اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
بدھ

1 ستمبر 2021

5:21:32 PM
1175650

امریکی سلطنت [Am. Empire] کا زوال عنقریب ۔۔۔ صہیونی اخبار

امریکی سلطنت آج ایک قسم کی بیہودگی میں تبدیل ہوچکی ہے جو اپنے عوام سے بےاعتنائی کرتی ہے لیکن ملکی خزانے کو ایک غیر ممکن آرز‎ؤوں کے حصول کر لئے ایسے دشمن کے خلاف خرچ کرتی ہے جس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ "امریکی سلطنت" کا دور بہت دشوار تھا"۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ یروشلم پوسٹ میں مندرجہ یادداشت میں افغانستان میں امریکی شکست کا جائزہ لیا گیا ہے اور یہودی قلم کار "عاموتس عاسائل" نے لکھا ہے: عالمی انتظام کسی صورت میں بھی امریکہ کے سپرد نہیں ہونا چاہئے تھا اور افغانستان میں اس کی 20 سالہ جنگ کو آخری استعماری جنگ [Imperialistic War] ہونا چاہئے۔
مقبوضہ فلسطین میں شائع ہونے والے صہیونی اخبار یروشلم پوسٹ نے عاموتس عاسائل نامی کالم نگار کے قلم سے ایک یادداشت شائع کی ہے جس میں افغانستان سے امریکہ اور اس کی حلیف افواج کے عجلت زدہ فرار کا جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ "اس عظیم شکست نے ثابت کیا ہے کہ دنیا پر تسلط ہونے کے سلسلے میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی [عالمی] سلطنت کے دن گنے جاچکے ہیں اور یہ سلطنت اپنے زوال کے قریب پہنچ چکی ہے۔
یادداشت کی ابتداء میں مکتوب ہے: "امریکی سلطنت اور امریکہ نامی ملک کا بہت مہنگا، متضاد اور فوقیت پسندانہ دور - جو 120 سال قبل جزائر ہوائی (Hawaii) اور فلپائن پر قبضے سے شروع ہؤا تھا اور بعدازاں دنیا کی طاقتورترین سلطنت میں بدل گیا - اس وقت یہ ملک اندازے (Size) کے لحاظ سے بےہودگی، اخراجات کے لحاظ سے نامعقول گرانی اور اہداف و مقاصد کے لحاظ سے بے ربطی زوال کے قریب پہنچ چکا ہے"۔
اس وقت، جبکہ امریکی معاشرے کو بہت سے دوسرے مسائل - جیسے اسلحہ پر کنٹرول، صحت اور حفظان صحت، فلاح عامہ، اسقاط حمل وغیرہ - کے بموجب انتشار کا شکار ہوچکا ہے استعماری پسپائی ان بڑے اہداف میں سے تھا جس میں ڈونلڈ ٹرمپ اور بارک اوباما اور جو بائیڈن میں سے ہر ایک نے اپنی نالائقی اور نااہلی کی سطح کے اپنے اپنے مدارج - نے کردار ادا کیا ہے۔
یادداشت کے اہم نکات:
- استعمار (Imperialism) کی تاریخ، امریکہ کے اپنے حالات اور امریکی معاشرے کی نسلی اور جینیاتی (Genetic) صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ پسپائی وہ واحد عمل ہے جو چچا سام (امریکہ) کو انجام دینا چاہئے۔۔۔ امریکی سلطنت نے دنیا بھر میں 800 فوجی اڈے قائم کیے، دوسری چار بڑی طاقتوں سے 20 گنا زیادہ۔ بیرون ملک تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد دو لاکھ تک پہنچتی ہے جو فرانس کی پوری فوج کے برابر ہے۔ دنیا کے تمام 195 ممالک میں سے 150 ممالک کو امریکی افواج کی میزبانی کرنا پڑ رہی ہے۔
