اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعرات

9 ستمبر 2021

1:24:37 PM
1178444

افغانستان سے امریکہ کا فرار؛

دنیا کی پہلی خبر؛ سوپر پاور امریکہ کا پرچم اتار لیا گیا

افغانستان سے امریکہ کا فرار خود بخود انجام کو نہيں پہنچا ہے اور یہ واقعہ ایک جماعت یا گروہ کی ذہنی صلاحیت سے کہیں زیادہ بڑا واقعہ ہے۔ افغانستان، عراق اور علاقے کے دوسرے ممالک سے امریکہ کو نکال باہر کرنے کا منصوبہ، اسلامی جمہوریہ ایران کا منصوبہ ہے جس کو پوری باریک بینی کے ساتھ، خاص قسم کی نظام الاوقات کے مطابق، اور علاقائی قوتوں کے برادرانہ اور مصلحانہ تعاون کے ساتھ، نافذ کیا گیا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ افغانستان میں امریکہ کی بھاری اور رسوا کن شکست ان دنوں کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی خبر ہے۔ یہ اتنی بڑی شکست ہے کہ اس کا موازنہ ویتنام میں اور پھر عراق اور شام میں امریکی شکست سے نہیں کیا جاسکتا۔ یہ مکمل شکست ہے یہاں تک کہ آج کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ نامی بڑی طاقت، مزید بڑی طاقت نہیں ہے۔
روزنامہ واشنگٹن نے جمعہ - مورخہ 13 اگست 2021ء - کو لکھا: جارج ڈبلیو بش، بارک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ اس حقیقت کو چھپاتے رہے کہ امریکہ افغانستان کی جنگ ہار چکا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ "مربوط حکمت عملی کے بغیر، ابہام پیدا کرنا" شکست کے اعتراف سے بہتر ہے۔
افغانستان میں امریکی شکست کی خبر آج کی دنیا کی اہم ترین خبر ہے جس کا موازنہ نہ تو ویتنام میں امریکی شکست سے کیا جاسکتا ہے اور نہ عراق اور شام کی جنگ میں ان کی تمام تر سازشوں اور فوجی اقدامات کی ناکامی سے۔ امریکی افواج کے سابق چیف آف جوائنٹ اسٹاف کے نائب، کارٹر ملکاسیان (Carter Malkasian) – جو عرصہ دو سال تک افغانستان کے صوبہ ہلمند میں مقیم رہے ہیں، نے 500 صفحات پر مشتمل کتاب "افغانستان میں امریکہ کی جنگ"، جو ان دنوں شائع ہوئی ہے، میں لکھتے ہيں:
"اس میں شک نہیں ہے کہ ہم جنگ کو ہار گئے ہیں ۔۔۔ امریکہ ایسے حال میں یہ جنگ ہار چکا ہے کہ جس میں جیتنے کے لئے اس نے دنیا کی "نہایت پیچیدہ اور ہلاکت خیز فضائیہ" کو استعمال کیا ہے ۔۔۔ امریکہ نے بہترین ہتھیاروں سے لیس 140000 فوجیوں کو جنگ میں جھونک دیا مگر معیوب ہتھیاروں سے لیس 75000 افغانیوں سے شکست کھا گیا ۔۔۔ امریکہ نے 20 سالہ قبضے کے دوران دو ٹریلین ڈالر کا خطیر سرمایہ افغانستان میں صرف کیا مگر پھر بھی شکست کھا گیا ۔۔۔ افغانستان میں شکست کا نہایت نرم اعتراف وائٹ ہاؤس کی سیکرٹری اطلاعات جین ساکی (Jen Psaki) نے کیا جنہوں نے مورخہ 10 جولائی 2021ء کو ذرائع ابلاغ سے کہا کہ "ہم افغانستان کی جنگ کے لئے فتح و کامیابی کا اعلان نہیں کرسکتے کیونکہ اس جنگ میں 20 سال کے عرصے سے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے"۔
امریکی محکمۂ دفاع میں افغانستان، پاکستان اور وسطی ایشیا کے امور کے سابق نائب معاون سیکرٹری ڈیوڈ ایس سیڈنی (David S. Sedney) نے 13 اگست کو الجزیرہ انگریزی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: "امریکیوں کی طرف سے ملنے والا پیغام یہ ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ کر کیا رہے ہیں۔ آج سے 30 دن قبل امریکہ نے اپنے 3000 فوجیوں کو افغانستان سے نکال دیا۔ یہ افغانستان میں امریکی جنگ کا آخری فوجی دستہ تھا"۔
