اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
اتوار

7 نومبر 2021

3:31:02 PM
1196441

آزادی کا نام نہاد گہوارہ "فرانس"؛

کیا با حجاب فرانسیسی خاتون "مریم" فرانس کو خطرے میں ڈال رہی ہے؟

فرانس آزادی کا گہوارہ کہلوانے پر اصرار کے ساتھ ساتھ، عرصے سے حجاب کے خلاف نہایت سخت گیر پالیسی اپنائے ہوئے ہے اور با پردہ خواتین پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ فرانسیسی سیاستدانوں اور ذرائع ابلاغ نے سنہ 1918ع‍ میں سوربن یونیورسٹی کی "قومی طلبہ یونین" کی سربراہ منتخب ہونے والی [مراکشی نژاد] مسلم طالبہ مریم بوجیتو کے خلاف بھاری تشہیری مہم کا آغاز کیا، ان پر علیحدگی پسندی کے الزامات لگائے اور جب وہ حجاب کے ساتھ ٹیلی ویژن کے اسکرین پر ظاہر ہوئیں تو ایک طوفان بدتمیزی کا آغاز ہؤا اور سیاستدانوں اور ابلاغیات کے متعلقین نے ان کے حجاب اور بھاری لباس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں "غیر عورت" (non-woman) جیسے القاب سے نوازا اور ان کے یونیورسٹی کی قومی طلبہ تنظیم کی سربراہ کے طور پر انتخاب کو جامعات کی ہتک و توہین قرار دیا! [گویا فرانس میں برہنگی نسوانیت کی علامت ہے!]۔
مریم بوجیتو کے خلاف اقدامات جاری رہے اور دو سال بعد فرانسیسی پارلیمان کے نمائندوں نے کورونا وائرس کے اثرات کے بارے میں منعقدہ نوجوانوں کے نمائندوں کی سماعت کے اجلاس میں شرکت سے اجتناب کیا، یہاں تک کہ فرانس کے داخلی امور کے وزیر جرارد کولمب (Gérard Collomb) نے مریم بوجیتو پر علیحدگی پسندگی تک کا الزام لگایا۔
یورپ میں گویا حکمران حجاب سے ڈرتے ہیں، اور یہاں حجاب کے خلاف جنگ طویل پس منظر رکھتی ہے۔ یورپی کونسل نے حال ہی سماجی رابطے کی ویب گاہوں میں مسلم خواتین کے حق کے طور پر حجاب کی ترغیب پر مبنی تبلیغات کو حذف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یورپی کونسل کا یہ اقدام فرانس کے اعتراض کے بعد عمل میں آیا جو یورپ میں مسلم خواتین پر دباؤ پر مبنی تازہ ترین اقدام سمجھا جاتا ہے۔
اسی سال 15 جولائی کو بھی لگزمبرگ (Luxembourg) میں واقع یورپی عدالت نے ایک قرارداد جاری کردی جس کے تحت کسی بھی کام اور پیشے کے مقام پر اسلامی حجاب پہننا ممنوع قرار دیا گیا ہے اور زور دیا گیا ہے کہ "یہ فیصلہ کسی طور بھی یورپ میں مسلم اقلیت کے خلاف امتیازی اقدام کے زمرے میں نہيں آتا، بلکہ اس کے برعکس یہ سماجی تناؤ سے بچاؤ میں مدد دیتا ہے"۔
عدالت نے یہ فیصلہ جرمنی میں دو مسلم خواتین کی شکایت پر سنایا جن میں سے ایک کسی میڈیکل اسٹور پر کام کررہی تھی اور دوسری عمر رسیدہ افراد کے گھر (Nursing Home) میں مصروف کار تھی۔ ان دونوں خواتین کے آجروں نے ان سے حجاب اٹھانے کا تقاضا کیا تھا۔ جس کے جواب میں مبینہ یورپین عدلیہ نے دعوی کیا کہ ان خواتین کے آجروں نے ثابت کیا ہے کہ ان خواتین کا حجاب اتارنے کے سلسلے میں ان کا فیصلہ کام کاج کے مقام پر مصروف تمام کارکنوں میں "مذہبی غیر جانبداری" کے طور پر ضروری تھا۔
