اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
منگل

7 ستمبر 2021

7:16:52 PM
1177783

افغانستان سے امریکہ کا ذلت آمیز فرار؛

امریکی طاقت محدود ہوچکی ہے ... صہیونی تھنک ٹینک/ اسرائیلی ریاست افغان صورت حال سے فکرمند، کیوں؟

کابل پر طالبان کے قبضے اور موت کے خوف سے بھاگنے والے افغانی باشندوں کی تصویروں نے عالمی برادری پر لرزہ طاری کیا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ ایک یہودی-صہیونی انسٹی ٹیوٹ نے اعتراف کیا ہے کہ افغانستان سے امریکہ اور اس کے حلیفوں کی پریشان حال اور غیرمنظم، ذلیلانہ پسپائی، اس حقیقت کو نمایاں کرتی ہے کہ مغربی جمہوریت کے طرز پر "ملت سازی" (Nation Building) کی امریکی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔
کابل پر طالبان کے قبضے اور موت کے خوف سے بھاگنے والے افغانی باشندوں کی تصویروں نے عالمی برادری پر لرزہ طاری کیا۔
صہیونی ریاست کی قومی سلامتی کے مطالعات کے ادارے نے اپنے دو سینئر اراکین کی "شیمون اشتائن" (Shimon Stein) اور "ایلداد شاویت" (Eldad Shavit) کی لکھی ہوئی رپورٹ شائع کی ہے جس کی ابتداء میں سوال لکھا گیا ہے: سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان پر 20 سال تک قبضہ جمانے والے امریکہ کی شکست اور مغربی جمہوریت کی بنیاد پر اس ملک میں ملت سازی میں ناکامی، کیا واشنگٹن کی بین الاقوامی پوزیشن کو متاثر کرے گی؟ اور دوسرا سوال یہ کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال اسرائیل کے لئے کیوں اہمیت رکھتی ہے؟
محترم قارئین و صارفین! رپورٹ کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:
امریکی چہرہ بگڑ گیا ہے اور امریکی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے
افغانستان سے امریکہ اور اس کے حلیفوں کی پریشان حال پسپائی، افغانستان کی حکومت اور فوج کی شکست و ریخت اور طالبان کے قبضے کا تلخ ذائقہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں مغربی جمہوریت کے اصولوں پر مبنی ملت سازی (Nation Building) کی کوششوں میں ناکام ہوچکا ہے۔ اگر امریکہ ابتدائی مقصد کے حصول کے فورا بعد افغانستان کو چھوڑ جاتا اور اس ملک کو نئی شکل دینے کی کوشش نہ کرتا، آج اس کو پسپائی کے عمل کی پیچیدگیوں کا سامنا نہ کرتا اور پسپائی نیز ایک بار پھر افغانستان کی دہشت گردی برآمد کرنے والے اڈے میں تبدیلی کی وجہ سے اسے اتنی شرمندگی نہ اٹھانا پڑتی۔
امریکہ کا چہرہ بگڑ گیا ہے اور کم از کم مختصر مدت کے لئے اس کی ساکھ مجروح ہوچکی ہے اور اب مختلف بین الاقوامی کھلاڑی اس صورت حال سے اپنے مفادات کے حصول کے لئے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ اس کے باوجود، ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ افغانستان سے امریکہ کی پسپائی کیا ایک طویل المدت تزویرتی چیلنج میں تبدیل ہوتی ہے یا نہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اسرائیل کو یہ دیکھنا چاہئے کہ یہ مسئلہ دہشت گرد اسلامی تنظیموں نیز علاقے سے امریکہ کے نکال باہر کرنے کی ایرانی عزم و ارادے پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے۔ علاوہ ازیں - علاقے میں امریکی افواج کی تعیناتی میں تبدیلیوں کے پیش نظر - مشرق وسطی میں اسرائیلی کردار کے بارے امریکی نقطہ نظر بھی اسرائیل کے لئے بہت اہم ہے۔
امریکہ کو غیرمتوقع صورت حال کا سامنا کرکے افغانستان سے بھاگنا پڑا
افغانستان سے امریکہ اور اس کے حلیفوں کا منصوبہ بند انخلاء ایسی صورت حال میں جاری ہے کہ طالبان نیز نہایت تیزرفتاری سے ملک پر قبضہ کرلیا ہے اور افغان راہنما اور سب سے اہم افغان فوج - جس کو تربیت دینے اور لیس کرنے پر کئی برسوں کے دوران میں اربوں ڈالر خرچ کئے گئے تھے - نے اس طرح کی صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔
تیزی سے، بہت پریشان حالی کی کیفیت میں رونما ہونے والے واقعات نے امریکہ کے اندر اور باہر متعدد سوالات کو جنم دیا، یوں کہ کیا ان واقعات کے وقوع پذیری ناگزیر تھی یا نہیں بلکہ یہ حالات انتظام و انصرام اور سب سے اہم، انٹیلی جنس کے شعبے میں، ایک بڑی کوتاہی کی عکاسی کرتے ہیں؟ یہ سوال، جولائی کی ابتداء میں جو بائیڈن کے فیصلہ کن موقف کے پیش نظر، بہت اہم ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ افغان فوج کامیابی کے ساتھ طالبان کا مقابلہ کرے گی، جس کے نتیجے میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کا امکان کمزور پڑ جاتا ہے!
