اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
اتوار

12 ستمبر 2021

12:11:26 PM
1179287

افغانستان سے امریکی فرار؛

بن سلمان کا ڈراؤنا خواب؛ اشرف غنی کا انجام دہرایا بھی جاسکتا ہے/ امریکہ کا ڈھانپا ننگا ہے

افغانستان کے اندرونی حالات اور سعودی عرب کی صورت حال کی مماثلت نے محمد بن سلمان کو تشویش میں ڈال دیا ہے کہ کہیں ان کا انجام بھی اشرف غنی جیسا نہ ہوجائے!

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ سابق مصری صدر حسنی مبارک نے عوامی احتجاج کے نتیجے میں اپنے زوال سے کچھ دن قبل ایک جملہ ادا کیا جو بعد میں بہت مشہور ہؤا، اور وہ یہ تھا: "امریکہ کا ڈھانپا ننگا ہوتا ہے"۔
گوکہ مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے حالیہ عشرے کے حالات حسنی مبارک کے اس جملے کو صحیح ثابت کرچکے ہیں، لیکن افغانستان میں تیز رفتاری سے بدلنے والے سیاسی حالات کے متغیرات (Variables) کے سائے میں - جو ایک امریکی کٹھ پتلی صدر کے فرار پر منتج ہوئے ہیں - حسنی مبارک کے اس جملے نے ایک بار پھر سعودی حکمرانی بالخصوص محمد سلمان کا گریبان پکڑ لیا ہے۔
بن سلمان کو ایسے حال میں اس بھیانک خواب کا سامنا ہے کہ کثیر تعداد میں اندرونی اور بین الاقوامی عوامل و اسباب کے پیش نظر، پریشانی کا سامنا کئے بغیر ہی اس کو تخت شاہی تک پہنچنے کی اپنی آرزؤوں تک پہنچنا کچھ زیادہ آسان نظر نہیں آرہا ہے۔ کیونکہ اس نے بادشاہی تک پہنچنے کے لئے حالیہ برسوں میں سینکڑوں ارب ڈالر کا خراج امریکیوں کو ادا کیا ہے اور اسے امید ہے کہ امریکہ اس کی مدد کو آہی جائے گا۔
بن سلمان کی تشویش اور مشرق کی طرف گردش
"بڑے حلیف!" کی جانب سے سعودیوں کی فکرمندی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اس ملک نے امریکہ کی ناراضگی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے، نائب وزیر دفاع خالد بن سلمان کو ماسکو بھجوایا تا کہ روس کے ساتھ ایک فوجی مفاہمت نامے پر دستخط کرے۔ گوکہ بہت سے مبصرین اس مفاہمت نامے کے انجام سے پرامید نہیں ہیں۔ چنانچہ لگتا ہے کہ سعودیوں نے یہ اقدام امریکہ کو خبردار کرنے کے لئے سرانجام دیا ہو؛ تاہم مجموعی طور پر یہ اقدامات سرزمین حرمین پر مسلط سعودی قبیلے کی ناخوشی کو ضرور ظاہر کرتے ہیں۔
ادھر سعودی حکمران کینیڈا، جرمنی اور بلجیئم کو بھی ایک پیغام دینا چاہتے ہیں جنہوں نے قحط زدہ یمن پر 6 سالہ سعودی جارحیت کی بنا پر اس ملک کو اسلحے کی برآمدات کو محدود کرلیا ہے؛ کہ اگر وہ اسلحہ نہ دیں تو دوسرے ممالک سے بھی اسلحے کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔ اگرچہ یہ پالیسی امریکیوں کے حوالے سے پوری احتیاط کے ساتھ ہے؛ کیونکہ امریکیوں نے اس سے قبل ترکی نیز خود سعودی عرب کے حوالے سے ثابت کرکے دکھایا ہے کہ "روس کے ایس-400 فضائی دفاعی نظام کی خریداری وائٹ ہاؤس کے لئے سرخ لکیر ہے"۔
افغانستان اور سعودی عرب کی اندرونی صورت حال کے مابین مماثلت کے پہلو
افغانستان کی صورت حال سے بن سلمان کی تشویش سعودیہ اور افغانستان کے اندرونی صورت حال کی مماثلت کے تین بنیادی ستونوں پر استوار ہے:
1۔ "فوجی صلاحیتوں کے مقامیانے [اور دیسی بنانے] کا فقدان"،
2۔ "خاص قسم کے حالات میں حلیفوں کے تئیں امریکہ کی حمایت کا فقدان"، اور
3۔ "حکمرانی کے تئیں رائے عامہ کی حمایت کا فقدان"۔
ذیل میں ان تین مماثلتوں کی تشریح پیش خدمت ہے:
1۔ فوجی صلاحیتوں کے مقامیانے [اور دیسی بنانے] کا فقدان