نام نہاد عدالت کا فیصلہ باحجاب مسلم خواتین پر فشار بڑھانے کے سلسلے میں ایک نیا قدم تھا اور یہ قدم اس سے سے پہلے فرانس، جرمنی، بلجیئم، ڈنمارک اور بلغاریہ میں مسلم خواتین کے خلاف اور انہیں حجاب سے منع کرنے کے حوالے سے اٹھائے گئے ہیں۔ مسلم خواتین ان بظاہر ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں تعلیم، روزگار نیز کھیل کے حوالے سے شدید مسائل کا شکار ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی تعمیر نو میں پیش پیش رہے
اس میں کوئی دوسری بات نہیں ہے کہ یورپی تہذیب مسلمانوں کے مرہون منت ہے، اور پھر بیسویں صدی کے وسط میں بیشتر استعماری یورپی ممالک کو اپنی نوآبادیوں سے نکلنا پڑا اور برطانیہ سمیت معدودے چند لٹیروں کے سوا، چھوٹے چھوٹے سامراجی ممالک بھاری فوجی اور معاشی ناکامیوں سے دوچار ہوکر اپنے ممالک میں پلٹ آئے۔ اور پھر دوسری عالمی جنگ نے بھی پورے یورپ کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا تھا اور کروڑوں یورپی یورپیوں کے ہاتھ ہلاک ہوچکے تھے؛ چنانچہ انہیں اپنے ممالک کی تعمیر نو کے لئے افرادی قوت کے محتاج تھے چنانچہ ہزاروں عربوں اور مسلمانوں نے بہتر مستقبل کی خاطر یورپ کا رخ کرکے ان کی ضروریات کو پورا کیا؛ جبکہ یہ عرب اور مسلم لوگ تنہا نہیں تھے بلکہ اپنی عادات و اطوار اور دینی و مذہبی عقائد کو بھی اپنے ساتھ یورپ لے گئے تھے؛ اور جو چیز اس حوالے سے بہت نمایاں تھی وہ حجاب تھا جو مسلم خواتین اپنے ساتھ لے گئی تھیں۔
بعدازاں ایسے حال میں اسلامی حجاب کے خلاف جنگ یورپی اتحاد کی سرحدوں تک پھیل گئی کہ یورپ کی گلیوں اور سڑکوں میں با حجاب مسلم خواتین دکھائی جانے لگیں۔
مغربی ممالک نے اس سے پہلے مختلف اسلامی ممالک کی خواتین کا پردہ چھیننے کی کوشش کی تھی لیکن اب انہیں اپنے ممالک کے اندر حجاب کے رواج کا سامنا تھا اور وہ اسے ایسا چیلنج سمجھتے تھے جو یورپ کی ثقافت کا حصہ بن چکا تھا۔
فرانس یورپ میں حجاب کا دشمن نمبر 1
فرانس ابتداء ہی سے یورپ میں حجاب کا دشمن نمبر ایک سمجھا جاتا ہے۔ فرانسیسی اپنے قوانین پر فخر کرنے کے عادی ہیں اور ان قوانین کو فرانسیسی انقلاب کا تسلسل سمجھتے ہیں تاکہ "فرانس ایسی سرزمین کی حیثیت اختیار کرے جس میں آزادی اور مساوات کی مکمل حکمرانی ہوگی"، لیکن فرانسیسی جن قوانین کو مقدس سمجھتے ہیں، وہ دوسری طرف سے دوسروں کے خلاف امتیازی پالیسیوں اور دوسروں کی تذلیل میں بدل چکے ہیں۔
حکومت فرانس نے سنہ 2003ع‍ میں اختلافات اور تناؤ کو اسکولوں اور عمومی مقامات پر حجاب سمیت مذہبی علامتوں کے استعمال پر ممانعت کے قانون کی منظوری کا سبب گردانا کہ اس ملک میں سنہ 2002ع‍ تک کے کئی عشروں میں حجاب کے سلسلے میں مجموعی طور پر 1200 اختلافی واقعات ریکارڈ ہوئے تھے جن میں صرف پانچ واقعات ایسے تھے جن میں عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑی تھی۔
فرانسیسی قانون میں با حجاب خواتین پر پابندیاں
فرانسیسی حکومت نے دعوی کیا ہے کہ وہ بس "مسلم خواتین کی آزادی کی خاطر اسلام کے خلاف جنگ!" لڑ رہی ہے؛ لیکن وہ اس جنگ کے ضمن میں باحجاب مسلم خواتین کو تعلیم، روزگار، کھیلوں وغیرہ میں ان کے حقوق سلب کرتی ہے یہاں تک کہ طلبہ کے تعلیمی و تفریحی کیمپوں ميں انہيں اپنے بچوں کی معیت سے محروم کرتی ہے۔