حتی اگر یہ سب ایک معلوماتی حوالے سے ایک ناگہانی اور خلاف توقع قضیہ بھی قرار دیا جائے، پھر بھی امریکی حکومت کے پاس کافی فرصت تھی کہ وہ علامتی اور باضابطہ اعلان شدہ تاریخ - 11 ستمبر 2021 - تک امریکی اور نیٹو افواج کے منظم انخلاء کے لئے تیاری کرے اور ان افغانوں کو بروقت ملک سے نکال دے جنہوں نے امریکہ اور اس کے حلیفوں کے ساتھ تعاون کیا تھا اور یوں وہ اس تصور کے ابھرنے کا سدباب کرے کہ "مغرب کے معاون افغان شہری افغانستان سے فرار ہورہے ہیں"۔ امریکہ افغانستان سے انخلاء اور "انخلاء کے ایک روز بعد" کے لئے ماحول سازی کے ایک حصے کے سانچے میں، پاکستان، چین، بھارت، روس اور ترکی جیسے پڑوسی ممالک کے ساتھ ایک علاقائی اقدام کا اہتمام کرسکتا تھا اور یوں وہ افغانستان کے عدم استحکام اور ایک بار پھر وہاں دہشت گردی برآمد کرنے والے اڈے بننے کے خطرے کو کافی حد تک کم کرسکتا تھا اور امریکہ کے انخلاء سے پیدا ہونے والے افرادی، سیاسی اور معاشی عواقب اور دشواریوں کا سامنے کرنے کی تیاری کرسکتا تھا۔
امریکہ افغانستان میں اپنے اہداف تک نہ پہنچ سکا
پسپائی پر منتج ہونے والے آخری ایام میں، افغانستان کے راہنماؤں اور طالبان کے رویوں کا سامنا کرنے کے لئے، امریکہ کی عدم آمادگی کے بارے میں متعدد سوالات اٹھے ہیں۔ ایک حیاتی اور کلیدی سوال کا تعلق اس مسئلے سے تعلق رکھتا ہے کہ افغانستان میں امریکی "مہم جوئی" جو 20 سال تک طویل ہوئی، کس حد تک اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہوسکی ہے؟ امریکہ نے [[بظاہر]] القاعدہ پر کاری ضرب لگانے کے لئے افغانستان پر چڑھائی کی اور اس کا ثانوی ہدف (!!) افغانستان میں مغربی جمہوریت کے اصولوں کے مطابق، "ملت سازی" کا عمل تھا۔ پہلا ہدف کافی حد تک حاصل ہوچکا (منجملہ یہ کہ سنہ 2011 میں بن لادن کا خاتمہ کیا گیا)، لیکن امریکہ ثانوی ہدف (!!) حاصل کرنے میں ناکام رہا جیسا کہ عراق میں بھی ان ہی دلائل کی بنا پر ایسا کرنے میں ناکام رہا تھا۔ یہ ناکامی نمایاں کرتی ہے کہ ان معاشروں پر - اقدار پر مبنی سیاسی اور انتظامی - تبدیلیاں تھونپنے کے لئے طاقت کا استعمال نہایت بیہودہ عمل ہے، جو مختصر مدت میں ایسی تبدیلیاں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اگر امریکہ ابتدائی ہدف کے حصول کے فورا بعد افغانستان کو ترک کرتا اور اس ملک کو نئی شکل دینے کی کوشش نہ کرتا، آج پسپا ہونے پر اس کو خفت و شرمندگی نہ اٹھانا پڑتی۔
افغانستان سے پسپائی کا عمل ناگزیر تھا
بہرصورت، - حتی افغانستان سے ملنے والی تصویریں امریکی حکومت کے لئے خوشایند نہیں ہیں اور افغانستان کے واقعات امریکی خارجہ پالیسی کے زعماء کے لئے حیرت انگیز اور غیر متوقعہ ہونے کی صورت میں بھی - افغانستان سے انخلاء کے سلسلے میں جو بائیڈن کا فیصلہ ناگزیر تھا، کیونکہ نہ صرف ان کا یہ فیصلہ امریکی طاقت کے محدود ہونے کے بارے میں ان کے ادراک کی عکاسی کرتا تھا بلکہ ان کے اسلاف - بارک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ - کے ارادوں کو عملی جامہ پہنا رہا تھا۔