آکسیوس (Axios News) ویب گاہ نے 13 اگست کو لکھا: "اہم لمحہ آپہنچتا ہے، امریکی پرچم جو امریکی حکمرانی کے تحت چلنے والے مراکز پر لہرایا گیا تھا، نیچے کھینچ لیا جاتا ہے"۔ یہ درحقیقت امریکہ کے لئے ایک المیہ تھا اور امریکیوں کے لئے اس المیے کی گہرائی اس قدر زیادہ ہے کہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے کمانڈر ڈیوڈ پیٹریاس (David H. Petraeus) نے 13 اگست کو بی بی سی ٹیلی ویژن سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: "افغانستان سے امریکی افواج کی پسپائی ایک ڈروانا خواب ہے، مستقبل میں کوئی بھی اچھی نشانی دکھائی نہیں دے رہی ہے"۔
امریکہ نے 20 برس تک ہر قسم کے ظلم کا ارتکاب کیا ہے، دو ٹریلین ڈالر خرچ کیے ہیں، کم از کم 6000 امریکی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں، اور اب وہ اس عظیم رسوائی کو چھپانے کے لئے کوشاں ہے۔ لیکن اس رسوائی کے مختلف پہلو اس قدر عجیب ہیں، کہ امریکی انہیں چھپانے میں کامیاب نہیں ہورہے ہیں۔ عریاں حقیقت یہ ہے کہ بارک اوباما کے بقول "امریکہ اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ میں شکست کھا چکا ہے"، اور تمام تر رسوائی کے ساتھ افغانستان سے فرار ہوچکا ہے۔
کئی سال تک امریکی جنگ کے کمانڈر ڈیوڈ پیٹریاس جیسوں کی افسانہ پردازیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ لوگ اس لئے بہت زیادہ پریشان ہیں کہ امریکہ اس جنگ میں "اخلاقی طور پر" ہار گیا ہے! وہ کہتے ہیں کہ "ہم افغانستان میں 20 سال تک لڑ کر دہشت گردی کی بیخ کنی نہیں کرسکے ہیں، اور یہاں کے عوام کو نجات نہیں دلا سکے ہیں"، یا کہتے ہیں کہ ہم نے فوجی قبضے کے ذریعے افغانستان میں "جمہوریت کے قیام!" کا وعدہ دیا تھا لیکن یہ وعدہ نہ نبھا سکے، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بیچ سے ہی فرار ہونے پر مجبور ہوکر، افغانستان کے عوام کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے؛ لیکن ان کی ان باتوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ تزویراتی اہداف کے حصول میں شکست کھا چکا ہے۔
یہ بھی ایک تاریخ جھوٹ ہے کہ امریکہ نے 11 ستمبر کے حملوں کے بعد افغانستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا؛ اور افغان جنگ کے سلسلے میں دستیاب دستاویزات کے مطابق، اس جنگ کا منصوبہ سنہ 1994ء سے 1999ء کے دوران بنایا گیا۔ سنہ 1994ء میں جنرل پال وولفووٹز (Paul Wolfowitz) امریکہ کی وزارت دفاع کا قلمدان سنبھالا۔ انہیں مشن سونپا گیا کہ اکیسویں صدی میں امریکہ کے مطلق تسلط کے لئے منصوبہ سازی کریں۔ انھوں نے 400 فوجی اور سلامتی کے اداروں، نیز خفیہ ایجنسیوں کے افسروں اور سیاسیات کے ماہرین کی خدمات حاصل کرکے 1999ء میں ایک منصوبہ تیار کیا۔ 400 افراد کا یہ مجموعہ اس دوران میری لینڈ میں واقع بحریہ کالج کی حدود میں تعینات رہا۔
مذکورہ منصوبے میں امریکی تسلط کی راہ میں حائل ایک اہم رکاوٹ کی نشاندہی کی گئی اور یہ رکاوٹ ایشیا کی چار طاقتوں - یعنی روس، چین، ایران اور بھارت - کی مخالف پالیسیوں سے عبارت تھی۔ وولووٹز کی کمیٹی نے اس رکاوٹ کو ہٹانے کے لئے "افغانستان پر طویل المدت فوجی امریکہ قبضے" کی تجویز دی اور بل کلنٹن کی انتظامیہ میں تمام سیکورٹی اور فوجی حکام نے اس کی تصدیق اور تائید کرلی۔
اسی کمیٹی میں دیئے گئے نظریے کے تحت نیوکنزرویٹو کی حکومت برسر اقتدار لائی گئی حتی کہ جیتے ہوئے ایلگور کو ہرا کر ہارے ہوئے جارج ڈبلیو بش کو صدر بنایا گیا اور صرف سات مہینے بعد 9 ستمبر کو القاعدہ نے احمد شاہ مسعود کو قتل کر دیا جس کے دو دن بعد افغانستان پر ہلہ بولنے کا بہانہ تراشنے کے لئے 11 ستمبر سنہ 2001ء کا واقعہ رونما ہؤا اور جارج بش نے "صلیبی جنگ" کے دوبارہ آغاز کا اشارہ دے کر مورخہ 7 اکتوبر2001ء کو افغانستان کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور مختصر سے عرصے میں اس ملک پر قبضہ کیا۔
