اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : faraan
اتوار

10 اکتوبر 2021

3:33:56 PM
1187487

قندوز میں خونی دھشتگردی، داعش افغانستان میں امریکہ کا آخری ہتھیار

جو چیز علاقے کے ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اس کی ایک مثال گزشتہ روز افغانستان کے صوبے قندوز کی مسجد میں شیعہ نمازیوں میں کیا جانے والے خود کش حملہ تھا جس نے 150 نمازیوں کو خاک و خوں میں غلطاں کر دیا اور دسیوں کو زخمی بنا دیا۔

تاہم ، گزشتہ چار دہائیوں میں خطے میں رونما ہونے والے واقعات کی روشنی میں ، القاعدہ کے وجود اور افغانستان میں ہونے والی تبدیلی سے لے کر عراق پر امریکی حملے کے بعد تکفیری گروہ کی تشکیل نیز شام کے حالات اور داعش کا وجود، دیکھ کر اس بات کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ تکفیری دھشتگرد گروہوں کے امریکہ اور مغربی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ تعلقات پر کوئی دلیل پیش کی جائے۔ خاص طور پر جب خود امریکی حکام بشمول سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اس بات کا اعتراف کر لیا کہ داعش خالصتا امریکی پروڈیکٹ ہے۔
ایک عرصے سے کچھ ممالک جیسے عراق و شام داعش جیسے دھشتگرد گروہ کے روبرو ہیں اور ایران کی زیر قیادت مزاحمتی محاذ البتہ روس و چین کی مدد سے اس دھشتگرد گروہ کے مقابلے میں برسرپیکار ہے۔ عراق و شام میں امریکہ کے پروردہ اس دھشتگرد گروہ کو حاصل ہونے والی شکست کے بعد امریکہ نے اسے افغانستان میں منتقل کر دیا۔ یہ وہ منصوبہ تھا جو امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ تاکہ اس کے نفاذ کے ساتھ اس ملک کو غیر مستحکم کیا جا سکے، اور اس طرح سے اس ملک کے اطراف کے ممالک کے لیے خطرہ بنا دے خصوصا ان ممالک کے لیے جو علاقے میں امریکی عزائم کے مدمقابل کھڑے ہیں جیسے چین، ایران اور روس۔
جو چیز علاقے کے ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اس کی ایک مثال گزشتہ روز افغانستان کے صوبے قندوز کی مسجد میں شیعہ نمازیوں میں کیا جانے والے خود کش حملہ تھا جس نے 150 نمازیوں کو خاک و خوں میں غلطاں کر دیا اور دسیوں کو زخمی بنا دیا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ دہشت گردانہ حملہ افغانستان کے جلال آباد شہر میں تین خونی دھماکوں کے چند دن بعد ہوا جس میں طالبان کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا اور جس میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔ یہ تمام دھماکے اس وقت رونما ہو رہے ہیں جب افغانستان نے طالبان کی حکومت کے زیر سایہ گزشتہ دو ماہ سے نسبتا امن کا احساس کیا ہے۔ وہ امن جو امریکہ نہیں چاہتا اور اپنے گندے آلہ کار داعش کے ذریعے اس امن میں خلل ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس حقیقت کو سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ افغانستان میں شیعہ مسلمانوں کو نشانہ بنانا اسی منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت عراق اور شام میں شیعہ مسلمانوں کو خونی کاروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ان حملوں سے امریکہ افغانستان کو خانہ جنگی اور انتشار اور تباہی کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہا ہے ، لیکن جس طرح عراق اور شام میں یہ منصوبے اور سازشیں ان کی قوموں کی مزاحمت اور مسلح افواج، رضاکار فورسز خصوصا حشد الشعبی کی قربانیوں اور عوامی شجاعت کی وجہ سے ناکام ہوئیں، انہیں افغانستان میں بھی ناکام کیا جائے گا۔ “شیعہ و سنی” کے اختلاف کا کارڈ الحمد للہ اسلامی بیداری کی بدولت جل چکا ہے، اور اس کی سب سے بڑی دلیل “سعودی ولی عہد محمد بن سلمان” کا وہ اعتراف ہے جس میں انہوں نے امریکہ کو تکفیری نظریہ پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ایسے حال میں کہ سعودی عرب نے خود اپنے تمام وسائل کو استعمال کر کے وہابی نظریہ کو فروغ دینے کی کوشش کی جو کہ اسلامی دنیا میں اہل بیت کے پیروکاروں کو کچلنے کے در پہ تھی، جس کے نتیجے میں گزشتہ دہائیوں کے دوران القاعدہ اور داعش جیسے تکفیری گروہ ابھرے محمد بن سلمان کا یہ اعتراف اگرچہ بہت دیر سے تھا لیکن اس نے یہ ظاہر کر دیا کہ شیعہ سنی تنازعہ کا کارڈ اپنا اعتبار کھو چکا ہے اور اس کا جھوٹ ثابت ہو چکا ہے۔ اگر چہ امریکہ اور اسرائیل افغانستان میں اپنے بچے کچھے ہتھیار کا استمعال کر کے اس تنازعہ کو متحرک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں اپنے مذموم عزائم میں کامیابی نہیں ہو گی۔ چنانچہ افغانستان کے شہر قندوز میں جمعہ کے روز ہونے والا یہ خونی واقعہ اسی وہابی پیلے کارڈ کا ایک گوشہ تھا۔