علاوہ ازیں ٹرمپ نے جو معاہدہ طالبان کے ساتھ منعقد کیا (اور طالبان نے اسی پر عملدرآمد کیا) بتا رہا تھا طالبان امریکہ کے جائز شراکت دار ہیں۔ بائیڈن کی حکومت، اور چین، روس اور ایران جیسے ممالک طالبان کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہیں اور وہ افغانستان کے اندر بھی اور باہر بھی، طالبان کے رویوں کی کیفیات پر اثرانداز ہونا چاہتے ہیں۔ حتی اگر سب صدر بائیڈن کو ایسے شخص کے طور یا کریں - جس نے طالبان کے بارے میں غلط اندازہ لگایا تھا اور انہیں کمزور سمجھا تھا، افغان فوج کی طاقت کے بارے میں خوش فہمی کا شکار ہوئے تھے - پھر بھی بین الاقوامی تنازعات میں - بالعموم امریکی مداخلت اور بالخصوص فوجی - مداخلتوں کی وجہ سے امریکی عوام کی تھکاوٹ اور اکتاہٹ، نکتہ چینیوں کی قوت کو توڑ دیتی ہے؛ یا حتی شاید ان نکتہ چینیوں کو بےاثر کردے؛ اور بالکل معلوم ہی نہیں ہے کہ لمبی مدت میں صدر بائیڈن کو سیاسی حوالے سے کسی قسم کا نقصان اٹھانا پڑے۔
امریکہ کی ساکھ بحیثیت سوپرپاور، مجروح ہوچکی ہے
علاوہ ازیں افغانستان میں امریکہ کے وجود کا خاتمہ، باعث ہوگا کہ یہ ملک اپنی توجہات اور وسائل کو آسانی کے ساتھ اس چیز پر مرکوز کردے جس کو بائیڈن نے ملک کا بنیادی چیلنج قرار دیا ہے؛ اس چیلنج کا نام "چین" ہے۔ جولائی 2021ء میں - جبکہ افغانستان سے امریکی پسپائی کا عمل جاری تھا - صدر بائیڈن نے عراق کے ساتھ تزویراتی بات چیت کے ضمن میں اعلان کیا کہ امریکہ اس سال کے آخر تک عراق میں اپنی فوجی کاروائیوں کا خاتمہ کرے گا اور اس ملک میں باقیماندہ امریکی فوجیوں کی سرگرمیوں کو عسکری مشاورت اور مقامی افواج کی تربیت پر مرکوز کرے گا۔ امریکہ کے اس فیصلے کو شاید، حتی افغانستان سے ملنے والی تصاویر کو دیکھ کر بھی نہ بدلا جاسکے؛ اگرچہ یہ تصاویر شاید عراق سے امریکی افواج کے انخلاء کی ماحول سازی کو متاثر کرے۔ علاوہ ازیں، افغانستان کے برعکس، عراق سے امریکی افواج کی پسپائی کا عمل عراق کے ساتھ ایک مفاہمت کے تحت اور عراقی راہنماؤں کے تعاون سے انجام پا رہا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہونے والی بین الاقوامی کوششوں کے تناظر میں - اور اس سے زیادہ اہم مسئلے، یعنی امریکہ کی اعلیٰ پوزیشن کی بحالی کے سلسلے میں اس کے عزائم کو دیکھتے ہوئے - افغانستان میں تازہ ترین پیش رفت کے تمام نتائج کا جائزہ لینا ہنوز قبل از وقت ہے۔ مختصر مدت میں، افغانستان کی صورت حال یقینی طور پر ایک بڑی طاقت کے طور پر امریکہ کی ساکھ مجروح ہوگی اور ضرورت کے وقت مدد کے لئے واشنگٹن کی تیاری کے حوالے سے، اس کے حلیفوں کے اعتماد امریکہ کے حلیفوں کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچے گی- حتی کہ اب جبکہ طالبان پورے ملک پر اپنی عملداری قائم کرنے کے لئے کوشاں ہیں، طالبان اور القاعدہ ایک بڑی طاقت پر فتح کا جشن بھی منائیں گے۔ وہ اس کامیابی کو ایک اسلامی اور مذہبی حصول یابی کے طور پیش کریں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بین الاقوامی کھلاڑی امریکی کی قوت اور عزم کو بھی آزمانا چاہیں؛ اور امریکی ساکھ پر کو پہنچنے والے نقصان کا فائدہ اٹھاکر اپنے مفادات کے حصول کی کوشش کریں، اس کے باوجود ہنوز واضح نہیں ہے کہ امریکہ کی موجودہ شکست کس حد تک ایک طویل المدت چیلنج میں تبدیل ہوسکتی ہے؛ جو امریکہ کی موجودہ پوزیشن کو سنجیدگی سے خطرے میں ڈال سکے۔
