیجنس ایجنسی نے کچھ دستاویزات شائع کرکے داعش کے قیام میں سابق صدر بارک اوباما اور سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے بنیادی کردار کو فاش کیا اور اسی زمانے میں وکی لیکس (WikiLeaks) کے بانی جولین اسانژ (Julian Assange) نے انکشاف کیا کہ امریکی سی آئی اے نے داعش کی بنیاد رکھی ہے۔ نیز جو بائیڈن - جو آٹھ سال کے عرصے تک امریکہ کے نائب صدر تھے اور مبصرین کے خیال میں - "داعش کے گاڈ فادر" کے طور پر کردار ادا کرتے رہے ہیں؛ حتی کہ بائیڈن نے اکتوبر 2014ع‍ میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اہم ترین حلیف قرار دیتے ہوئے ضمنی طور پر اس علاقے میں دہشت گرد تنظیم داعش کے قیام میں واشنگٹن کے مؤثر کردار کا اعتراف کیا۔
مشرق وسطی میں پراکسی جنگ کے ذریعے روایتی امریکی پراجیکٹ "تخلیقی افراتفری کے نظریئے کے منصوبے کا نفاذ
ڈونلڈ ٹرمپ کے بر سر اقتدار آنے کے بعد دہشت گردی کے سلسلے میں امریکی پالیسیوں میں تبدیلی آئی اور ٹرمپ انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ مشرق وسطی بالخصوص شام اور عراق میں امریکی روایتی پراجیکٹ بعنوان ""تخلیقی افراتفری کے نظریئے" (creative chaos theory)" کو براہ راست نافذ کر دیں۔ اسی بنا پر، اگرچہ ٹرمپ کے چار سالہ دور میں، مشرق وسطی میں امریکی جرائم اور ظلم و جبر میں کوئی اور ٹرمپ نے جنرل قاسم سلیمان اور الحاج ابو مہدی المہندس پر دہشت گردانہ حملہ کروا کر، انہیں شہید کیا، لیکن اس نے افراتفری اور انتشار پھیلانے کی ان کاروائیوں کو براہ راست انجام دیا اور اسلامی ممالک میں داعش کے کارڈ کو استعمال نہیں کیا۔ [اس عرصے میں البتہ امریکہ عالمی سطح پر کافی حد تک رسوا ہؤا اور اس کی نرم قوت شدت سے کمزور پڑ گئی، اور ان لوگوں کے نظریات کو تقویت ملی جو امریکہ کے زوال پذیر ہونے پر تاکید کرتے تھے]۔
حقیقت یہ ہے کہ پراکسی وار اور مشرق وسطی کے معاملات میں بالواسطہ مداخلت ڈیموکریٹوں کی حکمت عملی کا حصہ ہے اور داعش پراجیکٹ کو بھی اسی تناظر میں نافذ کیا گیا ہے۔ امریکہ میں ڈیموکریٹوں کی مقبولیت کا سبب یہی ہے کہ وہ ظاہری طور پر اپنی ترجیحات کو اندرونی مسائل پر مرکوز کرتے ہیں اور بیرون ملک منصوبوں کو دوسرے اوزاروں کے وسیلے سے نافذ کرتے ہیں۔
بایئڈن نے اپنی صدارت کے آغاز میں ہی اعلان کیا تھا کہ ان کی انتظامیہ کی پالیسیاں اندرونی مسائل، بالخصوص کورونا کے مسئلے پر مرکوز ہونگی اور بیرونی منصوبے فی الحال ان کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہیں۔ اور دوسری طرف سے بائیڈن انتظامیہ نے عملی طور پر بھی چین اور مشرقی ایشیا پر اپنی توجہ مرکوز کرنے اپنا ارادہ آشکار کردیا ہے اور لگتا ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ مغربی ایشیا کے معاملات میں مزید مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتی اور پراکسی جنگوں کی حکمت عملی پر کاربند رہے گی۔
واضح ہے کہ مختلف امریکی حکومتیں - خواہ ڈیموکریٹ خواہ ریپبلکن - ممکن ہے کہ مشرق وسطی یا دنیا کے دوسرے علاقوں میں مختلف قسم کی حکمت عملیاں اپنائیں لیکن ان کا - یعنی بڑے شیطان امریکہ کا - بنیادی مقصد ایک ہی ہے اور اس میں تبدیلی نہیں آتی چنانچہ یہ توقع بے جا ہوگی کہ ریاست ہائے متحدہ میں ڈیموکریٹوں کے اقتدار سنبھالنے کی صورت میں مشرق وسطی کے عوام کو امن و آشتی میں رہنے کا موقع ملے گا۔
کیا "داعش کی اسلامی خلافت" کا منظرنامہ دہرایا جا رہا ہے؟