ان دنوں بعض امریکی منافقت کی انتہا کرکے "فوجی نہیں بلکہ اخلاقی" شکست کا رونا رو رہے ہیں اور افغان عوام پر احسان جتانے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن جارج بش اور ڈونلڈ ٹرمپ کے دور کے سلامتی امور کے مشیر جان بولٹن - جو رازداری کے لحاظ سے کچھ کمزور اور اصطلاحا پیٹ کے ہلکے ہیں - نے 12 اگست 2021ء کو اپنے ٹویٹر پیج پر لکھ ڈالا: "ہم افغانستان اس لئے نہیں گئے کہ ان کی قوم کی تعمیر کریں، ہم وہاں ہیں اس لئے کہ اپنی حفاظت کریں"؛ یوں جان بولٹن نے اصل امریکی ایجنڈے کا اعتراف کر ہی لیا۔
چنانچہ یہ حقیقت ناقابل انکار ہے کہ امریکہ کی "سب سے بڑی تزویراتی حکمت عملی" اکیسویں صدی میں پوری دنیا پر سیاسی اور عسکری تسلط جمانے کے لئے تیار کی گئی تھی اور اس حکمت عملی کا مرکز افغانستان پر امریکی وزارت دفاع کا طویل المدت فوجی اور معلوماتی قبضہ برقرار رکھنا تھا، اور اب یہ منصوبہ ناکارہ بن چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کسی ملک کے چھوڑنے کا نہیں ہے کیونکہ اسی قسم کا عمل اس سے پہلے ویت نام، صومالیہ اور شام میں بھی عمل میں آیا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا نہایت رسوا کن فرار، درحقیقت پوری دنیا پر تسلط کے امریکی خواب سے وداع کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔
جس دن امریکیوں نے ایران، روس، چین اور بھارت کو لگام دینے کی غرض سے افغانستان پر قبضہ کیا، یہ چار ممالک فوجی، معلوماتی، سیاسی اور معاشی لحاظ سے آج کی طرح بہتر پوزیشن میں نہیں تھے۔ امریکی فوجی آج ایسے حال میں مکمل طور پر افغانستان کو چھوڑ کر جارہے ہیں، کہ حتی وہ اپنے پسندیدہ منصوبے کے تحت ایران کو ویانا میں ہونے والے مذاکرات کی میز پر لانے اور ایران کی اعلان کردہ شرطوں کو نظرانداز کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکہ نے افغانستان کے میدان میں نہ صرف جنگ کو اپنے مد مقابل فریق کے سپرد کیا بلکہ حتی مذاکرات کے انتظام میں بھی ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔ امریکی محکمۂ دفاع کے سابق نائب معاون سیکرٹری ڈیوڈ ایس سیڈنی کہتے ہیں: "امریکہ دوحہ میں ہونے والے طالبان کے ساتھ جھوٹے اور جعلی امن مذاکرات میں حاضر ہے۔ یہ مذاکرات کسی صورت میں بھی امن کی خاطر سنجیدہ مذاکرات نہ تھے، بلکہ یہ مذاکرات در اصل "ہتھیار ڈالنے" کے عمل سے تعلق رکھتے تھے"۔ چنانچہ ان لوگوں کا تصور بھی باطل ثابت ہؤا کہ "امریکی جب جنگ میں رک جانے پر مجبور ہوتے ہیں تو اپنی پیشقدمی کو مذاکرات کی میز پر جاری رکھتے ہیں"؛ اور ثابت ہؤا کہ امریکیوں کو مذاکرات میں بھی شکست دی جاسکتی ہے۔
افغانستان کے حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ دوحہ مذاکرات میں شکست کھا چکا ہے کیونکہ وہ ان مذاکرات میں ایسا نمونہ حاصل کرنے میں ناکام رہا جس کے بدولت وہ دنیا میں اخلاقی لحاظ سے شکست خوردہ نہ دکھائی دے۔ امریکہ مذاکرات میں اپنے نوکر چاکروں - بشمول اشرف غنی - کے حق میں ایک قدم بھی اٹھانے سے عاجز رہا؛ چنانچہ حتی ان کی جان کی ضمانت حاصل کیے بغیر جلدبازی میں اپنی افواج افغانستان سے نکالنے پر مجبور ہؤا۔ امریکہ ان دنوں قطر، کویت، امارات، البانیہ، بلجیئم اور جرمنی سمیت مختلف ممالک کے ساتھ بات چیت کررہا ہے کہ یہ ممالک - اگر ممکن ہو تو - امریکہ کے افغان گماشتوں کو چند دن کے لئے اپنی سرزمینوں میں پناہ دیں۔