سقوطِ کابل کے نتائج سے افغانستان کے پڑوسیوں کو تشویش
یہ بھی قوی امکان ہے کہ چین، بھارت، ایران، اور حتی روس - جو تاجکستان کو اپنے پچھواڑے کا ایک حصہ سمجھتا ہے - جیسے پڑوسی ممالک افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ سے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ یہ خطرہ - کہ طالبان اپنا رخ ان کی طرف موڑ دیں - انہیں مجبور کرتا ہے کہ ان خطرات سے نمٹنے کے لئے پہلے سے زیادہ وسائل اور بجٹ مختص کریں۔ دوسری طرف سے [افغانستان میں عدم استحکام اور پڑوسی ممالک کو لاحق خطرات کے سائے میں] رونما ہونے والے تمام واقعات مغرب اور بطور خاص امریکہ کے مفادات کی تکمیل کا باعث ہونگے۔
حقیقت یہ ہے کہ صدر بائیڈن نے انخلاء کے عمل کی تشریح کے ضمن میں زور دے کر کہا کہ چین اور روس کی خواہش ہے کہ امریکہ افغانستان میں تعینات رہیں تاکہ وہ اس کو کمزور کرسکیں۔ اسی بنا پر اقوام متحدہ کی سربراہی میں ایک علاقائی کانفرنس امریکہ سمیت اس مسئلے کے تمام فرقیوں کی مدد کرے گی کہ وہ باہمی ہم آہنگیوں کو مضبوط کریں اور اطمینان حاصل کریں کہ افغانستان سے امریکی افواج کی پسپائی اطراف کے ممالک میں عدم استحکام کا سبب نہیں بنے گی۔ اس حوالے سے، ایسے اقدام سے جنم والے انسانی مسائل، سلامتی، سیاست اور معیشت پر مرتب ہونے والے اثرات پر خاص طور پر زور دیا جا سکتا ہے۔ امید ہے کہ افغانستان کے لیے تمام امداد ان شرائط سے مشروط ہوگی جو افغانستان میں مقیم کسی بھی حکومت کو، اس ملک کو ایک بار پھر دہشت گرد تنظیموں کی پناہ گاہ میں تبدیل نہیں ہونے دیں گی۔
افغاتستان کی صورت حال سے یہودی ریاست پر مرتب ہونے والے اثرات
یہودی ریاست (اسرائیل)، کے حوالے سے، حالات کا جائزہ تین سطوح میں اہمیت رکھتا ہے:
1۔ دہشت گرد تنظیموں پر افغان صورت حال کے اثرات:
[صہیونی تھنک ٹینک نے دعوی کیا ہے کہ] گوکہ افغانستان پر طالبان کا تیز رفتار قبضہ اور اس تصور کی ترویج - کہ انھوں نے امریکہ کو شکست دی ہے - انتہاپسند دہشت گرد تنظیموں کے عزم کو تقویت پہنچا سکتی ہے، اور وہ اس کے نتیجے میں مشرق وسطی سمیت پوری دنیا میں اسرائیلی اہداف کے خلاف، اپنی سرگرمیوں کو وسعت دی سکتی ہیں! (1) تاہم اسرائیل مخالف دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جنگ میں امریکہ کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے، چنانچہ افغانستان سے امریکہ کے انخلاء کے بموجب ان تنظیموں کے تجزیئے اور اہداف کے سلسلے میں ان تنظیموں کے رویئے میں کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوگا!