سعودی فوج کو اگرچہ عسکری تحقیقاتی حلقوں کی درجہ بندیوں میں - جدید ہتھیاروں اور اعلی افرادی صلاحیتوں کے حساب سے - قابل قبول ممالک کے زمرے میں قرار دیا گیا ہے؛ لیکن بنیادی مسئلہ - جو خاص طور پر یمن کے خلاف چھ سالہ بنی سعودی جارحیت کے دوران سعودی حکمرانوں کو ستاتی آئی ہے - یہ ہے کہ اس کی فوجی صلاحیت اندرونی اور مقامی نہیں ہے، انھوں نے جدید اور پیچیدہ ہتھیار تو خرید لئے ہیں مگر ان ہتھیاروں کو اپنی افرادی قوت سے ہم آہنگ نہیں کرسکے ہیں؛ بعینہ یہی مسئلہ افغان فوج کو بھی درپیش تھا اور طالبان نے سادہ ترین ہتھیاروں کے ساتھ حملہ کیا تھا مگر امریکی طرز کی تیار کردہ افغان فوج ان کے سامنے نہیں جم سکی۔
سعودی عرب میں یہ رجحان خاص طور پر یمن کی جنگ کے حالیہ برسوں میں بھی نمایاں رہا ہے
یہ رجحان یمن پر سعودی جارحیت کے دوران خاص طور پر نمایاں ہؤا ہے جس کی وجہ سے غربت زدہ ایشیائی اور افریقی ممالک کے کرائے کے فوجی سعودی-یمنی سرحدوں پر اکٹے ہوتے نظر آرہے ہیں، اور معلوم ہوتا ہے کہ سعودی فوج کے پاس نہ صرف بیرونی جنگوں میں کامیابی کے لئے ضروری فوجی صلاحیت نہیں ہے بلکہ وہ اندرونی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے بھی ہمیشہ سے بیرونی عوامل پر بھروسہ کرنے پر مجبور ہے۔
یہ مسئلہ اگرچہ سعودی افواج کے لئے انتباہی عنصر کا ایک جزء ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ خطرناک نکتہ یہ ہے کہ سعودی افواج میں قوم پرستانہ اور عسکری حمیت بھی کچھ زیادہ قوی نہیں ہے۔
2۔ خاص قسم کے حالات میں حلیفوں کے تئیں امریکہ کی حمایت کا فقدان
حالیہ 10 برس کے عرصے میں امریکہ کے حلیف مسلسل مشاہدہ کررہے ہیں کہ امریکہ خاص مواقع - اور جب ان حلیفوں کو اندرونی احتجاجات سے نمٹنے کے لئے، واشنگٹن کی بنیادی مدد و حمایت کی ضرورت ہوتی ہے - مختلف حیلوں بہانوں سے ان کی مدد سے دریغ کرتا ہے۔ یہ حقیقت اکیسویں صدی کی دوسری تہائی کے آغاز سے ہی مصر، تیونس، لیبیا اور یمن میں عیاں ہوئی اور آج ایک بار پھر افغانستان سے امریکہ کے حلیف سابق صدر اشرف غنی احمد زئی کے فرار کے ساتھ، یہ ڈراؤنا سپنا علاقے میں موجود امریکہ سے وابستہ حکمرانیوں کے لئے، ایک بار پھر زندہ ہوچکا ہے۔
چنانچہ سعودیوں کو بخوبی معلوم ہے کہ اگرچہ ان دنوں انہیں اندرونی مسائل پر قابو پانے اور یمن پر اپنی جارحیت جاری رکھنے کے لئے پوری آزادی حاصل ہے لیکن اگر کسی دن اپنے اطراف کی سلامتی فضا پر قابو رکھنے کی صلاحیت کھو ڈالیں تو یقینا، انہیں اپنی حکمرانی کی بقاء کے لئے امریکی پشت پناہی کی توقع نہیں رکھنا چاہئے۔ ریاض کے حکمرانوں کی تشویش اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب کے خلاف 9/11 کے متاثرین کے خاندانوں کے لیے امریکی معاوضے کے دعوے سمیت متعدد متنازعہ معاملات امریکہ اور سعودیہ کے درمیان بدستور موجود ہیں؛ اور موجودہ صدر جو بائیڈن نے سعودی عرب کے تئیں امریکہ کی ہمہ جہت حمایت کی پالیسی کو ترک کردیا ہے۔
3۔ حکمرانی کے تئیں رائے عامہ کی حمایت کا فقدان