امریکہ فوجیوں نیز اپنی 20 سالہ جارحیت اور ظلم و جبر میں معاونت کرنے والی کثیرالاقوامی کمپنیوں کے کئی ہزار افراد کو کابل کے ہوائی اڈے کے ذریعے افغانستان سے نکال چکا ہے۔ مذکورہ کمپنیوں کے اراکین در حقیقت وہی افغانی-امریکی ہیں جنہوں نے کابل ائیرپورٹ پر امریکہ کی رسوائی کو دنیا جہاں تک پہنچا دیا؛ ان میں سے کچھ تو ہوائی جہاز کے پہیوں میں پھنس کر ہلاک ہوئے اور کچھ طیاروں سے لٹک کر آخر کار گر کر ہلاک ہوئے۔ امریکی ذرائع ابلاغ یہ جتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ لوگ امریکہ کے ہمدرد ہیں اور امریکہ کے لئے جان دینے کو بھی تیار ہیں؛ جنہوں نے طیاروں سے لٹک کر موت کو افغانستان میں خوف و ہراس کے سائے میں جینے پر ترجیح دی ہے؛ لیکن حقیقت یہ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ امریکہ کے وہ گماشتے ہیں جو امریکہ کے خونخوار اور دہشت گرد فضائیہ کے جرائم میں شریک تھے۔
افغانستان سے امریکی افواج کے فرار کو ستمبر 1979ء میں ایران ان کے ایران سے فرار، کے ساتھ تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ امریکی نیشنل پبلک ریڈیو (NPR) کی ایک یادداشت کے مطابق، افغانستان سے امریکی افواج اور سفارتکاروں کے فرار کے دوران، کابل کے امریکی سفارتخانے کے عملے کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اہم دستاویزات، مقالات اور کمپیوٹروں کو نکلنے سے قبل ہی جلا کر راکھ کردیں۔ ان ہی ایام میں ایک امریکی اہلکار نے آکسیوس نیوز کو بتایا ہے کہ: "زمینی صورت حال تیزی سے بدل رہی ہے، یہاں تک کہ اعلی سرکاری اہلکار اب رپورٹوں کو روزانہ وصول کررہے ہیں"۔
حالیہ ایام کے دوران امریکی حکمرانوں کا خوف صرف ستمبر 1979 میں امریکیوں کے خوف سے قابل تشبیہ ہے۔ اُس دن ایران، امریکہ کی بیسویں صدی کی فوجی اور معلوماتی گودی (dock) سمجھا تھا اور امریکہ کو نہایت ذلت و خفت کے ساتھ عالمی رسوائی کما کر اسے ترک کرنا پڑا؛ اور آج اسے افغانستان کو اسی طرح کی ذلت و خفت اور رسوائی کے ساتھ ترک کرنا پڑا ہے جو اکیسویں صدی میں امریکی فوجی اور معلوماتی قوت کی گودی سمجھا جاتا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ امریکہ سنہ 1945 سے سنہ 1979 تک ایران میں اپنے عظیم وسائل سے فائدہ اٹھاتا رہا تھا، دنیا میں اس کا کوئی بھی سنجیدہ مخالف نہیں تھا چنانچہ اس نے 35 سال تک ایران پر اور ایران کے توسط سے علاقے پر حکومت کی؛ جبکہ 2001 میں افغانستان پر قبضے اور 2021 میں اس ملک سے فرار تک کا عرصہ اُس دور سے بنیادی طور مختلف ہے؛ اور وہ اختلاف یہ ہے کہ اس دور میں ایران کا نہایت طاقتور اسلامی انقلاب اور اس انقلاب سے جنم والا نہایت زیرک اور ہوشیار نظام حکومت ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اس 20 سالہ عرصے میں امریکہ کے گلے سے خوشگوار پانی نہیں اترنے دیا، اور آخرکار اس کو مقررہ مدتِ قبضہ مکمل ہونے سے بہت بہت پہلے افغانستان سے فرار پر مجبور کردیا۔
افغانستان سے امریکہ کا فرار خود بخود انجام کو نہيں پہنچا ہے اور یہ واقعہ ایک جماعت یا گروہ کی ذہنی صلاحیت سے کہیں زیادہ بڑا واقعہ ہے۔ افغانستان، عراق اور علاقے کے دوسرے ممالک سے امریکہ کو نکال باہر کرنے کا منصوبہ، اسلامی جمہوریہ ایران کا منصوبہ ہے جس کو پوری باریک بینی کے ساتھ، خاص قسم کی نظام الاوقات کے مطابق، اور علاقائی قوتوں کے برادرانہ اور مصلحانہ تعاون کے ساتھ، نافذ کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: ڈاکٹر سعد اللہ زارعی، جامعۂ علامہ طباطبائی کے سیاسیات کے پروفیسر۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110