2۔ ایران کا علاقائی طرز عمل:
افغانستان کی صورت حال ایران کو مشکل صورت حال سے دوچار کرتی ہے۔ ایران امریکی انخلاء کو ایک مثبت واقعہ سمجھتا ہے، کیونکہ اس ملک کی خواہش ہے کہ مشرق وسطی میں امریکی موجودگی کا خاتمہ کرے؛ تہران کو امید ہے کہ دوسرے مرحلے میں عراق سے بھی امریکی انخلاء عمل میں آئے؛ کیونکہ اس صورت میں ایران کے پچھواڑے کی سلامتی کو تقویت پہنچتی ہے نیز ایران کے لئے یہ [شہید جنرل] قاسم سلیمانی کے "تزویراتی انتقام" کے زمرے میں آئے گا۔ امریکی پسپائی کا یہ سلسلہ ایران کے اس عزم کو تقویت پہنچاتا ہے کہ "امریکیوں پر زیادہ سے زیادہ دباؤ لایا جائے اور اس کو "قائل کیا جائے" کہ عراق سے انخلاء پر مبنی اپنے عزم پر عملدرآمد کرے۔ دوسری طرف سے، اگر ایران سے درخواست کی جائے کہ افغانستان میں مداخلت اپنی مداخلت میں اضافہ کرے (جس کا امکان فی الحال دکھائی نہیں دے رہا) تو اس ملک کو (خاص طور پر سپاہ پاسداران کی طرف سے) وسائل کی ضرورت ہوگی، اور بظاہر اس طرح کے وسائل اس کے پاس نہیں ہیں اور اگر اس طرح کے وسائل فراہم بھی ہوں پھر بھی اس طرح کی مداخلت ایران کی علاقائی سرگرمیوں کو نقصان پہنچائے گی۔
3۔ اسرائیل امریکہ تعلقات
افغانستان سے ملنے والی تصاویر کے باوجود - جنہیں افغانستان سے امریکہ کے فرار کا مطلب لیا جا رہا ہے - یہ توقع نہیں کی جارہی ہے کہ - صدر بائیڈن کے بقول "لامتناہی فوجی تناز‏عات سے نکلنے" اور مشرق وسطی میں فوجی موجودگی کم کرنے - کے امریکی عزم میں تبدیلی آئے گی۔ علاقے کے بڑے کھلاڑیوں کو یقین ہے کہ امریکہ کی قومی سلامتی کے لئے مشرق وسطی کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ سے اب امریکہ اس علاقے کے معاشی اور عسکری شعبوں میں سرمایہ کاری کی طرف کم ہی مائل ہوتا ہے۔ یہ امریکی رویہ علاقائی ممالک کو مجبور کرتا ہے کہ اپنے جائزوں اور رویوں کی تجدید کریں اور امریکہ کے بارے میں اپنی سوچ کو نئے تقاضوں کے سانچے میں ڈھال دیں۔ یہ تفکر شاید علاقائی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اسرائیل کی تئیں امریکی مدد و حمایت کے بارے میں بھی ان کے تجزیوں کو متاثر کرے۔
لگتا ہے کہ امریکہ اپنے فوجی وسائل کو ایران کے مقابلے کے لئے استعمال نہیں کرے گا
صہیونی تھنک ٹینک نے مزید لکھا: علاوہ ازیں کہ اسرائیل کو عینی اور عملی لحاظ سے اپنے اقدامات کے لئے اس امریکی منصوبہ بندی کا پورا ادراک کرکے، منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ خواہ اگر امریکہ اسرائیل کے ساتھ اتحاد اور دوستی اور اس کی حمایت میں سچا بھی ہو، پھر بھی یہ امکان بہت کم ہے کہ یہ ملک مستقبل میں اپنے فوجی وسائل کو اس علاقے کے چیلنجوں - بالخصوص ایران کی پالیسیوں سے جنم والے چیلنجوں - سے نمٹنے پر صرف کرنا چاہئے۔ تاہم مشرق وسطی سے انخلاء کا امریکی رجحان شاید اسرائیل کی قدر و قیمت کے حوالے سے امریکی تجزیوں کو تقویت پہنچائے، اور امریکی پالیسیوں میں اسرائیل ایسی ریاستوں کے زمرے میں شمار کیا جائے جو علاقے میں امریکی مفادات کے حصول میں ممد و معاون ہوسکتی ہے!