اسی سلسلے میں ایک فرانسیسی محقق ایمانویل ٹیرے (emmanuel-terray) نے اپنی تحقیق بعنوان "حجاب کا مسئلہ: ایک سیاسی ہسٹریا" کے ضمن ميں لکھا: "با حجاب خواتین کے سلسلے میں بہت زیادہ حساسیت پائی جاتی ہے، کیونکہ وہ فرانسیسی حکومت کی سیکولر پالیسیوں کا واحد نشانہ ہیں، حالانکہ وہ کیتھولک راہباؤں یا یہودیوں کے ساتھ اس قدر حساسیت پر مبنی رویہ نہیں اپناتے۔
یورپ میں راہباؤں اور یہودیوں پر پابندیاں نہ ہونے کے برابر
فحش فلموں اور فحش ماڈلنگ میں عورتوں کا آلاتی استعمال (Instrumental use) یورپیوں کے لئے قابل قبول ہے
یورپیوں کا دعوی ہے کہ وہ عورتوں کے دفاع کی خاطر ہی حجاب کے خلاف اقدامات کررہے ہیں لیکن وہ فحش فلموں اور اشتہارت میں عورتوں کے آلاتی استعمال اور فحاشی اور جسم فروشی سمیت بعض "تجارتی!" مسائل پر بحث و تمحیص تک کے لئے تیار نہیں ہیں۔
ہزاروں تارکین وطن یورپی ممالک میں اقامتی ویزا کے حصول کے لئے کئی برسوں تک ٹھوکریں کھاتے ہیں تاکہ انہیں ان ممالک میں سفر کرنے کی اجازت اور ان ممالک کے امتیازی قوانین کی زد سے چھٹکارا ملے جو عام طور پر ان کی ملک بدری پر منتج ہوتے ہیں۔ اور اگر پناہ گزین خواتین باحجاب ہوں تو انہيں مزید صعوبتیں جھیلنا پڑتی ہيں۔
فرانسیسی امیگریشن کے ادارے کا دعوی ہے کہ حجاب مسلم خواتین کے فرانسیسی معاشرے میں گھل ملنے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے؛ اور حجاب جمہوریہ فرانس کے اقدار سے متصادم ہے، چنانچہ با پردہ خواتین - جو فرانسیسی شہریت کے لئے دوخواست دیتی ہیں - بہت زیادہ مسائل اور چیلنجوں کا سامنا کرتی ہیں۔
یورپ میں با پردہ خواتین کو شہریت دینے کی مشکل صورتحال
ایک تحقیق کے مطابق، فرانسیسی شہریت کا ادارہ مسلمان خواتین سے تفتیش اور پوچھ گچھ کے دوران ان کے لئے بہت مشکل حالات پیدا کرتا ہے۔ اس ادارے میں مسلم خواتین کے داخل ہوتے ہیں، ان سے کہا جاتا ہے کہ اپنا لباس ہلکا کر دیں اور حجاب اتار دیں۔ اگر ادارہ ان کی درخواست منظور کرے تو یہ ان عورتوں کے لئے ایک مثبت علامت ہے لیکن اگر ان کی درخواست مسترد ہوجائے تو ان کے ریکارڈ میں ایک منفی علامت ثبت کی جاتی ہے۔ لیکن یہ مسئلے یہيں پر ختم نہیں ہوتا۔ اگر درخواست گذار مسلم خاتون ادارے کی ہدایت مان لے اور ججاب اتار دے تو پھر ادارے کے مرد کارکنوں کو متعلقہ بیٹھک میں آنے کی دعوت دی جاتی ہے تاکہ مسلم خاتون کے رد عمل کو پرکھا جاسکے! اور مسلم خاتون کے کسی بھی قسم کے منفی رد عمل کو "فرانسیسی معاشرے میں گھل ملنے کی طرف عدم رغبت" کی ایک سطح کے طور پر ثبت کیا جاتا ہے۔
فرانسیسی وزیر تعلیم جان میشل بلانکر (Jean-Michel Blanquer) کا کہنا ہے کہ "فرانسیسی معاشرے میں اسلامی حجاب کا خیر مقدم نہيں ہوتا"۔
مذکورہ بالا رپورٹ ان لوگوں کی آنکھیں کھلنے کے لئے کافی ہے جو مغرب کی اندھا دھند تقلید میں اندھے ہوچکے ہيں اور مغربی اقدار کو بنی نوع انسان کی ترقی کا سبب گردانتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242