افغانستان کے سابقہ صدارتی انتخابات اور ان متنازعہ انتخابات کے نتیجے میں اشرف غنی کے برسراقتدار آنے کے عمل کا از سر نو جائزہ لیا جائے تو بالکل آشکار ہوجاتا ہے کہ افغانوں کے درمیان ان کی حمایت انتہائی کمزور ہے۔ ادھر سعودیوں کو بھی سماجی تہوں میں اسی قسم کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اگرچہ سرزمین حجاز میں سعودی حکمرانوں کی حمایت پر مبنی رویہ نہیں دکھائی دیتا - جس نتیجے میں سعودی ریاست کے اندر شدید معاشی دباؤ، امتیازی رویوں اور بدعنوانیوں کی وجہ سے، سعودی قبیلے کو شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑ رہا ہے - مگر یہ ملک پولیس سٹیٹ کی سی کیفیت رکھتا ہے، ہر چیز کو امن و امان کے لئے خطرناک سمجھا جاتا ہے، اور عوام کے ساتھ سرکاری رویہ بدگمانی پر مبنی ہے، جس کی وجہ سے مختصر مدت میں عوامی احتجاج کا منظر عام پر آنا کافی مشکل ہے، لیکن بہرحال محمد بن سلمان جانتا ہے کہ اس صورت حال اور سعودی قبیلے کی حکمرانی کو طویل عرصے تک جاری رکھنا ممکن نہیں ہے، چنانچہ عوامی مطالبات پر عملدرآمد کرنے کے لئے اسے مناسب اقدامات کرنا ضروری ہے، گوکہ شاید اس کے پاس اتنی فرصت نہ رہی ہو۔
ادھر سرزمین حجاز میں انتہاپسندی کے ساتھ ساتھ لبرلزم نے بھی قدم جما لیے ہیں، گویا لبرل اور سیکولر سعودی حکمرانوں کے تحت چلنے والے انتہاپسند مذہبی اداروں میں بھی آج حکمرانوں والے رویے ابھر چکے ہیں، اور ان دو دھاروں - یعنی محمد بن سلمان کی پالیسیوں کی وجہ سے لبرلزم اور انتہاپسندی - کے درمیان اختلاف رائے میں بہت زیادہ شدت آئی ہے؛ اور بالآخر سعودی معاشرے میں تضادات عروج تک پہنچ چکے ہیں۔
سعودی قبیلے کو مذکورہ بالا تضادات کے علاوہ سرزمین عرب میں اخوان المسلمون کی سماجی مقبولیت کے خطرے کا بھی سامنا ہے۔ اخوان المسلمون انتہاپسندانہ مذہبی نقطۂ نظر سے وہابی نظریات کے قریب تر بھی ہے، مگر سعودی حکمران طویل عرصے سے انہیں اپنے نظریاتی مخالفین میں شمار کرتے ہیں۔ یہ اختلاف روز بروز بڑھ رہا ہے کیونکہ بن سلمان سرزمین حجاز میں "کھلی مذہبی فضا!" کے نام پر "منفی قدروں (Anti-values)" کو فروغ دے رہا ہے۔ چنانچہ اس کے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
روس اور چین کے ساتھ سعودی لین دین کے دو طرفہ فوائد
یہ تمام تر اسباب سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد بن سلمان نہ صرف اپنے باپ سلمان بن عبدالعزیز کی طبعی موت سے قبل بادشاہ بننے کے سلسلے میں امریکی حمایت پر بھروسہ نہيں کرسکتا بلکہ اپنے لئے ذات اور حتی کہ سعودی قبیلے کی حکمرانی کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات کے لئے امریکی پشت پناہ پر اعتماد نہیں کرسکتا۔
چین اور روس کی طرف نسبتی رجحان
سعودیوں نے ایسے حال میں روس اور چین کی طرف نسبتی رجحان کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا ہے کہ لگتا نہیں ہے کہ امریکہ اس رجحان کے سامنے خاموش رہے گا اور سعودیوں کو ان کی طرف دباؤ کا سامنا نہيں ہوگا، چنانچہ ممکنہ امریکی دباؤ کی صورت میں لگتا نہیں ہے کہ سعودی کچھ خاص پیشرفت کرسکیں گے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جو ماسکو اور بیجنگ کی نظروں سے بھی دور نہیں ہے اور وہ بھی ریاض کے ساتھ مذاکرات میں محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔
اس کے باوجود ماسکو عالمی منڈی میں تیل کی قیمت کو اپنے کنٹرول میں لانے اور چین سعودی عرب میں چینی مصنوعات کی مارکیٹ کو مدنظر رکھ کر، ریاض کے ساتھ اپنے تعامل اور لین دین کو اہمیت دیتے ہیں۔ دوسری طرف سے ان ممالک کے پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ اگر امریکہ مشرق وسطی سے انخلاء کے اپنے فیصلے میں سنجیدہ ہؤا تو یہ انخلاء علاقے میں ایک خلا کا باعث ہوگا اور اگر روس اور چین علاقے کے تزویراتی علاقوں میں پہلے سے موجود ہوں تو اس خلاء سے اپنے حق میں فائدہ اٹھا سکیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110