.........
رپورٹرز کا تعارف:
- شیمون اشتائن (Shimon Stein) یہودی ریاست کے انسٹی ٹیوٹ برائے مطالعاتِ قومی سلامتی (Institute for National Security Studies [INSS]) کا سینئر ریسرچ ممبر ہے۔ وہ بیرونی خدمات کے شعبے میں طویل عرصے تک مصروف عمل رہنے کے بعد اس انسٹی ٹیوٹ سے جا ملا۔ وہ 2001ء سے 2007ء تک جرمنی میں صہیونی ریاست کا سفیر تھا۔ اس سے پہلے وہ اسلحے کے عدم پھیلاؤ، تخفیف اسلحہ، ہتھیاروں پر کنٹرول اور علاقائی سلامتی جیسے اداروں میں غاصب ریاست کا رکن تھا؛ اور صہیونی وزارت خارجہ میں آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ (Commonwealth of Independent States) نیز مرکزی اور مشرقی یورپ کے امور کا ڈپٹی ڈائریکٹر تھا۔ اشتائن وزارت خارجہ کے واشنگٹن، جرمنی اور صہیونی ریاست کے اندر، دوسرے عہدوں پر بھی فائز رہا اور اور ہتھیاروں کے کنٹرول کے سلسلے میں ہونے والے کثیر الملکی مذاکرات میں اسرائیل کا ایلچی تھا۔ اشتائن فی الحال بین الاقوامی مشیر کے طور پر سرگرم عمل ہے۔ وہ حالات حاضرہ پر مضامین لکھ کر جرمن اور امریکی ذرائع ابلاغ میں شائع کرتا ہے۔
- ایلداد شاویت (Eldad Shavit) صہیونی عسکری انٹیلجنس اور وزیراعظم کے دفتر میں طویل عرصہ سرگرم رہنے کے بعد سنہ 2017ء کے اوائل میں سینئر ریسرچ فیلو کی حیثیت سے INSS سے جا ملا۔ ریزرو کرنل شاویت نے یہودی فوج میں اپنے آخری عہدے کے طور پر ادارہ تحقیقات کا معاون سربراہ بنا اور وزیر اعظم کے دفتر میں بھی سنہ 2011ء سے سنہ 2015ء تک ادارۂ تحقیقات کا سربراہ تھا۔ وہ ان تمام مناصب میں علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کے بارے میں معلوماتی [انٹیلیجنس] تجزیوں کی تیاری پر مامور تھا۔ سنہ 1994ء اور 1955ء میں وزیر اعظم کے ملٹری سیکریٹری کے دفتر نیز وزیر دفاع کے دفتر میں انٹیلجنس کے شعبے کا سربراہ تھا۔ شاویت تل ابیب یونیورسٹی سے مشرقی ایشیا کے مطالعے میں ایم فل اور مشرق وسطی کے مطالعے میں ایم اے کرچکا ہے۔
......۔
1۔ دنیا جانتی ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کا خالق امریکہ اور حامی اسرائیل، امارات اور سعودی عرب ہیں، اور ان کی تشکیل کا مقصد صہیونی مفادات کا تحفظ ہے چنانچہ یہ دعوی مضحکہ خیز ہے کہ وہ کبھی صہیونی مفادات کو بھی نشانہ بنائیں گی!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110