بہر صورت "تخلیقی انتشار" کے امریکی پالیسی کے تحت، داعش کے احیاء اور نام نہاد "اسلامی خلافت" کے لئے ہونے والی تکفیری کوششوں کی تکمیل کا مسئلہ سامنے آتا ہے۔ حتی کہ لبنان - جس کو گذشتہ 10 برسوں کے دوران داعش، سعودی گماشتوں اور دوسرے دہشت گرد ٹولوں کی طرف سے خطرہ تھا اور حزب اللہ نے اس ملک کو اس خطرے سے نجات دلائی - ان دنوں پھر بھی امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ان کے بڑے بھائی اسرائیل کی طرف سے پراکسی جنگ کے خطرے سے دوچار ہے اور آج اس ملک میں واشنگٹن اور اس کے مذکورہ آلہ ہائے کار کی طرف سے مشکوک سرگرمیاں جاری ہیں؛ دو ہفتے قبل سعودیہ اور اسرائیل سے وابستہ بدنام زمانہ دہشت گرد جماعت "حزب الکتائب" (جو ماضی میں فالانج پارٹی (Phalange Party) کہلاتی تھی اور لبنانی اور فلسطینی عوام کے قتل عام میں ملوث رہی ہے] نے الطیونہ کے علاقے میں حزب اللہ اور حزب الامل کے پرامن مظاہرین پر فائرنگ کرکے کئی افراد شہید کیا؛ اور یہ جماعت سعودی-یہودی بساط پر کھیلنے والے دوسرے ٹولوں کے ہمراہ بیروت کی بندرگاہ میں دھماکے کے الزامات کا رخ حزب اللہ کی طرف موڑنے کی مہم میں مصروف ہیں، لبنان کا اقتصادی محاصرہ کرنے میں امریکہ کا ہاتھ بٹا رہے ہیں؛ لبنان میں خانہ جنگی کے لئے ماحول سازی کر رہے ہیں؛ گویا شام کے ماڈل کو افغانستان کے علاوہ لبنان میں بھی دوبارہ آزمانے کے لئے سازش ہو رہی ہے۔
الطیونہ فائرنگ کیس میں لبنانی افواج کی تحقیقات
جو کچھ لبنان میں ہورہا ہے، وہ لبنان کے پڑوسی ممالک کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے؛ بالخصوص ایسے حال میں کہ اسلامی مزاحمت کو نہتا کرنے کی امریکی-صہیونی-عربی سازش اور حزب اللہ کو کمزور کرنے کی سازش بھی اپنی انتہا پر ہے؛ جس کی وجہ سے لبنان بیرونی [یعنی امریکی اور یہودی] حملوں اور دہشت گرد ٹولوں کی بھرمار کے آگے زد پذیر ہوگا۔
افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء عمل میں آ چکا ہے، عراق سے زیادہ تر امریکی فوجی جا چکے ہیں اور باقی فوجیوں کے انخلاء کا منصوبہ ہے، شام میں موجود امریکیوں کے انخلاء کی نشانیاں بھی دکھائی دے رہی ہیں جس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ امریکہ اپنی شیطانی خصلت ترک کر چکا ہے؛ بلکہ یہ ایک حساس مرحلہ ہے اور اس مرحلے کی ابتدائی علامتیں ظاہر ہوچکی ہیں، عراق، شام اور افغانستان میں داعش نے اپنی موجودگی کا عملی اور دہشت گردانہ اور خونخوارانہ موجودگی کا اعلان کرلیا ہے؛ چنانچہ بہت ممکن ہے کہ امریکہ اس علاقے میں ایک وسیع پراکسی یا نیابتی جنگ کا آغاز کر دے، اور ہمیں وہی واقعات دیکھنا پڑیں جو مشرق وسطی - بالخصوص مغربی ایشیا - میں داعش کے داخلے کے وقت رونما ہوئے۔ مغربی ایشیا - اور افغانستان سمیت جنوبی ایشیا - میں داعش کے دو بارہ آ ٹپکنے کا خطرہ ان ممالک کو درپیش ہے جن کے حکام کی غفلت کے نتیجے میں اندرون خانہ تنازعات، افراتفریوں اور انتشار کو ہوا دیتے ہیں یا پھر انتظامی امور میں کمزور ہیں، یہ مسائل اس وقت سب سے زیادہ افغانستان اور لبنان میں دکھائی دے رہے ہیں اور ان ممالک میں بھی جہاں داعش یا اس کے مماثل دہشت گرد ٹولوں کے ٹھکانے موجود ہیں۔
گذشتہ ایک عشرے کے دوران مغربی ایشیا میں محاذ مزاحمت نے اپنی لا زوال قوت کے ذریعے دہشت گردی اور دہشت گردوں، دہشت گردی سے فائدہ اٹھانے والی قوتوں کے دانت کھٹے کر دیئے ہیں لیکن اگلے مرحلے میں داعش کا نشانہ بننے والے ممالک میں مزاحمت کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے اور ان ممالک میں کلاسیکی افواج دہشت گردی کی ابتدائی شکلوں کے مقابلے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی ہیں اور افغانستان میں تو امریکہ کی تربیت یافتہ فوج روئے زمین سے مٹ چکی ہے اور طالبان جو کسی وقت خود دہشت گرد جماعت کے طور پر جانے پہچانے جاتے تھے، مذکورہ تجربے سے بے بہرہ ہیں؛ تا ہم جہاں تک مغربی ایشیا کا تعلق ہے تو شام، لبنان اور عراق سمیت یہاں کے ممالک میں پہلے بھی مزاحمت کا تجربہ کامیاب رہا ہے اور اب بھی ان کے سامنے مزاحمت ہی کا راستہ ہے جس کے لئے ان ممالک کے حکام اور عوام کو اسلامی مزاحمت تحریک کی جماعتوں اور مجاہد دستوں کی حمایت کرنا پڑے گی؛ یہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے امریکی دہشت گردی کے مختلف منصوبوں کو ناکام بنایا جاسکے گا اور ہمیں یقین ہے کہ دہشت گردی کے ضمن میں امریکی اور صہیونی ریشہ دوانیوں کی دوبارہ شکست، ان کی دائمی ابدی شکست ہوگی جس کے بعد وہ ان ممالک میں اس طرح کے حربوں کی افادیت سے مایوس ہوجائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110