- امریکہ کا سالانہ فوجی بجٹ 770 ارب ڈالر ہے؛ امریکی تاریخ کے مختلف مراحل میں مختلف چیزوں کے خواہاں رہے ہیں۔۔۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ کے استعماری موقف میں تبدیلی آئی؛ امریکہ مزید ایک نوجوان ملک نہیں تھا جو اپنی طاقت جمانے اور منانے کے لئے فکرمند رہنا پڑے؛ بلکہ اب دنیا میں [بطور عالمی طاقت] اسے اپنی بقاء کی فکر لاحق تھی اور یہی فکر اس کو آگے کی طرف دھکیل رہی تھی۔
- سوویت اتحاد (Union of Soviet Socialist Republics [USSR]) امریکی اقدامات کی وجہ سے سرد جنگ کے خاتمے پر زوال پذیر ہؤا جس کے بعد امریکی سلطنت اپنے تیسرے مرحلے کی طرف روانہ ہوئی جس میں وہ کامیاب نہ ہوسکی، نواعتقادی (Proselytism)۔۔۔ امریکی سلطنت اس دور میں اپنی انجیل اور اپنے لئے مختص [امریکی] انجیل "بنانے" کے درپے تھی۔ امریکی استعماری عقائد ٹھونسنے کا یہ امریکی عمل، افغانستان پر قبضے سے پہلے بھی، ناکامی سے دوچار ہوچکا تھا، اور اس کے بعد بھی ناکام رہے گا۔ دنیا کو اپنے عقائد قبول کرنے آمادہ کرنے کے لحاظ سے چچا سام کے پاس دستیاب امکانات دوسرے ممالک سے کچھ زیادہ نہیں ہیں۔ چنانچہ افغانستان میں امریکی شکست کو آخری استعمار جنگ ہونا چاہئے۔
- یہ الگ مسئلہ ہے کہ آپ کے پاس ایک تفکر کی حفاظت کی طاقت ہو، جیسا کہ امریکہ نے سرد جنگ میں انجام دیا؛ لیکن اگر آپ اس طاقت کو اپنی فکر [اور اعتقاد یا باور] کی توسیع کے لئے استعمال کرنا چاہیں، تو یہ بالکل دوسرا اور مختلف مسئلہ ہے جو بالکل ناقابل عمل ہے۔ یہ مسئلہ دوسری دلیل ہے اس حقیقت کی کہ اس دور میں امریکیسلطنت کا ہونا مہمل اور بےمعنی ہے۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ دوسری بڑی طاقتیں - سابق سوویت اتحاد کے برعکس - اپنے عقائد و افکار کی ترویج کے درپے نہیں ہیں۔ روس اور چین [بقول عاسائل] جمہوریت کے خلاف ہیں، لیکن مغرب کی انتظامی روش کو چیلنج نہیں کرتے۔
- سوال یہ ہے کہ "پھر تم امریکی افواج، فوجی آڈوں اور طیارہ بردار بحری جہازوں کے ذریعے دنیا کو گھیر کیوں لیتے ہو؟ اور یہ کہ ہر سال 770 ارب ڈالر فوج پر کیوں خرچ کرتے ہو، حالانکہ امریکہ کے بڑے شہر جھونپڑی نشینوں کی بستیوں کی وجہ سے بدبو اور متعفن ہوچکے ہیں، اور ان بستیوں میں کروڑوں ان پڑھ امریکی غربت، خفت و ذلت مایوسی اور اداسی کی زندگی بسر کررہے ہیں؟"۔
- امریکی سلطنت آج ایک قسم کی بیہودگی میں تبدیل ہوچکی ہے جو اپنے عوام سے بےاعتنائی کرتی ہے لیکن ملکی خزانے کو ایک غیر ممکن آرز‎ؤوں کے حصول کر لئے ایسے دشمن کے خلاف خرچ کرتی ہے جس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ "امریکی سلطنت" کا دور بہت دشوار تھا"۔
واضح رہے کہ اس سے قبل رچرڈ نکسن دور کے وزیر خارجہ، امریکی قومی سلامتی کے سابق مشیر اور امریکی سفارت کاری کے نظریہ پرداز ہنری کیسنجر نے بھی اپنے مضمون میں لکھا: "جو واقعہ افغانستان میں رونما ہؤا، وہ درحقیقت امریکہ کی رضاکارانہ، اٹل اور ناگزیر شکست سے عبارت ہے، واشنگٹن نے ایسے حالات میں خود کو گھرا ہؤا پایا، جن میں اسے پسپائی کے سوا کوئی بھی دوسرا راستہ نظر نہيں آیا"۔
۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔
110